جون2020کے آخری روز جب تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہوکر انتہائی تگڑے،متحرک اور بلند آہنگ وزیر ہوئے جناب علی زیدی صاحب نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر عزیر بلوچ کی بابت تیار ہوئی ایک JITرپورٹ کی داستان سنائی تو میں بہت حیران ہوا۔’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ کے ساتھ بنائے ان کے ورژن نے اگرچہ ٹی وی سکرینوں پر بہت رونق لگائی۔ اس رونق کے دوران جان کی امان پاتے ہوئے اس کالم میں استدعا کی تھی کہ یہ فلم ’’ڈبہ‘‘ ہوچکی ہے۔گڑھے مردے اکھاڑیں گے تو بالآخر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ علی زیدی صاحب کو ’’لینے کے دینے‘‘ والا معاملہ بھی درپیش آسکتا ہے۔بہتر یہی ہے کہ اسے مزید نہ اچھالیں۔
مجھ جیسے بکائو صحافی سے مگر ’’نیا پاکستان‘‘ کے علی زیدی صاحب جیسے معمار نفرت کرتے ہیں۔جدید دور کے نمائندہ ہوتے ہوئے وہ پرنٹ صحافت کو ویسے بھی ’’متروک‘‘ شمار کرتے ہیں۔ان کی نظر میں دورِ حاضر ’’آڈیو وڈیو‘‘ کا محتاج ہے۔’’نظریات‘‘ کی جنگ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے اکھاڑوں میں لڑی جاتی ہے۔ عزیر بلوچ سے جڑی کہانی کا بھی علی زیدی صاحب کی تخلیقی کاوشوں کے باعث اس میدان میں گج وج‘‘ کر احیاء ہوتا نظر آیا۔’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ کے ساتھ تیار ہوئی کہانی کے ’’ہٹ‘‘ ہوجانے سے شاداں محسوس کرتے علی زیدی صاحب نے گزشتہ جمعہ کی رات ایک ٹویٹ لکھا۔اس کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ہفتے کی صبح وہ ایک ایسی وڈیو جاری کریں گے جو پیپلز پارٹی کی قیادت کو عزیر بلوچ کے حوالے سے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ ہفتے کی صبح وہ وڈیو بھی میدان میں آگئی۔ ’’ہیرو‘‘ اس وڈیو کے حبیب بلوچ ہیں۔علی زیدی صاحب نے انہیں ’’ہیرو‘‘ بنادیا تو ٹی وی اینکروں کو انہیں ڈھونڈنا پڑا۔ انہیں Air Timeعطا ہوا تو کہانی میں ’’ڈرامائی موڑ‘‘ یہ رونما ہوا کہ 2011میں تحریک انصاف بھی عزیر بلوچ سے رجوع کرنے کو مجبور ہوئی تھی۔عمران خان صاحب کے کراچی اور لاڑکانہ میں ہوئے جلسوں میں رونق بڑھانے کے لئے عزیر بلوچ نے ’’بندے‘‘ بھی فراہم کئے۔ عزیر بلوچ ہی کی بدولت فیصل واوڈا اور علی زیدی کو ہمت ہوئی کہ امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے کراچی لوٹ آئیں اوراپنی جماعت کو اس شہر میں ایم کیو ایم کا ’’متبادل‘‘ بنانے کے لئے منظم کریں۔
جولائی 2018کے انتخابات میں عزیر بلوچ کے تعاون سے لگایا شجر بالآخر بارآور ہوا۔تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 14نشستیں جیت کر’’تاریخ‘‘ بنائی۔ حتیٰ کہ لیاری بھی پیپلز پارٹی سے چھین لیا۔ بلاول بھٹو زرداری وہاں سے پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے شکور شاد کے ہاتھوں ہار گئے۔ اس نشست کے ’’نیچے‘‘ والی صوبائی اسمبلی کی نشست علامہ خادم رضوی کی ’’تحریک لبیک‘‘ نے جیت لی۔ میڈیا مینجمنٹ کے قوانین کا اطلاق کریں تو عزیر بلوچ کے حوالے سے علی زیدی صاحب کے تیار کردہ ’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ نے بالآخرحبیب بلوچ کو قابل اعتبار بنادیا۔ حقیقی ہدف جبکہ پیپلز پارٹی کو لیاری کے ’’جرائم پیشہ گینگز‘‘ کا ’’حتمی سرپرست‘‘ ثابت کرنا تھا۔
میرؔ نے اپنے شہر کو ’’عالم میں انتخاب‘‘ کہا تھا۔دلی کو مگر وہ ’’شہر تھا‘‘ پکارتے رہے۔ اپنے اجڑے شہر کو چھوڑ کر اودھ میں پناہ لینے کو مجبور ہوئے۔ سیاسی حرکیات کے حقیقی طالب علم کے لئے پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر کراچی ’’عالم میں انتخاب‘‘ہی رہے گا۔ زندگی سے بھرپور اس شہر کو ’’تھا‘‘ کہنا ناممکنات میں سے ہے۔ شیکسپیئر کے بیان کردہ سٹیج کی طرح اس کے منظر پر کئی لوگ ڈوبتے اُبھرتے رہیں گے۔
آج سے کچھ عرصہ قبل اسی کالم میں کراچی کی سیاسی حرکیات کے سنجیدہ طالب علموں سے گزارش کی تھی کہ اسے حقیقی معنوں میں سمجھنا ہے تو 336صفحات پر مشتمل ایک کتاب تھوڑا وقت نکال کر غور سے پڑھ لیں۔”Karachi: Ordered Disorder and the Struggle for the city”اس کتاب کا عنوان ہے۔ اسے فرانس کے ایک محقق نے کئی برس کی تحقیق کے بعد لکھا ہے۔اس محقق کا نام ہے Laurent Gayer۔یہ محقق فقط کراچی ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء میں دہشت اور تشدد کی بنیاد پر چلائی تحاریک کے مستند ماہرین میں شمار ہوتا ہے۔ جس کتاب کا حوالہ دے رہا ہوں اس کے عنوان پر ہی غور کرلیں تو کلیدی بات سمجھ آجاتی ہے اور یہ کلید ہے “Ordered Disorder”۔ کاش میں اس اصطلاح کا مناسب اُردو ترجمہ سوچ سکتا ۔ سادہ الفاظ میں یہ اس ’’خلفشار‘‘ کا ذکر کرتی ہے جو حکمرانوں کے ’’قابو‘‘ سے باہر جانے کے امکانات کا حامل نہیں ہوتا۔ وقتی مصلحت یا حکمرانی کی ترجیحات کے عین مطابق بسااوقات ’’خلفشار‘‘ کو بلکہ جان بوجھ کر پھیلنے دیا جاتا ہے۔عزیر بلوچ بھی “Ordered Disorder”کے تحت بچھائی بساط کا ایک مہرہ تھا۔’’مہرے‘‘ مگر بالآخر ’’پٹوائے‘‘ ہی جاتے ہیں تانکہ شہ مات یقینی بنائی جاسکے۔ کراچی میں اقتدار کا کھیل رچانے والی تمام قوتوں نے اسے استعمال کیا۔بالآخر جب اس کی کسی کو بھی ضرورت نہ رہی تو پٹ کر ’’ڈبے(جیل)‘‘ میں بند ہوگیا۔کراچی میں سیاسی گیم مگر جاری رہے گی۔ اس حوالے سے عزیر بلوچ جیسے کئی کردار ابھرتے اورڈوبتے رہیں گے۔
اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے یہ التجا کی تھی کہ ان دنوں کراچی کا اصل مسئلہ عزیر بلوچ نہیں کے-الیکٹرک ہے۔ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر کو بجلی فراہم کرنے کے حوالے سے سرکاری نہیں ’’نجی‘‘ بندوبست کے تحت چلایا یہ ادارہ اب حتمی اجارہ دار کی صورت اختیار کرچکا ہے۔کرونا کی وجہ سے بجلی کے خواہش مند کئی ادارے ابھی تک بند ہیں۔ریستوران بھی نہیں کھلے۔ اس شہر میں بجلی کی طلب ہر معیار سے قبل ازکرونا دنوں جیسی موجود ہی نہیں۔
بجلی کی طلب میں ٹھوس بنیادوں پر نمایاں کمی کے رحجانات کے ہوتے ہوئے بھی ساون بھادوں کا حبس شروع ہوا تو کراچی میں جان لیوا لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ مون سون کی پہلی بارش کے ساتھ ٹرانسفارمربھی ٹرپ ہونے لگے۔کئی کھمبوں نے اپنے گرد جمع ہوئے پانی میں ’’کرنٹ‘‘ بھردیا۔اس کی بدولت کئی بدنصیب راہگیر جاں بحق ہوئے۔
بدھ کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو کراچی اور حیدر آباد سے تحریک انصاف اور اس کے اتحادی MQMسے متعلق تمام اراکین کے-الیکٹرک کے خلاف دہائی مچانا شروع ہوگئے۔ یہ سلسلہ جمعرات کے دن بھی جاری رہا۔ اس روز لطیفہ یہ بھی ہوا کہ ایم کیو ایم کے کوٹے سے وفاقی کابینہ کے وزیر ہوئے جناب امین الحق نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر یہ اعلان کیا کہ کراچی میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل نہ ہوا تو آئندہ منگل کے دن ان کی جماعت پارلیمان کے باہردھرنا دے گی۔
کراچی میں ان دونوں جماعتوں کے متحرک کارکن کئی دنوں کے الیکٹرک کے خلاف دھرنے دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی اس ضمن میں احتجاج کو مجبور ہوئی۔کے-الیکٹرک کی وجہ سے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کراچی میں اپنے ’’ووٹ بینک‘‘ کو کھوتی نظر آئیں۔ تحریک انصاف کے ایک اور بلند آہنگ وزیر جناب مراد سعید مگر جمعرات کے روز عزیر بلوچ سے جڑی کہانی ہی کو ’’نیا ٹرن‘‘ دینے میں مصروف ہوگئے۔ پیپلز پارٹی بہت ناراض ہوئی۔ مراد سعید پر اس کی ایک خاتون رکن نے مائیک بھی اچھالا۔ بالآخر واک آئوٹ ہوا۔ کورم کی نشاندہی ہوئی۔اجلاس ملتوی ہوگیا۔
ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے قوی امید تھی کہ ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہمیں 24/7’’باخبر‘‘ رکھنے والے ویک اینڈ کے دوران علی زیدی صاحب کے فراہم کردہ ’’شرطیہ نئے پرنٹ‘‘ سے کھیلنے کے بجائے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اُٹھے ہیجان پر توجہ دیں گے۔ ٹی وی کے دھندے میں Ratingsکو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ میٹربھی کراچی میں لگے ہوئے ہیں۔ٹی وی مالکان اپنے اینکر خواتین وحضرات کو اکثر یہ متنبہ کرتے پائے گئے ہیں کہ ’’کراچی‘‘ سے Ratingsآئے گی تو بات آگے بڑھے گی۔
میڈیا کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوں کہ گزشتہ تین دنوں کے دوران کراچی کے ڈیڑھ کروڑ شہری ٹی وی سکرینوں پر عزیر بلوچ کی ’’بھولی داستان‘‘ سننا چاہ رہے تھے یا ان کی بنیادی فکر یہ تھی کہ ان پر نازل ہوئے لوڈشیڈنگ کے عذا ب کے ازالے کے لئے حکومت نے کیا نسخہ تیار کیا ہے۔
سنا ہے وطن عزیز میں بجلی کی فراہمی کو Regulateکرنے والا ایک ادارہ بھی ہے۔اسے NEPRAکہا جاتا ہے۔جمعہ کے روز اس کا کراچی میں لوڈشیڈنگ ہی کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا۔وہاں کے-الیکٹرک کے مدارالمہام نے ’’عوامی نمائندوں‘‘ کا سامنا کیا۔ اس اجلاس کے دوران جو صحافیوں کے لئے Openتھا چند اہم ترین سوالات اٹھائے گئے۔ کے-الیکٹرک کے مدارالمہام کے پاس ان کے تسلی بخش جوابات موجود نہیں تھے۔حکومت کا رویہ بھی بجلی پیدا کرنے کے لئے درکارپیٹرول اور گیس کی ترسیل کے حوالے سے بے نقاب ہوا۔ مذکورہ اجلاس یقین مانیں ’’ڈرامائی‘‘ سوالات وجوابات سے مالا مال تھا۔ ان سے مگر Ratingsکا محتاج کوئی اینکر حقیقی معنوں میں کھیلتا نظر نہیں آیا۔ اپنی صحافت ایک بار پھر بہت ہی آزاد،بے باک اور تخلیقی نظر آئی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر