زرتاج گل کا سواگت ۔۔۔۔ افتتاحی تختی کو جوتوں کے ہار پہنا دئیے گئے۔۔ پی ٹی آئی مردہ باد۔ اوے کدھر رکھے ہیں ٹماٹر ؟ ٹماٹر لاؤ۔۔۔۔۔۔ وفاقی وزیر کی بغیر خطاب واپسی۔۔۔
اب ظلم کا جو بھی رکھوالہ ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہے گا۔۔
وفاقی وزیر ماحولیات کے اپنے انتخابی حلقہ اور تمام انسانی اور بنیادی سہولتوں سے محروم سارے سرائیکی خطے کے ڈیرہ غازیخان میں واقع واحد تفریحی مقام فورٹ منرو آمد اور لوگوں کا شدید احتجاج ۔ وفاقی وزیر زرتاج گل کے ساتھ جو ہوا۔ کوئی اچھنبا نہیں۔ شاید اس سے کچھ زیادہ ہوتا یا ہونا چاہئیے تھا۔۔۔۔ یہ زیادہ کچھ ہونے یا ہونا چاہنے کے پیچھے کسی کی کوئی ذاتی پرخاش ھے اور نہ ہی کوئی ذاتی حسرت و خواہش ۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ لوگوں کی حسرتوں اور امنگوں کو بد دیانتی کرتے ہوئے شعوری طور پر اس طبقاتی نظام سے جوڑ دیئے گئے نجات کے یقین کے ٹوٹنے کے سبب ہوا ھے۔۔۔۔۔
طبقاتی سماج میں معاشی ، معاشرتی اور سیاسی خباثتوں کو نظام کی خرابی کی بجائے افراد کی کوتاہیوں سے جوڑ دیا جاتا ھے۔ نتیجۃً نظام کو بچانے کیلئے چہروں کے بدلنے کا ناٹک کیا جاتا ھے۔۔ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اس ناٹک کو ایسی کمال ہنر مندی سے اس طرح کھیلا جاتا ھے کہ انتخابات میں لوگوں کی توجہ صرف اپنے مخالف کے کرتوتوں پر ہوتی ھے اور اس دھول میں یہ حقیقت دب جاتی ھے کہ وہ جس کو منتخب کرنے کیلئے اپنی رائے/ ووٹ کا استعمال کر رہا ھے وہ اس کے مخالف سے بھی کئی گنا زیادہ خباثتوں کا منبع ھے۔۔۔۔۔۔۔ پورے پاکستان کیطرح سابق صدر فاروق لغاری کے بیٹے اویس لغاری اور پی ٹی آئی کی زرتاج گل کے مابین بھی انتخابی دنگل میں یہی نفسیات کار فرما تھی۔۔۔۔۔
گذشتہ الیکشن میں اسی نفسیات کے تحت اویس لغاری کو اپنی تمام تر رعونت کے مکمل تعارف کے ہوتے ہوئے حلقے کے لوگوں نے مسترد کیا ۔ اور ایسا کرتے وقت یہ نہ سوچا کہ ووٹ کس کو دے رہے ہیں؟ بس ایک ھی سوچ ، ایک بات اور ایک ھی خبط کہ کچھ بھی ہو اویس لغاری پر لعنت بھیجو ۔۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے کہ سبھی لعنتیں ایک بار خرچ بھی نہیں ہو جاتیں۔ دوسری طرف طبقاتی نظامِ زر کی تمام لعنتوں کے باوجود انسان کے سماج سے سیکھنے کی سوچ اور پرکھنے کی حس مر نہیں جاتی۔۔۔ پھر دھوکہ دینے والوں کی حقیقت آشکار ہونے پر پھٹکار اس کا مقدر بنتی ھے۔ یہی کچھ وفاقی وزیر ماحولیات زرتاج گل کیساتھ ہوا۔ علاقے/ حلقے کے لوگوں نے بڑے بڑے درد سہتے ہوئے اور بڑے دکھ اٹھاتے ہوئے بھی بڑا صبر کیا۔۔۔۔۔
ذرا ماحولیات کی وفاقی وزیر کے کارنامے دیکھیں کہ پورے فورٹ منرو میں ہروقت سیوریج کی کسی بھی قسم کی سہولت نہ ہونیکی وجہ سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے ہوتے ہیں ۔ انسانی فضلہ جو گھروں کے باہر گلیوں میں جمع ہوتا رہتا ھے بارش ہونے پر بہہ کر وہاں موجود قدرتی جھیل میں شامل ہوکر پانی کو اس قدر آلودہ کر دیتا ھے کہ اس کے استعمال سے انسانی جسم پر خارش ہونے لگتی ھے۔ روز مرہ کی گندگی اور شاپر ہلکی سی ہوا چلنے پر وہاں آئے ہوئے اور رہنے والے لوگوں کی خوراک کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ پینے کے پانی کی تمام لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ لوگ پینے کے پانی کیلئے سسکنے اور بھاری قیمت کے عوض خریدنے پر مجبور۔۔۔ اور یہ محترمہ وہاں آئی ہیں پہاڑی علاقے میں چند گز کی سولنگ اور نالی کا افتتاح کرنے۔۔۔۔۔۔
اب جو ہوا، اس میں عام لوگوں کا ، عوام کا کوئی دوش نہیں۔۔۔۔ کل انہوں نے فاروق لغاری کے بڑے بیٹے اور اویس لغاری کے بڑے بھائی جمال لغاری کیساتھ بھی ایسا کیا تھا جو آج زرتاج گل کیساتھ ہوا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جتنا کچھ بالادست حکمران طبقے یا اس طبقے کے گماشتہ لوگوں نے عام آدمی کے ساتھ ماضی میں کیا ھے یا اب تک کر رھے ہیں تو عام لوگوں کا بدلے کے طور پر یہ ردِ عمل تو اس کا کوئی عشرِ عشیر بھی نہیں بنتا ۔۔۔
آخری بات ! استحصالی نظام کی بیہودہ سوچ کے پردھانوں ، دانشوروں، مفکروں اور دانشوروں کا یہ شعوری جرم ھے کہ وہ عام لوگوں کی صدیوں کی محرومیوں ، تکلیفوں اور ذلتوں سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ اودھم مچا رہے ہیں کہ یہ بلوچ علاقہ ھے، ھم سرائیکی بڑے ایسے ہیں، زرتاج گل ایک خاتون ھے۔۔۔۔ کسی خاتون کیساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ویسا نہیں ہونا چاہیے۔ ھم اس کی مذمت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ھم محنت کش ایسے ہر بیہودہ دانشور ، تجزیہ نگار، معلمِ اخلاق اور مفکر کی مذمت کرتے ہیں۔۔ کیونکہ ھم بھی خواتین کی عزت چاہتے ہیں۔ ھم بھی خواتین کے طرفدار ہیں۔ ھم بھی عورتوں کے وقار کو تسلیم کرتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر ان عورتوں اور خواتین کی عزت و احترام کے حامی ہیں جو غریب ہیں، جو محروم ہیں، جن کو کسی میک اپ، لالی سرخی کا کوئی علم تو کیا کوئی ہوش نہیں۔ جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ جو اپنے بچوں سمیت آئے روز گردے کی پیچیدہ بیماریوں سے دو چار ہو رھی ہیں۔ جن کے جسم آلودہ پانی کے استعمال سے خارش زدہ ہو رھے ہیں۔ اور جو آشوب چشم کی بیماریوں میں مبتلا کر اپنی آنکھوں کا نور کھو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔
ھم بالادست طبقے سے نفرت کے ہر اظہار کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں طاقت کے سامنے بولنے کے ہر اظہار سے شکتی ملتی ہیں۔ بھلے آج ھم منقسم و منتشر ہیں مگر مایوس نہیں۔ ھم نے اپنے طبقاتی دشموں کے خلاف نہ تو سوچنا ترک کیا ھے اور نہ ان کے خلاف جدوجہد سے دستبردار ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ھمیں اس وقت پر بھی یقین ھے کہ جس کے بارے فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ” جب جمِ سر فروشاں اٹھے گا تو پھر ان کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ پھر یہیں پہ محشر بپا ہوگا۔ اور جزا و سزا سب یہیں پہ ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر