نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

اس تاریخ سے کب جان چھوٹے گی ؟۔۔۔وسعت اللہ خان

جب یہ آندھی انیس سو پچھتر میں پہلا ورلڈ کرکٹ کپ اڑا کے لے گئی تو کرکٹ کی گورا شاہی سکتے میں آ گئی۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟

میری نسل نے ستر اور اسی کے عشرے کی ویسٹ انڈین ٹیم دیکھی ہے۔ کپتان کلائیو لائیڈز، ویوین رچرڈز، گورڈن گرینیچ جیسے بلے باز اور جوئیل گارنر، اینڈی رابرٹس، کولن کرافٹ، میلکم مارشل، مائیکل ہولڈنگ جیسے گیند بازوں کی سیسہ پلائی دیوار۔

جب یہ آندھی انیس سو پچھتر میں پہلا ورلڈ کرکٹ کپ اڑا کے لے گئی تو کرکٹ کی گورا شاہی سکتے میں آ گئی۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟

یہ سب نقشہ مجھے پچھلے ہفتے مائیکل ہولڈنگ کا انٹرویو سنتے ہوئے یاد آ گیا جب وہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ایک میچ کے وقفے میں نسلی امتیاز کی لعنت کا ذکر کرتے ہوئے اچانک پھٹ پڑے۔

میں نے چھ فٹ ساڑھے تین انچ کے اس 66 سالہ بوڑھے کو لائیو ٹی وی پر پہلی بار آبدیدہ دیکھا جس کی بولنگ جوانی میں اتنی خطرناک تھی کہ مائیکل ہولڈنگ کے ہر اوور کو حریف سرسراتی موت (وہسپرنگ ڈیتھ) کہتے تھے۔

ساٹھ ٹیسٹ میچ اور ایک سو دو ون ڈیز میں تین سو اکیانوے وکٹیں لینے والے ہولڈنگ جب نسلی امتیاز سے لگنے والے باؤنسرز کا ذکر کر رہے تھے تو اس لمحے ان کے اندر کا ناقابلِ تسخیر بولر بھی بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔

ہولڈنگ کہہ رہے تھے کہ جو تاریخ ہمیں بچپن سے پڑھائی جا رہی ہے وہ فاتح نے لکھی ہے اور مفتوح ہمیشہ سے فاتح کے قلمی رحم و کرم پر ہے۔ جب تک انسانوں کو فاتح و مفتوح کے عدسے سے نہ دیکھنے والی تاریخ نہیں لکھی اور پڑھائی جائے گی، کوئی تعصب ختم ہو گا اور نہ کوئی بحران حل ہو گا۔

بقول ہولڈنگ ہمیں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کے بعد لگتا ہے گویا اس جہان میں جو بھی ترقی یا ارتقا ہوا وہ گوروں کا مرہونِ منت ہے۔ مثلاً ہمیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ بلب ایڈیسن نے ایجاد کیا مگر ایڈیسن کا یہ بلب پیپر فلامنٹ کی مدد سے صرف چند لمحے ہی روشنی دے کر بجھ جاتا تھا۔ لیکن لوئی ہارورڈ لاٹیمر نے کاربن فلامنٹ بنایا تب جا کے وہ بلب مسلسل روشنی دینے کے قابل ہوا۔

ہم سب ایڈیسن کا نام تو جانتے ہیں لیکن لاٹیمر کا کسی نصابی کتاب میں ذکر نہیں۔ لاٹیمر سیاہ فام تھا۔

بقول ہولڈنگ نصابی کتابوں کے ذریعے دماغ کو ایک خاص سمت اور انداز میں لاشعوری سوچ کا عادی بنا دیا گیا ہے جس کے سبب سیاہ فاموں سے ذہانت یا ایجاد کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ دنیا اپنی فطرت میں ایسی نہیں ہے، اسے ایسا بنا دیا گیا ہے۔

جب سے میں نے مائیکل ہولڈنگ کی گفتگو سنی ہے اپنا گریبان بھی پھٹا پھٹا لگ رہا ہے۔ گورے کالے کی بحث کو نظرانداز کرتے ہوئے اگر ہم اپنے اردگرد بھی دیکھیں تو ہمارے ذہنوں میں علم کے نام پر جو ٹھونسا جا رہا ہے وہ یا تو فاتحین کی دین ہے یا پھر اکثریتی گروہ کی عددی طاقت نے اپنا ایجنڈا اور تاریخی تشریح ہمارے اندر انجیکٹ کر دی ہے۔ یوں ہماری جبلی غیر جانبداری بہت مہارت سے اغوا ہو چکی ہے۔

مثلاً جب آریا فاتحین ہندوستان میں آئے تو دراوڑوں کی عظیم الشان ہڑپا تہذیب کو غیر مہذب شودر قرار دے کر تعصب کے علمی جز دان میں لپیٹ کر نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر اس طرح کچلا کہ دراوڑ عددی اعتبار سے اکثریت ہونے کے باوجود خود کو بے اوقات نیم انسانی اقلیت سمجھنے لگے۔

جب اسی جنوبی ایشیا پر یکے بعد دیگرے عرب، ایران اور وسطی ایشیا سے مسلمان یلغار ہوئی تو نئی فاتح اشرافیہ کی تشکیلِ نو میں اول درجہ بیرون سے آنے والے مسلمان شمشیر زنوں اور ان کے ہمراہ یا بعد میں آنے والے علما کو ملا۔

دوسرا درجہ مقامی طور پر مسلمان ہونے والی ذاتوں کو عطا ہوا۔ برہمن و راجپوت اشرافیہ سے معاملہ فہمی کر کے باقی ہندو طبقات کو تیسرے درجے میں رکھا گیا۔ قوانین بھی اسی درجہ بندی کو مستحکم رکھنے کے لیے بنائے گئے اور انصاف بھی طبقاتی انداز میں بانٹا گیا۔

رفتہ رفتہ یہ مادی و نفسیاتی بندوبست ہمارے آپ کے ڈی این اے کا حصہ بن گیا۔

جب انگریز آئے تو انھوں نے جدید فوجی طاقت ہونے کے باوجود اپنی عددی کمزوری کو پہلے سے موجود اشرافیہ کو ساتھ ملا کر دور کیا اور باقی نظام جوں کا توں رکھ کے چلانے کی کامیاب کوشش کی۔ اس دوران اپنی نصاب سازی اور قوتِ نافذہ کے ذریعے جنوبی ایشیائیوں کے دل و دماغ میں وہی بات ڈال دی جس کی جانب مائیکل ہولڈنگ نے اشارہ کیا۔

یعنی جدید دنیا میں جو بھی خوبیاں ہیں وہ مغربی ترقی و معیاری گورے ذہن کی بدولت ہیں اور جو بھی مادی و ذہنی پسماندگی ہے اس کی ذمہ دار غیر سفید فام و غیرمہذب اقوام کی ذہنی ساخت و طور طریقے ہیں۔

تقسیم کے بعد اس غلام پسند و غلام ساز سوچ میں بس اتنی تبدیلی آئی کہ پاکستانی نصاب کے مطابق برصغیر میں جو کچھ بھی تہذیبی رچاؤ ہے وہ اسلام کی روشنی اور مسلمانوں کے طرزِ حکمرانی کا مرہونِ منت ہے اور جو بھی تہذیبی کالکیں ہیں ان کا ذمہ دار ہندووں کا ذات پات کا ہٹ دھرمی نظام ہے۔

پاکستانی نصاب پر یقین کر لیا جائے تو پچھلے آٹھ سو برس میں بالخصوص سیاست و عسکریت و علمیت سمیت کسی شعبے میں کوئی ایسا بڑا غیر مسلم نام برصغیر میں نہیں گذرا جو اسی دور میں جنم لینے والی عظیم مسلمان شخصیات کا ہم پلہ ہو۔

جبکہ سرحد پار انڈین بچوں کو یہ بتایا اور سکھایا جاتا ہے کہ مسلمان لٹیروں سے پہلے کا دور ہندو تہذیب کا سنہرا دور تھا۔ یہ دور بیرونی حملہ آوروں نے ملیا میٹ کر دیا۔ اگر وہی سنہری دور واپس لانا ہے تو ان گھس بیٹھیوں سے انڈیا کو یا تو پاک کرنا ہو گا یا پھر ان کو اپنی اوقات میں رکھنا ہو گا۔ جے بجرنگ بلی۔

مائیکل ہولڈنگ نے تعصبات کے جالے صاف کرنے کے لیے فاتح و مفتوح کی اصطلاحات سے نجات پانے کا جو نسخہ پیش کیا، وہ میری آپ کی زندگی میں تو موثر دکھائی نہیں دے رہا۔ آگے کیا ہو یہ آگے والے جانیں۔

چلتے چلتے پھر ایک بے وقوف سوال ذہن میں آ گیا۔ اگر قیامِ پاکستان سے نو برس پہلے انتقال کرنے والے اقبال سیالکوٹ کے بجائے امرتسر میں پیدا ہوتے اور غالب و میر کی دلی میں دفن ہوتے تو کیا تب بھی پاکستان کے قومی شاعر ہوتے؟


بشکریہ بی بی سی اردو

About The Author