گرمی بڑھ رہی ہے۔موسم اور سیاست کے میدانوں میں موسمی گرمی سے لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی۔بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیاں اس کی تردید کر رہی ہیں مگر غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بہر طور جاری ہے
دو کروڑ سے اوپر کی آبادی والے کراچی کا تو بہت ہی بُرا حال ہے ”کے الیکٹرک کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں فروخت کیا گیا،اب کس کی مجال ہے کہ فروخت میں ہوئے گھٹالوں اور پھر فروخت درفروخت پر بات کرے”
ایک تو جنرل پرویز مشرف اوپر سے ابراج گروپ۔باقی رہے نام اللہ کا۔
سیاست کے میدان کی گرمی کا حال یہ ہے کہ آپ جناب سے تو تکار پر بات پہنچ چکی ہے سبھی اس رنگ میں رنگتے جارہے ہیں۔
جو لوگ،طبقے یا کسی ریاست کی مجموعی آبادی ماضی سے سبق سیکھ کر حال میں زندہ رہنے اور شعوری طور پر آگے بڑھنے کے لئے جدوجہد نہ کریں ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے
این ایف سی اور18ویں ترمیم کے معاملہ پر گزشتہ روز سینٹ میں ہوا ملا کھڑا اپوزیشن نے جیت لیا۔
حزب اختلاف نے ووٹوں کی کثرت سے این ایف سی پر حکومتی بل مسترد کروادیا۔
بل پر بحث کے دوران جنرل مشرف کے ایک سابق دست راست اور ایم کیو ایم کے سینئر بیرسٹر محمد علی سیف نے18 ویں ترمیم کے حوالے سے اپنے ”ارشادات عالیہ”پیش کئے۔ سیف ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ کا حصہ ہے اور بہادر آباد گروپ وفاق میں تحریک انصاف کے اتحاد میں شامل ہے
اپنے پیارے بھائی الطاف حسین اس گروپ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اُن فرمودات کو ضبط تحریر میں لانا بہت مشکل ہے۔
عجیب بات ہے عاق کیا گیا بانی18 ویں ترمیم کے حق میں بیان دے رہا ہے اور پارٹی کا ایک حصہ نظر یہ ضرورت پر عمل پیرا ہے۔
خیر یہ دونوں کا باہمی معاملہ ہے ہمیں کیا۔ایک بات طے ہے کہ این ایف سی ایوارڈ اور18ویں ترمیم ہر دو کے معاملے میں”کوئی”پریشان ہے اوراس کی پریشانی دور کرنے کے لئے ہاتھ پاوں مارے جا رہے ہیں۔
حکومت کے پاس پارلیمان کے دونوں ایوانوں میںچونکہ اکثریت نہیں ہے اس لئے سارا زور بیان بازی اور سوشل میڈیا پروپیگنڈے پر ہے۔
پچھلے دواڑھائی سالوں سے منظم انداز کے ساتھ18ویں ترمیم کے خلاف اور صدارتی نظام کے حق میں مہم چلائی جارہی ہے۔
واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم کے ایک مشیر ڈاکٹر عطاء الرحمن صدارتی نظام کا مسودہ بھی لئے پھرتے ہیں۔آئیں ترمیم کے بغیر صدارتی نظام کا ڈول ڈالنا مشکل ہے اس لئے اسے متنازعہ بنایا جارہا ہے۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ2018ء تک جناب عمران خان اسی18ویں ترمیم کے پر جوش مبلغ تھے اور اب ان کی حکومت اور جماعت کھلی مخالفت میں پیش پیش۔
کیا واقعی حکومت18ویں ترمیم میں مضبوط وفاق کے لئے ترامیم اور صدارتی نظام کی طرف پیش رفت کی خواہش مند ہے۔
یا پھر درپیش مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے آئے دن شوشے چھوڑے جاتے ہیں؟۔
جواب سمجھنے کے لئے ایک حکومتی وزیر محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا حالیہ بیان کافی ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ اس اسمبلی کی اسپیکر تھیں جس نے18ویں ترمیم منظور کی تھی مگر اب وہ کہتی ہیں کہ
”اس ترمیم کا ختم ہونا ہی بہتر ہے۔کیونکہ اس نے وفاق کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے ہیں”۔
غورطلب امر یہ ہے کہ کیا مضبوط وفاق کی طرف واپسی کے سفر کی فیڈریشن متحمل ہو سکے گی؟۔
صوبے اپنے اختیارات اور دستیاب خود مختاری سے آسانی کے ساتھ دستبردار ہو جائیں گے۔
بظاہر یہ کام آسان نہیں ہے۔
رہا صدارتی نظام جس کے فیوض وبرکات سمجھائے جارہے ہیں تویہ جناح صاحب کے تصورات اور خود1973ء کے دستور کے یکسر منافی ہے
اندریں حالات اگر کچھ طبقات یہ سوال کر رہے ہیں کہ مسائل سے دوچار حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی بجائے نان ایشوز پر سیاست کیوں کر رہی ہے توان سوالات کا جواب دینے کی ضرورت ہے ۔
البتہ حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ دونوں یا تینوں کام بہت ضروری ہیں تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ وسط مدتی انتخابات کی طرف بڑھ لیا جائے تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اپنا مقدمہ اور ضرورتیں لے کہ عوام کے پاس جائیں یہی مناسب اور درست راستہ ہوگا۔
اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت اب تک10ہزار ارب روپے کا قرضہ لے چکی ہے اس طور ملک مجموعی طور پر34ہزار500ارب روپے کا مقروض ہے اوسطاً یومیہ قرضہ 14.2ارب ہے۔رپورٹ کے مطابق قرضوں میں اضافہ44فیصد کی انتہائی تشویشناک شرح کے حساب سے ہے۔
کمزور معیشت مالیاتی ابتری اور کورونا سے پیدا شدہ مسائل سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی بجٹ میں حقیقت حال کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور جن مدوں میں اخراجات کم کر کے معشیت پر بوجھ کم کیا جاسکتا تھا ان پر توجہ نہیں دی گئی۔
اس صورتحال کا کلی طور پر ذمہ دار سابقہ حکومت یاحکومتوں کو قرار دینے کے فیشن کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
نون لیگ کی حکومت کے خاتمہ اور تحریک انصاف کے حکومت آنے کے درمیان قائم نگران حکومت نے اختیارات نہ رکھنے کے باوجود جو مالیاتی فیصلے کئے بد ترین مشکلات کا دروازہ ان فیصلوں نے کھولا۔
بہر طور مالیاتی ابتری سے پیدا شدہ مسائل اس امر کے متقاضی ہیں کہ روایتی سیاست کی بجائے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے ساز گار ماحول بنے حکومت اور حزب اختلاف مل کر ملک کو اس مشکل مرحلے سے نکالیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ ذاتی دشمنیوں سے عبارت سیاست اور نفرت دونوں اس اتفاق رائے کے مانع ہیں۔
جمہوری نظام میں وہ چاہے موجودہ طبقاتی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو اپوزیشن کے تعاون کے بغیر اقدامات ممکن نہیں۔وزیراعظم اور دیگر حکومتی زعما کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔
مکرر عرض ہے حکومت کے سامنے دوراستے ہیں اولاً حکومت اور اپوزیشن میں اعتماد سازی اور ثانیاً وسط مدتی انتخابات کی طرف جانا فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ اسے کیا پسند ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر