نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی کو اسپیشل سٹیٹس ملنا چاہیے ۔۔۔ محمد عامر خاکوانی

کراچی سندھ کا اہم ترین شہر ہے،صوبہ سندھ کی اکثریتی آبادی سندھی بولنے والی ہے۔ اسمبلی میں سندھی بولنے والے اکثر دو تہائی اکثریت میں ہوتے ہیں

آج کراچی کی بات کرنی ہے، مگر پہلے پچھلے دونوں کالموں کے فیڈ بیک پر مختصر تبصرہ ۔ جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے جب بھی لکھا جائے ، کچھ لوگ دو تین سوال ضرور پوچھتے ہیں۔ ان میں سے ایک سوال تو بچوں جیسا ہے۔ آپ اپنے گھر میں بچوں پر کوئی پابندی لگائیں، کسی بچے سے ویڈیو گیم لے لیں، موبائل نہ اٹھانے کا حکم جاری کر دیں تو اس کا پہلا ردعمل یہی ہوگا ، مجھ سے لیا ہے تو فلاں بچے سے بھی لیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہر ایک کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ سات سالہ بچے اور پندرہ سالہ لڑکے کے ساتھ مختلف انداز میں ڈیل کرنا پڑتی ہے ، پھرجس بچے کے پیپرز ہورہے ہوں ، اس میں اور جو پیپر دے کر فارغ ہوچکا ہو، اُس بچے کا معاملہ یکسر الگ ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ بننے کی تجویز پر بھی بعض لوگ پہلا اعتراض یہی کرتے ہیں، اچھا اگر پنجاب کو تقسیم کرنا ہے تو پھر سندھ، بلوچستان اور کے پی کو بھی تقسیم کریں۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ اس بچوں والی بات کا کیا جواب دیا جائے؟ فیس بک پر ایک صاحب نے یہی سوال کیا کہ بلوچستان اتنا بڑا ہے، اس کے تین چار حصے کیوں نہیں کر دئیے جاتے۔ بے چارگی سے جواب دیا، وہ اگر مطالبہ کریں تو ضرور غور کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی یہ مطالبہ کرے ہی نہیں تو پھر ہم زبردستی کیسے کر سکتے ہیں؟ اب ان کی تعداد کم ہوگئی ہے، مگر ایک دو ایسے” ہیرے“ ضرور نکل آتے ہیں جو بڑا پکا سا منہ بنا کر دردمندی سے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہیں کہ آپ صوبہ بنانے کی بات کر رہے ہیں، مگردیکھ لیں، وہاں کے وڈیرے آپ لوگوں کا حشر کر دیں گے۔ انہیں کہتا ہوں، پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ وڈیرے سندھ میں ہوتے ہیں، جنوبی پنجاب میں نہیں۔ دوسرا یہ کہ پچاس برسوں سے جنوبی پنجاب میں الیکٹ ایبلز جیتتے آئے ہیں، آئندہ بھی جیت جائیں گے، آپ کے پاس انہیں روکنے کا کوئی نسخہ ہے تو ضرور شیئر کریں۔ سیاسی جماعتیں حقیقی جمہوریت لے آئیں، متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن کرائیں تو شائد سیاسی کارکن اسمبلیوں میں جانے لگیں، ورنہ کروڑوں روپے کا الیکشن بڑے زمیندار، سرمایہ دار ہی لڑ پائیں گے۔ تیسرا مشورہ ایسے لوگوں کو یہی دیتا ہوں کہ جنوبی پنجاب والوں کو اپنے” کرتوتوں کی سزا“ بھگت لینے دیں، آپ کیوں غم میں جان گھلاتے ہیں؟ایک سوال ہر بار کراچی کے صوبہ بنانے کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ اس بار ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی اور مجھے لگا کہ ان کے لہجے میں دل گرفتی ہے۔

کراچی سندھ کا اہم ترین شہر ہے،صوبہ سندھ کی اکثریتی آبادی سندھی بولنے والی ہے۔ اسمبلی میں سندھی بولنے والے اکثر دو تہائی اکثریت میں ہوتے ہیں۔ سندھی عوام نے تقسیم کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے آنے والوں کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔ یہ مہاجرزیادہ ترکراچی میں آباد ہوئے، کچھ حیدرآباد اور شہری سندھ کے دیگر شہروں کی جانب چلے گئے۔ کئی برسوں تک لوگ آتے رہے۔ حتیٰ کہ کراچی سندھ کے دیگر شہروں سے کئی گنا زیادہ بڑا ہوگیا۔ یہ اکثریتی اردو سپیکنگ آبادی کا شہر بن گیا، اگرچہ اب وہاں سندھی، پشتون، پنجابی ، سرائیکی پاکٹس بھی خاصی بڑی ہوگئی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ شہری اور دیہی سندھ میں سیاسی تقسیم کے ساتھ ایک خاص قسم کی کشیدگی بھی پیدا ہوئی، کوٹہ سسٹم وغیرہ نے اسے ہوا دی۔ مہاجر صرف نام نہیں رہا، یہ سیاسی عصبیت بنی، ایم کیو ایم کی وجہ سے کئی اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہوگئیں۔ آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ سندھی کسی بھی صورت میں سندھ کی تقسیم پر رضا مند نہیں ہوں گے۔ کراچی کو وہ الگ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ کراچی کا تاریخی پس منظر اور سندھیوں کی اس سے قدیم وابستگی ، دوسرا کراچی جیسے ترقی یافتہ اوربے پناہ وسائل کا پوٹینشل رکھنے والے شہر سے کون محروم ہونا چاہے گا؟ تیسرا یہ خیال کہ ہمارا خطہ ہے، ہم نے مہمانوں کو جگہ دی، وہ مقیم ہوئے اور اب مالک بن کر گھر پر ہی قابض ہو رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ سرائیکیوں اور سندھیوں کی آپس میں خاصی قربت ہے اور دونوں زبانوں میں کئی رشتے بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ میرے کئی دوست سندھی ہیں، ان سے تفصیلی مباحث ہوچکے ہیں، ان کے دلائل سے واقفیت ہے۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اس ایشو پر جذباتی موقف اختیار کیا ہے۔ بلاول بھٹو کا نعرہ ”مرسوں مرسوں، سندھ کینا ڈیسوں“ تو ابھی حال ہی کی بات ہے۔ جب کبھی کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک نے زور پکڑا، سندھ میں یقینی طور پر احتجاج ، ہڑتالیں اور تحریک شروع ہوجائے گی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد نیا صوبہ بنانے کے لئے اس صوبے کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد منظور ہونا لازم ہے۔ سندھ اسمبلی سے کبھی کراچی کے الگ صوبے کے لئے ایسی قراردار منظور نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی سندھی جماعت یا لیڈر یہ افورڈ نہیں کر سکتا ۔ سندھی عوام اس کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔ اس لئے کراچی کوالگ صوبہ بنانا تقریباً ناممکن ہے۔ 

کراچی کا مسئلہ مگرمعروضی زمینی حقائق سن کر ختم نہیں ہوجائے گا۔ مسائل تو مسائل رہتے ہیں، جب تک حل نہ تلاش کر لیا جائے۔ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ درحقیقت کراچی آج یتیم شہر بن چکا ہے، اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ کراچی میں 1987کے بعد سے دو اہم سیاسی قوتیں رہی ہیں، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم۔ دونوں نے عوام کو بری طرح مایوس کیا ۔ایم کیو ایم نے مہاجر عصبیت کو کیش کرایا، بے پناہ مفادات حاصل کئے، مگر شہر کی ثقافتی، علمی شناخت تباہ کر دی۔ لوئر مڈل کلاس ہونے کی دعوے دار ایم کیو ایم الطاف حسین کی قیادت میں ایک فاشسٹ پارٹی بن گئی، جس نے بے شمار لوگ قتل کرائے،اپنوں اور مخالفوں پرخوفناک تشدد، بھتے ، جائیداوں پر قبضے اور ہر قسم کی لوٹ مار جائز قرار پائی۔ پیپلزپارٹی سندھ کی سب سے بڑی جماعت ہے، پچھلے بارہ تیرہ برسوں سے وہ مسلسل سندھ میں حکمران ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار اقتدار میں آئی۔ اس شہر نگاراں کراچی کو اس نے بری طرح نظرانداز کیا۔ اندرون سندھ کے بڑے لیڈروں کے کراچی کے پوش علاقوں میں بنگلے، کوٹھیاں ہیں، مگرچونکہ ان کا ووٹ بینک کراچی میں نہیں، اس لئے انہوں نے کراچی کو اون نہیں کیا۔2008 ءمیں پہلی باراے این پی کو کچھ شیئر ملا تھا، افسوس کہ انہوں نے سیاسی جدوجہد کے بجائے جبر اور گن کی قوت سے ہاتھ پیر پھیلانے کی کوشش کی، نتیجے میں کچھ ان کا خون بہا، کچھ انہوں نے بہایا۔ آخری تجزیے میں مقامی پشتون قوم پرست لیڈر کراچی کے فرزند ثابت نہیں ہوئے۔ جولائی 2018ءکے انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی سے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ایسے امیدواربھی جیت گئے، جن کے نام کسی نے نہ سنے تھے، لوگوں نے بلے کےنشان پر مہر لگا دی۔یہ ووٹ عمران خان کے نام پر پڑا۔ ایم کیو ایم پاکستان کی دھڑے بازی سے نالاں اور پیپلزپارٹی کی بدترین گورننس سے بے حال کراچی کے شہریوں نے عمران خان کو بھرپور مینڈیٹ سے نوازا۔ آج عمران خان وزیراعظم ہیں، تو اس میں کراچی سے ملنے والی غیر متوقع نشستوں کا بڑا کردار ہے۔ افسوس تحریک انصاف نے بھی کراچی کو مایوس کیا۔ اس پر بات ہوسکتی ہے کہ کس پارٹی میں کتنے نالائق سیاستدان ہیں، مگر اس نکتے پر پوری قوم متفق ہوگی کہ جتنی بڑی تعداد میں نکمے، نالائق اور عقل وفہم سے عاری لوگ تحریک انصاف کا حصہ ہیں، اس کی دوسری مثال موجود نہیں۔ اب یہی دیکھ لیں تحریک انصاف کے کراچی سے چودہ پندرہ ارکان قومی اسمبلی ہیں، کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ انہوں نے کراچی کے مسائل پر بات کی ہو؟ وفاقی وزرا علی زیدی، فیصل واڈا دنیا جہاں کے ایشوز پر بیانات دیتے رہتے ہیں، جن معاملات پر اہل کراچی بے حال ہوئے پڑے ہیں، ان پر کبھی نہیں بولے۔ سب سے بڑھ کروزیراعظم عمران خان نے بے گانگی دکھائی۔ وزیراعظم کے طور پرا ن کی بہت سی ذمہ داریاں اور مسائل ہیں، ان کے پاس وقت کم ہوگا،مگر انہیں کراچی جیسے شہر کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھنا چاہیے ۔ وہ ہر ہفتے کراچی نہیں جا سکتے تو پندرہ بیس دنوں میں ایک دو دن ضرور وہاں گزاریں، مختلف طبقات کے نمائندوں کو بلائیں، ان کے مسائل حل کریں۔اہل کراچی کی بدقسمتی کہ ایسی صوبائی حکومت ان پر مسلط ہے جسے ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وفاق کو مگر کراچی کو مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ کراچی بڑے فراخدلانہ پیکیج کا مستحق ہے۔ جنرل پرویز مشرف ڈکٹیٹر تھے، مگر ان کی سپورٹ نے کراچی کا نقشہ بدل دیا۔ نعمت اللہ خان جیسا نیک نام ضلع ناظم تھا، جس نے ایک پائی ضائع نہ کی اور انفراسٹرکچر کھڑا کر دیا، بعد میں ایم کیو ایم کے مئیرمصطفیٰ کمال نے اسےآگے بڑھایا۔ پیپلزپارٹی کے ادوار میں ترقیاتی کام آگے نہیں بڑھ سکے، الٹا بے توجہی سے انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ وفاقی حکومت کوانفراسٹرکچر دوبارہ بحال کرنا چاہیے۔ 

کراچی پورے ملک کے لئے ریونیو اکٹھا کرتا ہے، معاشی ہب ہے، اسے’کے الیکٹرک ‘اور واٹر بورڈ کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ لوگوں کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ کاروباری برادری کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ کراچی کو سندھ کے کمزور بلدیاتی نظام کے بجائے ایک طاقتور بااختیار بلدیہ اور صاف ستھرے ماضی کا حامل مخلص مئیر چاہیے۔ کراچی کو الگ صوبہ بنانا ممکن نہیں، اسے فیڈرل ایڈمنسٹریٹر یونٹ بھی شائد نہ بنایا جا سکے، مگر وفاق اسے غیر رسمی طور پر سپیشل سٹیٹس دے کر مدد کرے۔ تیس چالیس سال پہلے صوبائی حکومت کو دئیے ہسپتال واپس لینے کے بجائے وفاقی حکومت کراچی کے لئے ایک نیا بڑا ہسپتال کیوں نہیں بناتی؟ اتنی بڑی آبادی کے لئے کئی بڑے ہسپتال بننے چاہئیں۔ ماضی میں اگر غلطیاں ہوئیں، بےاعتنائی برتی گئی تو تحریک انصاف اس کی تلافی کر سکتی ہے۔ عمران خان کو الیکشن میں کراچی نے خوب دل کھول کر نوازا۔ اب خان صاحب کی باری ہے کہ وہ جس طرح ممکن ہو،کراچی کے لئے بڑے مالی پیکیج کا انتظام کریں۔ یہ ان پر قرض ہے، جسے چکانا ہی ہوگا۔

About The Author