نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مغربی ممالک میں پناہ کیسے ملتی ہے؟ ۔۔۔ مبشرعلی زیدی

یہ ایک سال کا ورک ویزا تھا۔ ادارہ جس سے مزید کام لینا چاہے، اس کا ویزا بڑھوادیتا ہے یا ورک پرمٹ دلوا دیتا ہے۔

پاکستان میں عام خیال یہ ہے کہ کسی طرح یورپ، امریکا، کینیڈا یا آسٹریلیا پہنچ جاؤ اور اسائلم مانگ لو۔ امیگریشن والے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آئے اور جھوٹی سچی کہانی سنائے۔ ان کے پاس بہت سے گرین کارڈ اور پاسپورٹ فالتو پڑے ہوتے ہیں جو وہ مجلس کے تبرک کی طرح تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی لینے والا نہیں ملتا۔

ظاہر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ کسی زمانے میں بیرون ملک سفر کے لیے پاسپورٹ اور ویزا تک ضروری نہیں تھا۔ ایسا بھی وقت تھا کہ ویزا جس نے مانگا، اسے مل گیا۔ جس نے مغربی ملک میں رہنا چاہا، کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ بھلے وقتوں میں بہت لوگ گئے اور وہیں بس گئے۔

اب معاملات کچھ اور ہیں۔ امیگریشن قوانین سخت ہوتے جارہے ہیں۔ اسائلم مانگنے والے لاکھوں میں ہیں اور بہت سی درخواستیں پہلے مرحلے میں مسترد ہوجاتی ہیں۔ جو کیس سماعت کے لیے منظور ہوجائیں، ان کا پندرہ پندرہ سال فیصلہ نہیں ہوتا۔ جب تک فیصلہ نہ ہو، آپ پر مختلف پابندیاں رہتی ہیں۔

کچھ بے وقوفوں کا خیال ہے کہ فیس بک پر مذہب یا فوج کے خلاف چار جملے لکھنے سے اسائلم مل سکتا ہے۔ اگر یوں ملتا تو ننانوے فیصد پاکستانی یہی کام کررہے ہوتے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ جرمنی نے شامیوں کو پناہ دینے کی بات کی تو بہت سے پاکستانی پہنچ گئے اور شامی بن کر اسائلم مانگ لیا۔ ان میں سے کسی کو عربی نہیں آتی تھی۔

اب آپ کسی ملک جاکر اسائلم مانگیں گے تو وہ پوچھیں گے کہ آپ کے ملک میں آپ کو کیا خطرہ لاحق ہے؟ آپ کہیں گے کہ شیعہ ہوں، احمدی ہوں، بلوچ ہوں تو وہ متاثر نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں کروڑوں شیعہ ہیں۔ لاکھوں احمدی اور بلوچ ہیں۔ ایک کو اسائلم دے دیا تو جو مانگے گا، اسے دینا پڑے گا۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ صرف اپنے بارے میں بتائیں، خاص طور پر آپ کو کیوں خطرہ ہے؟ آپ کو دھمکیاں ملی ہوں، حملہ ہوا ہو، ایف آئی آر کٹی ہو، اخبار میں خبر چھپی ہو تو اپنی فائل دکھائیں۔ اسائلم کی ضمانت پھر بھی نہیں ہے لیکن کم از کم کیس پیش کرنے کے قابل تو ہو۔

یورپ میں ایک شرط یہ ہے کہ آنے والا جس ملک میں سب سے پہلے پہنچے گا، اسائلم کی درخواست وہیں دے سکتا ہے۔ اٹلی کا ویزا آسانی سے مل جاتا ہے، جرمنی کا مشکل سے۔ آپ اٹلی کے ویزے پر پیرس نہیں اتر سکتے۔ روم میں اتر کے جرمنی میں اسائلم نہیں مانگ سکتے۔

اسائلم کی درخواست کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ درخواست کی سماعت کے لیے منظوری ہوتا ہے۔ اگر امیگریشن افسر نے کہہ دیا کہ آپ کی درخواست اس قابل نہیں تو کیس بند۔ آپ اپیل کرسکتے ہیں لیکن اکثر مسترد ہوجاتی ہے۔ ایک ملک سے اسائلم مسترد کا مطلب، کوئی اور ملک بھی منظور نہیں کرے گا کیونکہ ڈیٹا شئیر کیا جاتا ہے۔

درخواست سماعت کے لیے منظور ہوجائے تو اس کے بعد مختلف ملکوں میں مختلف معاملہ ہے۔ بعض ملک بری بھلی رہائش اور ماہانہ تھوڑا سا خرچہ دیتے ہیں لیکن کام نہیں کرنے دیتے۔ سفر کی اجازت نہیں ملتی یا مشکل سے ملتی ہے۔ امریکا میں کوئی خرچہ پانی نہیں ملتا لیکن کام کی اجازت مل جاتی ہے۔ خود کنواں کھودو اور پیاس بجھاؤ۔ رہائش جوگے پیسے جمع کرو یا سڑک پر رہو۔

یورپ یا امریکا پہنچ کر فوج یا مذہب کے خلاف لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں کیا لکھا تھا؟ کیا بولا تھا؟ تب دھمکیاں ملی تھیں یا حملہ ہوا تھا تو الگ بات ہے۔ ورنہ آپ جو کرنا یا کروانا چاہ رہے ہیں، وہ نہیں ہوسکتا۔

یہ عام لوگوں کا ذکر تھا۔ اب صحافیوں کا حال سن لیں۔ بیشتر ملکوں میں ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ جھوٹ نہ بولیں۔ ہمارے ایک دوست پانچ سالہ ویزے پر امریکا آئے۔ جس ادارے نے کام دیا تھا، اس کا پروجیکٹ ختم ہوگیا۔ وہ امریکا میں موجود رہے۔ بچے پڑھتے رہے۔ وہ ٹیکس دیتے رہے۔ ویزے کی مدت ختم ہوگئی لیکن کسی نے ان سے نہیں کہا کہ گھر جاؤ۔ صحافیوں کو کوئی نہیں کہتا۔ پھر انھیں دوسری ملازمت مل گئی۔ لیکن اس کے لیے ویزا سیدھا کروانا تھا۔ وہ واپس چلے گئے۔ مدت سے زیادہ قیام کرنے والوں کو دوبارہ ویزا نہیں ملتا۔ انھیں مل گیا کیونکہ صحافی ہیں۔ وہ واپس آگئے۔ نئی کمپنی نے گرین کارڈ کے لیے اسپانسر کردیا۔ کچھ سال بعد وہ امریکی شہری بن جائیں گے۔

ایک اور صحافی بیرون ملک موجود ہیں۔ ان پر پاکستان میں کئی حملے ہوئے۔ ایجنسیاں ان کے پیچھے لگی رہیں۔ کیس مضبوط ہے۔ ادھر وہ کیس اپلائی کریں گے، ادھر منظور ہوجائے گا۔ لیکن وہ اسائلم لینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ سچے پیشہ ور صحافی کی طرح کام ڈھونڈ رہے ہیں۔ ادھر ملک میں ان پر الزام لگ رہے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ سچ بولنے والے صحافی مشکل زندگی گزارتے ہیں لیکن ان پر الزام بھی ان کے پیشے کے بدنیت لوگ لگاتے ہیں۔

فیض اللہ خان جیسے کئی لوگ بہتان تراشی کرتے رہے ہیں کہ میں امریکا میں اسائلم کی کوشش کررہا ہوں۔ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ حقیقت نہ جانتا ہو اور بہتان لگائے۔ یہ صاحب اسلام اسلام بہت کرتے ہیں۔ درحقیقت ایسے لوگ اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔

میں اپنے ادارے کے ویزے پر امریکا آیا۔ یہ ایک سال کا ورک ویزا تھا۔ ادارہ جس سے مزید کام لینا چاہے، اس کا ویزا بڑھوادیتا ہے یا ورک پرمٹ دلوا دیتا ہے۔ ایک خاص مدت کے بعد گرین کارڈ یا شہریت مل جاتی ہے۔ یہ یہاں کا معمول ہے۔ اس میں کوئی جعل سازی، کوئی فیورٹ ازم، کوئی دو نمبری نہیں۔ درجنوں ملکوں کے سیکڑوں صحافی اسی طرح مستقل قیام کے حق دار ہوئے ہیں۔

یہ خبر آپ نے پڑھ لی ہوگی کہ وائس آف امریکا کے کچھ صحافیوں کے ویزوں کی تجدید شاید نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ تجدید ہوجائے گی۔ بہرحال میں ان صحافیوں میں شامل نہیں۔ میں اگلے مرحلے میں پہنچ چکا ہوں اور ویزے پر نہیں، ورک پرمٹ پر ہوں۔

میں نے اسائلم نہیں لیا لیکن میں اسائلم لینے کو برا نہیں سمجھتا۔ پاکستان غیر انسانی معاشرہ بنتا جارہا ہے۔ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ ملک پر ایک مافیا کا قبضہ ہے۔ اس مافیا کی سرپرستی میں کئی عشروں سے فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر دہشت گردی جاری ہے۔ عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں بلکہ انتہائی اہم ضروریات زندگی دستیاب نہیں۔

اپنی جان بچانا عبادت سے کام نہیں۔ جو شخص ملک چھوڑ کے بھاگنے میں کامیاب ہوجائے، وہ اپنے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔ تہتر سال میں جس ملک کے صرف دو افراد کو نوبیل انعام ملا ہو، اور وہ دونوں بیرون ملک رہنے پر مجبور ہوئے ہوں، اس کے کسی شہری کو اسائلم لینے پر مطعون کرنا سخت ناانصافی اور غیر انسانی حرکت ہوگی۔

About The Author