نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لیاری کے ڈانز کی کہانی: شیرک دادل سے عزیر بلوچ تک (1) ۔۔۔ حسن مجتبیٰ

وہ کہ جسکے باپ کو کبھی فیضو چرسی کہا جاتا تھا۔ کہ وہ چرس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناکر علاقے میں بیچا کرتا۔

ایک دبلا پتلا لیکن پھرتیلا قبول صورت نوجوان ون ھینڈریڈ ٹوئینٹی فائیو 125 ہنڈا موٹر سائیکل پر چاکیواڑہ لیاری سے شاہ یقیق (ٹھٹھہ) کو جانے والی بس سے ریسنگ کررہا ہے۔ اور کبھی اس بس کی کھڑکی پر “لیڈیز سیٹ” کی سائیڈ پر بیٹھی لڑکی کی سائیڈ پر موٹر سائیکل کو غلط سائیڈ سے کاٹتے ہاتھ ہلا رہا رہا ہے، کبھی اسے ایک پہیے پر چلانے کےکرتب نیشنل ہائی وے پر کررہا ہے۔ انڈین فلمی گانے “یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے” جیسے سین کا منظر لگتا ہے۔ لیکن یہ منظر فلم یا فلمی گانے کا نہیں۔ یہ ون ٹوئنٹی فائیو موٹر سائیکل پر “ہیرو” نوجوان لیاری کی گلیوں کا رومیو عزیز بلوچ ہے اور بس میں شاہ یقیق کی زائر لڑکی اسکی مبیینہ محبوبہ جسے وہ اپنی “ڈیٹ” بتاتا۔ اور اس “ڈیٹ” سے ملنے وہ اسی طرح موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتا شاہ یقیق تک جاتا۔

نہ لیاری کی افشانی گلی سنگھو لین کے ساتھ والے سربازی محلے کے اس لڑکے اور نہ ہی لیاری والوں نے کبھی سوچا ہوگا اور نہ ہی کبھی تمام لیاری نے کہ انکی ایک گلی سے یہ لڑکا سردار عزیز بلوچ کہلا کر ملک گیر سطح کا ڈان بن کر “اتنی بڑی فلم” بن جائے گا کہ جو ملک کے کسی بھی بڑے کے گلے میں پڑ سکتی ہے یا ڈالی جاسکتی ہے۔ مگر یہ ملک کے بڑے تھے جنہوں نے یہ فلمیں لیاری والوں کے گلے میں ڈالی ہیں ایوب خان اور ہارونوں سے لیکر بینظیر بھٹو، زرداری اور اب عمران خان تک۔

کس نے سوچا تھا کہ ۱۲۵ موٹر سائیکلوں کا جنون کی حد تک شوقین نوجوان فیض محمد یا “ماما فیضو” کا یہ بیٹا جسکا پتہ صرف لیاری کے ایک موٹر سائیکلوں کے ورکشاپ پر ملتا تھا جہاں وہ وں ٹوئنٹی فائیو موٹر سائیکل کی خوبیوں خرابیوں پر موٹر سائکل مستریوں سے زیادہ وذوق سے گھنٹوں بول سکتا تھا۔ عذیر سربازی ایک یار باش نوجوان۔ جسکی ہر ایک کے ساتھ علیک سلیک ہوا کرتی۔ اسکا چھوٹا موٹا گلی کا دادا بننا تو بہت بعد کی بات ہے۔

وہ کہ جسکے باپ کو کبھی فیضو چرسی کہا جاتا تھا۔ کہ وہ چرس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناکر علاقے میں بیچا کرتا۔ افشانی گلی والی مین سڑک پار غریب شاہ کی مزار ہے۔ جہاں یہ لوگ چرس کا وزن کرتے۔ افشانی گلی جہاں کبھی لیاری میں نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنانے اور منشیات بیچنے والوں کیخلاف لیاری کے سیاسی اور سماجی کارکنوں نے لیاری نوجوان محاذ تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک زبردست تحریک چلائی تھی اور جس میں اس تحریک کا دبنگ رہنما واحد بلوچ قتل ہوگیا تھا۔

لیاری کے سنگھو لین میں اس کی یہ تاریک گلی “افشانی گلی” مجھے ایرانی بلوچستان کے قصبے افشان لے جاتی ہے جہاں سے بلوچ نسل کے لوگ نقل مکانی کر کر کراچی کی لیاری کی اس گلی میں بھی آکر آباد ہوئے اور تبھی انکے آبائی علاقے کے پیچھے اس گلی کا نام افشانی گلی ہے۔ افشان ایرانی بلوچستان کے سیوستان میں ایک گائوں ہے۔ افشان سے آنیوالے لوگوں میں دادل عرف داد محمد اور شیرک نام کے دو بچوں کا خاندان بھی تھا۔ یہ دو نوجوان شیرک اور دادل کسرتی ڈیل ڈول کے محنتی اور باکسر ٹائپ لوگ تھے محنت مزدوری والے دیاڑی دار لوگ جو نئپیر روڈ پر برف فروخت کیا کرتے تھے۔

سندہ کے فاتح چار لیس نیپیئر کے نام کے پیچھے کراچی کے تاریخی چکلے کا نام رکھا گیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ارباب نشاط والی خواتین یا جنسی ورکرز کی توہین تھی کہ سندہ پر قبضہ گیر کے نام پر یہ علاقہ کہلائے جو انگریز حکمرانوں نے کراچی بندرگاہ اور چھاؤنیوں کے قریبی مہل وقوع کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تفریح و تعیش کے خیال سے قائم کیا تھا۔ یہ جو نیپیئر بیرک بھی کہلاتیں۔ میں سوچ رہا ہوں اگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو خوشی مہیا کرنا مقصود ہو تو اب چارلس نیپئر کے نام کی جگہ اس علاقے کا نام جام صادق علی روڈ رکھ اسکی اوائلی رونقیں بحال کی جائیں۔ لیکن سندہ اور ملک کے حکمرانوں میں اتنا اعلی ظرف کہاں۔ یہ علاقہ جو نیپئر بیرکس کہلاتا تھا۔ یہ بھی مرکزی کراچی یا کراچی سٹی میں نیپئر روڈ کا علاقہ ہی تھا جب جی۔ایم۔ سید اور عبداللہ ہاروں ہارون محمد علی جناح کا جلسہ کرتے ہوئے اسے یہاں لائے تھے۔ مجھے بلوچ تاریخدان یوسف نسقندی نے بتایا تھا کہ و گرنہ اس سے پہلے جناح کو کراچی میں کوئی نہیں جانتاتھا۔ ہاں البت جی۔ایم۔ سید اس زمانے میں اتنا مشہور تھا کہ اگر اسکے نام پر انتخابات میں کھمبہ بھی کھڑا کیا جائے تو وہ بھی جیت جاتا۔

لیاری سے لیکر نیپئر روڈ اور کراچی کے مرکزی علاقوں تک ہارون خاندان کا انتہائی اثر رسوخ بلکہ کنٹرول تھا۔ عبداللہ ہارون کا تعلق لیاری کے علاقے کھڈے سے تھا۔ اور اسکے بیٹے محمود ہارون، یوسف ہارون، سعید ہارون (جسکو فلمیں بنانے اور انکی تقسیم کا زیادہ شوق تھا اور یہ لیفٹ کے لوگوں اور فنکاروں اور فلم لائین کے لوگوں سے اسکی کافی دوستی تھی، سعید ہارون حمید ہارون اور عبداللہ ہارون کا والد تھا اور عبداللہ ہارون کا چھوٹا بیٹا تھا) چھائے ہوئے تھے

جب یہ لیاری کے دونوں تنومند بھائی شیرک اور دادل نیپئر روڈ پر برف بیچتے تھے تو ان دنوں پر چکلے پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک غنڈے اور دلال کی بڑی دہشت بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر اسکا ٹاکرا شیرک اور دادل ان دونوں بھائیوں کے ساتھ ہوگیا۔ بس پھر ان دونوں بھائیوں نے اس دلال اور غنڈے کی بڑی پٹائی لگائی۔ اور لیاری کے ان دو بلوچ بھائیوں کے ہاتھوں بری طرح پٹنے نے اسکی دہشت اور نیپئر کے علاقے پر داداگیری کا خاتمہ کردیا۔ شیرک اور دادل کی داداگیری شروع ہوئی۔

یہ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے شروعاتی سال تھے جب ہارون خاندان نے لیاری کے ان دو دادا بھائیوں شیرک اور دادل پر ہاتھ رکھا۔ انکے سیاسی مخالفین کے جلسے تتر کرنے یہانتک کہ جلسہ گاہوں میں بھرے مجموعوں میں سانپ چھوڑے جانے جیسے انکی طریقہ ہائے واردات نے شیرک اور دادل کی علاقے میں دہشت بٹھا دی ۔ ان دنوں کراچی سمیت ملک پر فلموں کا راج تھا اور کراچی کے سئنیمائوں پر لیاری کے دادائوں کا سکہ چلتا تھا۔ دادل او شیرک نے اپنی گینگ بنالی اور اس میں کراچی کی نامی گرامی سئنیمائوں کے نامی گرامی دادا بھی اپنے ساتھ ملا لئے۔

انیس سو باسٹھ میں آمر ایوب خان نے صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تو فاطمہ جناح اسکے خلاف انتخابات لڑنے کو ڈٹ گئیں۔ ہارون ایوب خان کی حمایت میں تھے۔ کراچی کے اکثریتی عوام اور خاص طور اردو بولنے والی آبادی نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ ان انتخابات میں کراچی سے گوہر ایوب کھڑا ہوا تھا جو کہ خود باپ کے بل بوتے پر ایک غنڈہ تھا۔۔ تو ہارونوں نے دادل اور شیرک کو گوہر ایوب سے سے متعارف کروایا۔ ملک میں فاطمہ جںاح کیخلاف ہر جگہ دھاندھلی کی طرح کراچی میں بھی دھاندھلی ہوئی اور گوہر ایوب کے نام فتح کے جلوس نے لالوکھیت سمیت مہاجر آبادیوں پر حملے کئے اور اس میں شیرک اور دادل اور ان کی گینگ کی گوہر آیو ب کو “خدمات” حاصل تھیں۔

اب یہ شیرک دادل فلمی بدمعاشوں کی طرح برآمد ہوئے۔ کھلی جیپ تین ہندسوں کی نمبر پلیٹ والی یا ایرانی بلوچستان کا مہرستان کی نام کی پلیٹ اور اسٹین گن ۔ اور یہ لوگ لیاری سے لیکر صدر تک، بندرگاہ تک بھتہ وصول کرنے لگے۔ کیا جہانگیر روڈ کیا چاکیواڑہ ہر جگہ انکی دہشت بیٹھی ہوئی تھی

جاری ہے۔۔۔۔

About The Author