نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرے محل بینظیر کا تھا۔ آپ کو ننانوے فیصد یقین کیوں ہے؟۔۔۔قانون فہم

بے نظیر بھٹو کے لیے بھی ہے۔ اگر سرے محل ان کی ملکیت ہوتا تو وہ بھی پابند ہوتے اور مجبوراً اپنے نام کرواتے۔

آپ کو شاید معلوم نہیں کہ سرے محل کی ملکیت کا کیس سترہ سال تک پاکستانی عدالت میں چلتا رہا اور بالآخر عدالت نے یہ قرار دیا کہ سرے محل کی ملکیت کے ساتھ بے نظیر بھٹو کا کوئی رشتہ تعلق یا واسطہ نہیں ہے۔ تیس سال پرانی اس داستان کی بابت آج تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ کبھی زرداری خاندان سرے محل میں جا کر رات گذار نہیں پایا تو محل لیا کیوں ہوا ہے؟

بے نظیر بھٹو صدر زرداری اور ان کے بچے سرے محل میں رات گزارنا نہیں چاہتے جب لندن جاتے ہیں تو ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں سرے محل انہوں نے شوق سے رکھا ہوا ہے۔

نواز شریف کے خلاف انہی دنوں اے ون فلیٹس کی مہم چلائی گئی تھی جن دنوں شہر سرے محل کا غلغلہ تھا۔ نواز شریف کی دختر نے کہا کہ میری لندن میں تو کجا پاکستان میں بھی ایک روپے کی جائیداد نہیں ہے ۔ لیکن بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ جا کر انہیں فلیٹس میں رہ رہے ہیں ۔ اور ان ہی کی ملکیت کی بنیاد پر سزائیں بھی ہوگئے ہیں ۔ آپ یہ بتائیں کہ آصف علی زرداری کو جیل کے دوران پرویز مشرف اور نواز شریف نے سزا کیوں نہیں دلوائی۔

لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ نواز شریف نے ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت کیوں تسلیم کی تھی۔ وجہ یہ ہوئی تھی کہ 2006 کے بعد برطانیہ میں بے نامی جائیداد رکھنے کی اجازت ختم کر دی گئی تھی۔ اس لیے نوازشریف مجبور ہوگیا اور اس نے اےون فلیٹس کی ملکیت اپنے نام ٹرانسفر کروا لی۔ اب یہی قانون آصف علی زرداری اور

بے نظیر بھٹو کے لیے بھی ہے۔ اگر سرے محل ان کی ملکیت ہوتا تو وہ بھی پابند ہوتے اور مجبوراً اپنے نام کرواتے۔

عدالت میں 17 سال تک سرے محل کی ملکیت کا کیس چلتا رہا۔ متعصب ترین جج جو بےنظیر بھٹو یا آصف علی زرداری کا نام سن کر باؤلے ہو جاتے ہیں۔ وہ آصف علی زرداری کا سر جھکانے کی کوشش میں مرتے گئے ، ریٹائر ہوتے گئے اور ختم ہوگئے ۔

مگر سرے محل کی ملکیت سے آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو

کا کوئی رشتہ تلاش نہ کر پائے۔

اصل بات محض اتنی سی ہے کہ سرے محل ایک پاکستانی جاوید پاشا کی ملکیت تھا۔ جاوید پاشا وہ شخص ہے جو پاکستان میں موبلنک کمپنی کو لانچ کر کے گیا تھا۔ جاوید پاشا ایک بہت بڑا انویسٹر تھا اور بے نظیر بھٹو نے اسے انفو ٹیکنالوجی میں

انویسٹمنٹ کے لیے پاکستان مدعو کیا تھا ۔ بےنظیر بھٹو نے اس کے گھر کچھ تحائف پاکستان سے بذریعہ کوریئر بھجوائے۔ اور اکثر اوقات بے نظیر بھٹو فون پر اس سے بات چیت یا ڈائیلاگ کرتی تھیں۔

کل ملا کر یہ دو دستاویزات سرے محل کی ملکیت کے بابت عدالت میں پراسیکیوشن کی جانب سے یعنی میاں محمد نواز شریف نیب اور پرویز مشرف کی جانب سے پیش کی جاتی رہیں۔

ایک وہ کورئیر کی رسید تھی جس کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ بینظیر بھٹو نے اس گھر میں کچھ تحائف بھجوائے ہیں۔ دوسرے ایوان وزیراعظم سے کالز کرنے کا ریکارڈ کے سرے محل میں بے نظیر بھٹو کال کرتی ہیں۔ ان دستاویزات کی بنیاد پر سترہ سال مقدمہ چلایا گیا۔

کبھی بے نظیر بھٹو یا آصف علی زرداری کو وہاں جاتے نہیں دیکھا گیا۔ تیس سال میں کبھی بے نظیر بھٹو یا آصف علی زرداری یا ان کے بچے وہاں پر رہائش پذیر نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود بھونکنا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔

آصف علی زرداری کو عدالتوں نے شک کا فائدہ دے کر بری نہیں کیا بلکہ یہ قرار دیا ہے کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات غلط تھے ۔

نواز شریف نے یہ کہا کہ انہوں نے جھوٹے مقدمات بنائے اور جھوٹی کردار کشی کی مہم چلائی ۔ اس کے باوجود بھٹو کے ساتھ تعصب حسد اور نفرت کے عالم میں کچھ لوگ اس طرح باؤلے ہوئے پھرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

About The Author