پلک جھپکنے کے مقابلے میں سب سے بڑا امتحان آنکھوں کی پتلیوں کا ہے جنھیں ساکت بھی رہنا ہے اور دوسرے پر نظر بھی رکھنی ہے۔ ساکت، خاموش نظریں سب دیکھتی ہیں مگر جیت کے جنون میں ہل نہیں سکتیں کیونکہ جو پلک جھپکے گا وہی شکست تسلیم کرے گا۔ پاکستان کی سیاست اس وقت اُسی مرحلے سے گزر رہی ہے۔
عوام سیاست سے دور اور مایوس ہو رہے ہیں۔گو دلچسپی کا سامان ہر روز دستیاب ہوتا ہے۔ ہر دور میں کچھ منظر پر اور کچھ پس منظر میں ہلتی ڈوریاں نئی کہانیاں پردہ سکرین پر لے کر حاضر ہوتی ہیں اور یوں سیاسی تھیٹر پر جاری پتلی تماشہ ناظرین کو پلک جھپکنے نہیں دیتا۔
وفاق میں مائنس ون فارمولے کے بعد پنجاب میں بھی مائنس ون کی بازگشت ہے تاہم اسلام آباد کے خلاف نئی صف بندی کے لیے رکاوٹیں حائل ہیں۔!
ن لیگ مائنس شریفس، پیپلز پارٹی مائنس زرداریز اور تحریک انصاف مائنس عمران کے لیے تیار نہیں۔
اس سارے منظر نامے میں بھاگ دوڑ کرنے والی مقتدر قوتیں بھی کئی ایک آپشنز پر کام کر رہی ہیں۔ تبدیلی کی ناکامی کو نظام کی ناکامی اور کسی اور ‘نظام’ کی جانب موڑنے کی تگ و دو ایک طرف اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے رابطے دوسری جانب۔
سینئر وفاقی وزیر دیکھنے میں توانا ہوں یا نہ ہوں مگر جہانگیر ترین کے ساتھیوں کی بڑی تعداد کی نمائندگی ضرور کر سکتے ہیں۔
حکومت، اپوزیشن اور اپوزیشن کی تین جماعتوں کی آپسی رسہ کشی اس وقت ایک چومکھی لڑائی کا منظر پیش کر رہی ہے۔
شہباز شریف اور بلاول، بلاول اور مریم، بلاول اور مولانا، مولانا اور زرداری صاحب اور ان سے اوپر لندن بیٹھے میاں نواز شریف۔۔۔ اپوزیشن کے درمیان اس مثلث میں چوتھا کونا بنانے اور توڑنے کا کردار ادا کرنے والی چوتھی طاقت۔۔۔
کہانی دلچسپ ہے تاہم پیچیدہ نہیں۔ نواز شریف اور زرداری صاحب حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
بلاول اور شہباز شریف ان ہاؤس تبدیلی کے خواہاں ہیں، تبدیلی لانے والے دونوں کے بغیر پی ٹی آئی میں تبدیلی کے خواہاں۔
نواز شریف نئے انتخابات کے ساتھ ساتھ اُن کے اور اُن کے خاندان کے خلاف عدالتی رسوائیوں کا تدارک چاہتے ہیں، جو اُن کے ساتھ ہوا اُسے ‘ان ڈو’ کروانا چاہتے ہیں اور شفاف انتخابات کے ذریعے تبدیلی کے حامی ہیں جبکہ شہباز شریف کا بیانیہ اسی دوران راہ نکال کر آگے بڑھنا ہے۔
حزب اختلاف عام انتخابات کے ایک نکتے پر متفق تاہم کورونا کے پیش نظر فوری انتخابات کے بغیر ‘جز وقتی’ مائنس ون حکومت جو عام انتخابات کے اصلاحات تیار کرے، پر تیار ہے لیکن ظاہر ہے اس میں سب سے بڑی رکاوٹ کپتان ہے۔
سر دست ن لیگ میں متبادل قیادت ایک اہم مسئلہ بن رہا ہے۔ محرم کے بعد کورونا کے حالات میں بہتری کے ساتھ ہی ن لیگ کو مزاحمتی سیاست میں کودنا پڑے گا جس کے لیے شہباز شریف کو درپیش صحت کے مسائل اور اُن کا مفاہمتی بیانیہ ایک مشکل بن سکتا ہے۔
ایسے میں اگر نواز شریف یہ فریضہ مریم نواز کو سونپتے ہیں تو اُن کی جماعت سے مزاحمت سامنے آ سکتی ہے تاہم اس کے لیے وہ اپنے بھائی سمیت کس کس کو منا پائیں گے یہ اہم مرحلہ ہو گا۔
معیشت اور گورننس کے بے قابو حالات مقتدر قوتوں کو سب کچھ جلدی کرنے پرمجبور کر سکتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں متبادل کی صورت سامنے نہ آئیں اور دوسری طرف کپتان کو کارکردگی دکھانے کے ہدف میں کامیابی نہ ملی تو نتیجہ محض انتشار کی صورت نکل سکتا ہے۔
ایسی صورت میں بااثر حلقے حالات سے مجبور ہو کر شفاف الیکشن کی طرف جائیں گے یا کسی اور جانب یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا۔ جو پہلے پلک جھپکے گا وہی ہارے گا۔۔ اس وقت دونوں جانب پلکیں ساکت ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر