مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سینیٹ میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا معاہدہ۔۔۔قانون فہم

کیا آصف علی زرداری میاں محمد نواز شریف کا نوکر ہے کہ اس کی خواہشات اور ترجیحات کے لیے ہر وقت تعاون کرنے کے لیے دستیاب رہے۔

سینیٹ میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا معاہدہ ہوا کہ پیسہ کے بل بوتے پر الیکشن لڑنے والوں کا راستہ روکنے کے لئے اتنے ہی امیدوار کھڑے کیے جائیں ۔جس تناسب سے اسمبلی میں پی پی پی اور ن لیگ کے پاس نشستیں ہیں۔ پی پی پی نے چاروں صوبوں میں اپنے وعدے کی وفا کی ۔ پنجاب میں میاں محمد شہباز شریف نے پی پی پی کے امیدوار اسلم گل کو دیکھا کہ وہ کمزور اور غریب انسان ہے ، تو

محسن لغاری نامی ایک شخص کو آزاد الیکشن میں کھڑا کیا گیا اور پیسے لگا کر وہ سیٹ پی پی پی سے چھین لی گئی ۔ یاد رہے کہ وہ آزاد منتخب رکن سینیٹ انتخاب سے اگلے روز پاکستان مسلم لیگ نواز میں شامل ہو گیا تھا۔

اب اس بات کو یاد رکھیں کہ اس سے اگلا سینیٹ الیکشن جب ہوا تو پی پی پی کے 200 سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج تھے چالیس لوگ جیلوں میں تھے اور آصف علی زرداری کا قیام ملک میں ناممکن بنا دیا گیا تھا۔

2017 کے اس سینیٹ الیکشن میں پی پی پی اور مسلم لیگ نون آپس میں مقابلہ کر رہی تھیں۔ کسی طرح کا کوئی اخلاقی غیر اخلاقی سیاسی معاہدہ موجود نہیں تھا ۔

یہی وہ غلیظ ترین الیکشن ہے جس میں میاں محمد نواز شریف نے اپنی فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رانا مقبول سابق آئی جی پنجاب جو پوری دنیا میں ایک تنہا شخص ہے جسے آصف علی زرداری معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اسے قانونی تحفظ دلانے کے لیے سینیٹر منتخب کروایا۔

اب مسلم لیگ نون کے دوست جو میڈیائی منشیوں کے لکھے کو حدیث کا درجہ دیتے ہیں ۔ وہ ہم سے گلہ کرتے ہیں کہ پی پی پی نے سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے نواز شریف کی کوئی بے معنی سی تجویز آنر کیوں نہیں کی۔

یعنی آصف علی زرداری مسلم لیگ نواز کی تمام تر حرام زندگیوں کمینی حرکتوں اور گھٹیا پن کے باوجود اس کی پیشکش سے انکار کرے گا تو کافر قرار دیا جائے گا۔

دنیا کا کوئی ایسا ملک بتا دیں جس میں ایک اپوزیشن پارٹی دوسری اپوزیشن پارٹی کے خلاف حکومتی پارٹی سے اتحاد کرکے کوئی الیکشن لڑے ۔

کمال کی دانش بھائی ہے جب حکومتی پارٹی اپوزیشن پارٹی کو اتحاد کی پیشکش کرتی ہے تو وہ اس سے حکومت میں شمولیت کا پیغام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ باقاعدہ اتحاد کی شرائط طے کرتی ہے

کیا 2017 میں ایسا کچھ ہوا۔تو دو ہزار سترہ میں دو اپوزیشن پارٹیوں نے اتحاد کیا اور سینیٹ کی چیئرمین شپ جیت لی۔ اس میں کیا غلط ہوا۔

کیا آصف علی زرداری میاں محمد نواز شریف کا نوکر ہے کہ اس کی خواہشات اور ترجیحات کے لیے ہر وقت تعاون کرنے کے لیے دستیاب رہے۔

2008 سے 2013 تک نواز شریف کی ہر کمینی حرکت اور گھٹیا حرکت کے جواب میں اسمبلی کے آخری روز تک مسلم لیگ نواز کے ارکان اسمبلی کا پروٹوکول فنڈز اور احترام دستیاب رہا

2013 سے 2018 تک پی پی پی کے ارکان اسمبلی کو بے لوث تعاون کے بدلے مسلم لیگ نواز کی قیادت نے کیا دیا۔ کبھی اس امر پر بھی روشنی ڈالیے گا۔

یاد رہے کہ دھرنا کے وقت معروف صحافی بتاتے تھے کہ مسلم لیگ نواز کے وزراء جیبوں میں استعفے ڈالے پھرتے تھے جس وقت آصف علی زرداری نے اسفندیارولی اور مولانا فضل الرحمان کوساتھ لے کر حکومت کو بچایا اور حکومت بچانے کے لیے چار سال تک نواز شریف کی پشت پر بے لوث کھڑا رہا۔

پی پی پی کی حامی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف سازش کی گئی اور پاکستان پروٹیکشن آرڈر کے تحت پی پی پی کی سندھ حکومت کو توڑنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔

%d bloggers like this: