پیپلز پارٹی پچھلے 50برسوں کے دوران لگ بھگ پانچ مرتبہ اقتدار میں آئی، دو بار ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں‘ دوبار محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کی قیادت میں اور پانچویں بار ان کی شہادت کے بعد سندھ میں، البتہ یہ اس کے اقتدار کا ساتواں دور ہے‘ 1960ءکی دہائی کے دوسرے نصف میں پیپلز پارٹی‘ اپنے ترقی پسندانہ نظریات کےساتھ قائم ہوئی تو پہلے ہی دن اسے دو دشمن ملے۔
اولاً اس وقت کی حکومت اور ثانیاً پاکستان کی مذہبی جماعتیں خصوصاً جماعت اسلامی۔
1970ءمیں منعقد ہونے والے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے اولین انتخابات کے دوران پاکستان (مشرقی ومغربی پاکستان) کے 26مولانا صاحبان نے اس کےخلاف کفر کا فتویٰ جاری فرمایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 26 میں سے 7 کا تعلق مغربی پاکستان سے اور 19کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اس فتوے میں کہا گیا ”پیپلز پارٹی کے سیاسی نظریات باطلانہ‘ اسلامی تعلیمات کےخلاف ہیں، اسے ووٹ دینا کفر ہے“۔ فتوے کے حامی گلی محلوں کے مولوی اپنی جمعتہ المبارک کی تقاریر میں کہا کرتے تھے کہ
جو بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔
بھٹو(ذوالفقار علی بھٹو) کے دوراقتدار میں ہمارے اسلام پسندوں نے وہ کونسی گالی ہے جو بھٹو اور پیپلزپارٹی کی طرف نہیں اچھالی، یہاں تک کہ ان کی مرحومہ والدہ کے بارے میں بازاری زبان استعمال کی گئی۔
بھٹو کو گھاسی رام لکھا پکارا گیا‘ چشم فلک نے وہ مناظر بھی دیکھے جب ایک رات ملک بھر میں جنرل ٹکا خان کی تصاویر والے اشتہارات دیواروں پر لگائے گئے جن پر لکھا تھا ”مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے“۔
یہ اشتہار ان دنوں لگا جب یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) نے بھٹو کےخلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر رکھی تھی۔
اس تحریک کے دوران جماعت اسلامی کے زیراثر اخبارات و جرائد اور بھٹو مخالف میڈیا ہر دو نے حکومت پر الزامات لگانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے 1947کے بٹوارے کے دوران ہوئے فسادات کے کچھ ناروا قصے نئے آہنگ کےساتھ پیپلزپارٹی کی حکومت پر عائد کردئیے۔
1977ءکے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ہاﺅس لاہور میں حزب اختلاف کے بڑے اتحاد کے قیام کےلئے جو اجلاس منعقد ہوئے ان میں ایک حساس ادارے کے اس وقت کے سربراہ بھی دو معاونین کے ذریعے شرکت کرتے رہے اور پھر ایک دن پاکستان قومی اتحاد معرض وجود میں آگیا۔
انتخابات ہوئے‘ دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں۔ اس دھاندلی کا آغاز خالد کھرل نے کیا جو ڈپٹی کمشنر لاڑ کانہ تھے۔
قومی اسمبلی کے نتائج کے اعلان کے بعد پی این اے کی قیادت نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا ڈول ڈالا، اس تحریک کے پہلے چند دنوں میں عوامی شرکت کا تناسب کم رہا تھا پھر ایک دن پی این اے نے ”کسی“ کے ایما پر فیصلہ کیا کہ اتحادی جلوسوں کی قیادت کرنے والے قائدین اپنے گلوں میں قرآن مجید لٹکا کر جلوس کی قیادت کریں گے۔
اس کےساتھ ہی پی این اے کے 33نکاتی مطالبات سے ہٹ کر احتجاجی تحریک کو تحریک نظام مصطفی کا نام دےدیا گیا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکے۔
تحریک کے دوران پی این اے کے حامی اخبارات وجرائد نے نازی جرمنی کی گسٹاپو کی وارداتیں بھی پی پی پی حکومت کے کھاتے میں ڈالیں۔
یہ بجا ہے کہ پولیس تشدد ہوا لیکن جو کہانیاں لکھی یا جلسوں جلوسوں میں بیان کی گئیں وہ 98فیصد جھوٹ پر مبنی تھیں۔
پی این اے کے سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ کو ایک سازش کے تحت ہٹوا کر جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو پی این اے کا سیکرٹری جنرل بنوایاگیا ( یہ سازش ایک الگ کہانی ہے پھر کسی دن سہی )۔ انہی مرحوم پروفیسر غفور احمد نے پی این اے اور بھٹو حکومت کے درمیان مذاکرات پر ایک کتاب بھی لکھی جو جلسوں جلوسوں اور اخباری چٹ پٹے قصوں سے مختلف ہے۔
5جولائی 1977ءکو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاءالحق نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
پی ٹی وی پر ظلم کی داستانوں کے عنوان سے کئی ماہ ایک پروگرام نشر ہوتا رہا لیکن ان داستانوں کی بنیاد پر بھٹو کےخلاف ایک بھی مقدمہ درج نہ کیا جاسکا البتہ نواب احمد خان قصوری کے مقدمہ قتل میں انہیں گرفتار کیاگیا، اسی مقدمہ میں سزائے موت بھی دی گئی۔
بھٹو کی جان کے دشمن ضیاءالحق نے ان کےخلاف پاکستان توڑنے یا کرپشن یا پھر ظلم کی داستانوں کی کہانیوں کی بنیاد پر مقدمات کیوں نہ بنوائے چلائے اور کیوں انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے قتل کے ایک مقدمہ میں سزائے موت دلوا کر پھانسی چڑھانا ضروری سمجھا یہ بذات خود ایک داستان ہے۔
بھٹو پھانسی چڑھا دئیے گئے، ضیاءالحق گیارہ برسوں سے کچھ اوپر اقتدار میں رہے۔
ابتدائی عرصہ میں پی این اے فوجی حکومت می ںشامل تھا ما سوائے جے یو پی اور این ڈی پی کے خاکسار تحریک چونکہ ون مین شو تھا وہ نظرانداز ہوئی۔
بھٹو کے بعد ان کی اہلیہ اور صاحبزادی بےنظیر بھٹو حکومت اور رجعت پسندوں کا آسان ہدف رہیں، کیسا کیسا غلیظ الزام ماں بیٹی پر نہیں لگا، یہاں تک کہ ہمارے محبوب سول سپرمیسی نواز شریف کی اقامت گاہ پر قائم میڈیا سیل نے بیہودہ تصاویر تک تقسیم کروائیں، بےنظیر سیکورٹی رسک قرار پائیں، دو بار وزیراعظم منتخب ہونے والی یہ خاتون ایک دن راولپنڈی میں سڑک پر قتل کر دی گئیں۔
پیپلز پارٹی سے رجعت پسندوں اور اسٹیبلشمنٹ کے بعد و نفرت پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، پچھلی ساڑھے چار دہائیوں سے کوچہ صحافت کے اس قلم مزدور کے سامنے بہت اُتار چڑھاﺅ آئے اور گزر گئے لیکن پیپلز پارٹی سے کچھ ”حلقوں“ کی نفرت ختم ہونے میں نہیں آتی۔
کبھی فتووں کا سہارا لیاجاتا ہے کبھی پھانسی کے بعد بھٹو کے جسم کی تصاویر بنوائی جاتی ہیں۔
کبھی بےنظیر اور ان کی والدہ کی غلیظ تصاویر مشتہر کی جاتی ہیں۔ نصف صدی میں مخصوص ”حلقوں“ نے جتنی رقم پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کےلئے پروپیگنڈہ پر خرچ کی اس سے عوامی بھلائی کے کام کرلیتے تو اچھا تھا۔
کالم کے دامن میں گنجائش نہیں بہت سارے ماہ وسال کا احوال رہ گیا۔
فی الوقت اتنا عرض کرنا ہے کہ سیاسی جماعتیں فسطائی ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈے سے ختم نہیں ہوتیں،
ایسا ہوتا تو آج اے این پی کا وجود ہی نا ہوتا۔
بہتر ہوگا کہ سیاسی عمل کو آگے بڑھنے دیا جائے ماضی کو نہ دہرایا جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر