کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم 1950ء کی دہائی میں ہی کھڑے ہیں۔ ملک ٹوٹ گیا’ آبادی کئی گنا بڑھ گئی، جدید ترقی کی “نشانیاں” قدم قدم پر دکھائی دیتی ہیں، دنوں کے فاصلے گھنٹوں اور گھنٹوں کے فاصلے بھی مختصر ہوئے۔
بڑی حد تک معیارزندگی میں بھی بدلاو آیا۔
مگر دوسری طرف اب بھی نصف سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
ناظرہ قرآن پڑھنے اور دستخط کرلینے کو خواندگی قرار دے کر شرح خواندگی کے حوالے سے غلط ملط دعوے’ عدم برداشت اور وہ سب کچھ جو پچھلی صدی کی پانچویں و چھٹی دہائیوں کا چلن رہا آج بھی ہے۔
یہ نظام ملکی چلا کون رہا ہے؟
گزری صدی کی پانچویں چھٹی دہائی میں لوگ ایک دوسرے سے یہی دریافت کرتے تھے اب بھی آپ کسی سہ فریقی یا اس سے زیادہ افراد کی مجلس میں شرکت کیجئے، پہلا سوال ہوگا یہ نظام ملکی چلا کون رہا ہے؟
لوگ یہ سوال کیوں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، سیاسی جماعتیں کمزور کیوں ہیں، کرپشن کے الزامات کی دھول اُڑا کر مخالفین کو دیوار سے لگانے تک کی حکمت عملی میں کوئی کمی نہیں آئی، اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے دوسرے عشرے کے آخری سال کے نصف میں بھی حسب سابق ہے۔ غداری’ ملک دشمنی’ کفر والحاد کے فتوے ہی ہیں۔
جمہوریت کے کوچہ سے عوامی جمہوریت اور اگلے مرحلہ پر سیکولر جمہوریت کے دروازے کھل سکیں گے یا نہیں؟
یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسرے قلم مزدوروں کی طرح آپ سوال کرنے والوں کا منہ بند نہیں کر سکتے۔
مجھ سے جب بھی اس صورتحال کے حوالے سے سوالات ہوئے ہمیشہ یہی عرض کیا، ایک د وسرے کو برداشت کرکے زندگی گزارنے کا ڈھنگ اپنائیں۔
تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہی ہے کہ فقط افراد وطبقات کو ہی نہیں مختلف محکموں کو بھی عمومی رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ آغاز اپنی ذات سے کیجئے۔
پاکستانی فیڈریشن کے مسائل مختلف ہیں، یہ مفتوحہ جغرافیہ پر قائم ریاست نہیں اس لئے رعایا کو عوام سمجھ کر زندہ رہنے کا حق دینا ہوگا۔ کیونکہ جولائی 1977ء کے بعد سے بالادست طبقات اور محکموں میں پیپلز پارٹی کیلئے جو عدم برداشت اور نفرت ہے وہی ابتداء سے اے این پی کیخلاف رہی۔
اب اس میں مختلف الخیال قوم پرست اور نون لیگ بھی شامل ہوچکی۔
کیا سماج کے بڑے حصہ کی حب الوطنی’ جمہوریت پسندی اور دیگر معاملات پر حرف گیری کرکے حب الوطنی کا مخصوص برانڈ فروخت کرنے کا سلسلہ جاری رکھ کر اس ملک اور 22کروڑ لوگوں کی کوئی خدمت ممکن ہے؟
آسان فہم جواب نفی میں ہے۔
سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑ اور نئی جماعت کی تشکیل کے تجربات بہت ہوئے’ کنونشن لیگ سے شروع ہوا سفر کسی نہ کسی شکل میں جاری وساری ہے۔ نون لیگ بھی ایسے ہی ایک تجربہ کی پیداوار ہے۔ چند خامیوں کے باوجود اس کا ووٹ بینک موجود ہے یہی حقیقت ہے۔
انتخابی نتائج ہمیشہ کی طرح 2018ء میں بھی “خاص حکمت عملی کاکرشمہ” نہ ہوتے تو پی پی پی’ ن لیگ اور اے این پی تینوں کی پارلیمان میں عددی حیثیت قدرے مزید بہتر ہوتی، اس صورت میں ”کسی” کیلئے وہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہ رہتا جو حاصل کئے گئے”۔
سادہ الفاظ میں یہ کہ اگر ن لیگ اور پی پی پی کے لوگوں کا تحریک انصاف کی طرف ہانکا نہ ہوتا تو پی ٹی آئی 2013ء کے مقابلہ میں چند نشستیں زیادہ تو لے لیتی مگر سنگل لارجسٹ پارٹی نہ بن پاتی۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون ہے جو تجربوں کا شوقین ہے؟ کس کو مضبوط ومستحکم سیاسی جماعتیں مقاصد وبالا دستی سے متصادم دکھائی دیتی ہیں۔
کون ہے جو کبھی ایک اور کبھی دوسری جماعت اور گاہے دونوں کو توڑ کر نئی جماعت بنواتے ہیں اور نئے ہنگامہ خیز دور کا آغاز ہوجاتا ہے؟۔
اس سوال کا جواب سبھی کو معلوم ہے لیکن
”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے”۔
جو حقیقت صاف سامنے دیوار پر لکھی ہو اسے رقم کرنے کی ضرورت نہیں۔
البتہ یہ عرض کیا جانا چاہئے کہ اس ملک اور عوام کیساتھ رحم کیجئے۔
پچھلے پچاس برسوں کے دوران تختہ اُلٹنے’ نکالے جانے یا وقت پورا کرکے رخصت ہونے والوں تینوں پر ایک جیسے الزام اُچھالے گئے اور الزامات کی زد میں ہر دور کی حکومت بھی آئی۔
ہر گزرنے والے دن کیساتھ جمہوری نظام’ سیاستدانوں اور جماعتوں کیخلاف نفرت کو بڑھاوا دیا گیا، کبھی کبھی تو مذہبی ہتھیار بھی استعمال ہوئے۔
22 کروڑ لوگوں کے ملک کے مسائل اور ہیں تقاضے اور، ہمیں سمجھنا ہوگا ریاستیں فقط حب الوطنی کے محکمہ جاتی بھاشنوں پر قائم نہیں رہتیں۔
ریاستوں کے نجات دہندہ اس کے عوام ہوتے ہیں محکمے نہیں، ہاں اگر دونوں مل کر دستور وقانون اور سماجی وحدت کے مفاد میں کام کریں تو زیادہ مناسب ہے۔
بہت پیچھے نہ جائیں فقط سوویت یونین کے انہدام پر نگاہ ڈال لیجئے۔
غیروں کی سازشیں اور قیادت کی حماقتیں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست عوامی اعتماد سے محروم ہو چکی تھی غیر طبقاتی ریاست کے تصور کی کوکھ سے نئی طبقاتی ریاست نے جنم لیا، یہی سوویت یونین کو نگل گئی۔
ہمارے ہاں بھی معاملات اور رویوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
فیصلہ سازی کا حتمی حق عوام کو ملنا چاہئے گو یہ کسی حد تک ہے لیکن نتائج کے گھٹالوں کی حکمت عملی نے عدم اعتماد کی خلیج کو وسیع کیا۔
یہ خلیج کم ہونی چاہئے واحد صورت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جیسی بھی ہیں برداشت کیجئے۔
لولی لنگڑی طبقاتی جمہوریت کو ہی سہی آگے بڑھنے دیں، بہتری کے دروازے کھلتے جائیں گے، شرط ایک ہے، ہر شخص اور محکمہ دستور و قانون کی پابندی کو یقینی بنائے اور اپنے حصہ کا کردار ادا کرے لیکن اگر آپ انجینئر سے وزارت صحت اور ڈاکٹر سے وزارت قانون چلوائیں گے تو خسارہ ہوگا، یہ ایک مثال ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر