ارشادتونسوی سرائیکی خطے کے ممتازشاعراور ادیب ہیں جوکسی تعارف کے محتاج نہیں اوردرویش صفت انسان ہونے کی وجہ سے نہ ہی وہ اسکی کوئی خواہش رکھتے ہیں۔وہ شاعری کی صرف ایک کتاب کے بعدسرائیکی ادب میں وہ مقام رکھتے ہیں جولوگوں کوبیس بیس کتابیں لکھنے کے بعدبھی نہیں ملتا۔
نثرپرمشتمل ان کی ایک ہی کتاب ’عشق اساڈدین‘شائع ہوئی ہے جس کوپاکستان اکادمی ادبیات کاایوارڈملا۔ارشادتونسوی نے کہیں بھی مبلغ بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ زندگی کے رموزبتائے ہیں لیکن تفکرسے بھری ان تحریروں میں برحال wisdom توموجودہے جس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کوملتا ہے۔
ارشادتونسوی کے مضامین میں کہیں بھی لفاظی نظرنہیں آتی انھوں نے جوبھی بات کی ہے وہ مدلل طریقے سے کی ہے۔انھوں نے ایک مضمون ’سچ تے کوڑ‘میں سچ اورجھوٹ کا موازنہ اورفرق تاریخی حوالوں اوردلیلوں سے بیان کرتے ہیں۔سرائیکی دھرتی کا باشندہ ہونے کی وجہ سے اس دھرتی کی محرومی کا احساس ہے اپنی برادری یعنی شاعر،ادیب کی بے حالی کا تذکرہ اوران کی محرومیوں کی وجوہات کوکھل کربیان کرتے ہیں اوروہ اس کی مضبوط دلیل اس طرح دیتے ہیں کہ سرائیکی شاعری میں مرثیے کی روایت بے زوری اوربے چارگی کی ایسی مثال جوبرصغیرکے کسی اورعلاقے میں اتنی شدت سے نہیں ملی۔اسی طرح ان کی دلیل میں جوپختگی نظرآتی ہے اسکی توقع ایسے شخص سے ہی کی جاسکتی ہے۔وہ ایک اور مضمون ’نواں عہدنامہ‘ میں صحیفوں کے بارے کہتے ہیں کہ ان کا کوئی فائدہ نہ ہوتا تولوگ انھیں کب کے بھول چکے ہوتے۔آج کے حالات کی مناسبت کیا خوب لکھتے ہیں ’کیا موسیٰ تے فرعون دا مسئلہ صرف اتنا ہا جوفرعون خداکیوں بنڑ بیٹھے؟ اے تاں خدادا مسئلہ ہے موسیٰ دا مسئلہ کڈوں تھی گئے۔موسی تے خدادا آپس اچ کیا رشتہ ہے جیڑھا فرعون دا کائنی۔اے سمجھن کیتے کیا کوئی نواں عہدنامہ لکھنا پوسی؟۔‘
اس کتاب کا سب سے طویل مضمون ہے ’مسلمان تے برصغیروچ تصوف دی روایت‘ جس میں انھوں نے دریا کوکوزے میں بندکیا ہے جہاں پرجامع اورمفصل سے طریقے سے تاریخ کے اوراق الٹتے ہوئے تصوف پرسیرحاصل گفتگوکی ہے اوراسکی ضرورت واہمیت پرروشنی ڈالی ہے۔
ارشادتونسوی نے کردارسازی (characterization) پرجوطبع آزمائی کی ہے وہ بھی لاجواب ٹھہری۔سیدرفیق حسین کے کردارمیں کہیں نہ کہیں خوداُن ذات نظرآتی ہے جوفطرت سے بے پناہ محبت اوراس کے قریب تررہنے کی وجہ سے پرندہ اورجانوروں کی سرشت کوخوب جانتا ہے۔
وہ دنیا کوپرامن دیکھنا چاہتا ہے جہاں سکون ہی سکون ہو۔سیاسی منظرنامے پردوراندیشی کی خاصیت نمایاں ہے کہ ایک مضمون ’نیوورلڈآرڈر‘ میں لکھتے ہیں ’کہاجاتا ہے جوشیرجنگل کا بادشاہ ہوتا ہے ہوتا ہوگا کبھی اب تواس کا حال بھی ہمارے بادشاہوں کی طرح ہے جن کواب صرف آئینی تحفظ دے کربچایا جاتا ہے‘۔ارشادتونسوی کی یہ بھی خصوصیت اہے کہ وہ سماجی مسائل سے ایسے پردہ اٹھاتے ہیں اوربریک بینی سے دیکھتے ہیں جیسے کوئی سائنسدان خوردبین کے ذریعے چھوٹی چھوٹی چیزوں کودیکھتا ہے۔
ان تحریروں میں وہ صرف سماج کی برائیوں کوزیربحث نہیں لاتے بلکہ کسی حدتک ان کا حل بھی نکاتے نظرآتے ہیں۔ارشادتونسوی کی ذات میں جوشائستگی،آداب،لطافت اورتہذیب پائی جاتی ہے اُن کی نثرمیں بھی اس کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔وہ کسی نہ کسی طرح اپنی زمین سے جڑاہواہے اوریہاں کی مٹی کی محبت اسکی تحریروں میں رچی بسی نظرآتی ہے۔پیرپٹھان کی نگری کا تذکرہ وہ ایسے ایسے اندازسے کرتے ہیں جیسے آپ کے سامنے فلم چل رہی ہواوروہ دھرتی واس ہونے کا حق اداکرتے ہیں۔ارشادتونسوی خواجہ فریدکی شاعری کولے کرعشق مجازی اورحقیقی میں جوفرق بیان کرتے ہیں وہ کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں ہے اورجوانھوں نے خواجہ صاحب کی شاعری کے حق دلائل پیش کیے ہیں وہ بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔وہ اقبال سوکڑی کی شاعری کولے کردامان کی کیفیت اورکرب کوبیان کرتے ہیں اوروہاں بارش کا ہونا اورنہ ہونا جیسے مسائل کوخوبصورت اوردلچسپ اندازمیں پیش کرتے ہیں۔انھوں نے اقبال سوکڑی کی شاعری اورشخصیت کا جوپوسٹ مارٹم کیا ہے وہ بھی لاجواب ہے۔
ارشادتونسوی نے جوخطوط عزیزشاہدکے نام لکھے ان میں لفظوں کی لطافت،عام انسان کی خواہشات اوربے بسی کاجوعالم ہے وہ وہی شخص جان سکتا ہے جنہوں نے john keats کے خطوط کوپڑھا ہے۔اس کے علاوہ وہ شہروں کے مسائل،دیہاتوں کی خوبصورتی اورفطرت کوقریب سے دیکھتے ہیں۔ارشادتونسوی نے رموزکی باتیں کی ہیں۔زندگی کی حقیقت کوجاننے کی کوشش کی ہے۔لگتا ہے کہ وہ اضطرابی کیفیت میں ہیں اورفطرت کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
ان کے مضامین میں تمام ادبی اصلاحات استعمال کی گئیں ہیں جن میں تشبیع اوراستعارہ شامل ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں ”اوں جاہ بہوں آدرکیتے۔واپسی تے میکوں ول ول رکیندی رہی۔میں اوندے نال وعدہ کرآیاں جومیں جلدی واپس آساں۔اِتھاں بیٹھیں ہوئیں وی میں کئی دفعہ اُتھوتھی آیاں“ارشادتونسوی نے اپنی تحریروں میں جوالفاظ کا چناوکیا ہے اورپُرمغزخیالات سے نوازہ ہے وہ کسی طوربھی فرانسس بیکن سے کم نہیں ہے اوران کے مضامین شکسپیرکے کرداروں کی طرح زیربحث رہیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر