موسم کی طرح سیاست کا میدان بھی گرم ہے اتنا زیادہ کہ این ڈی ایم اے کے سربراہ نے اگلے روز18ویں ترمیم پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار مناسب سمجھا۔
کیا انہیں سیاسی موضوعات پر گفتگو کرنی چاہیئے تھی؟سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان کے محکمے کے ضوابط اور دستور اس کے مانع ہے مگر شوق دا کوئی مل(قیمت)نہیں ہوتی۔
چند گرما گرم خبریں اور بھی ہیں مگر آج کے کالم میں خیبرپختونخوا میں زیر تعلیم ایف ایس سی کے طلباء وطالبات اور صوبہ میں ادویات کا کاروبار کرنے والے تاجروں کے حوالے سے شہریوں کے خطوط شامل کرتے ہیں
مشرق اور کالم کے قارئین کے ساتھ صوبے کے مختلف طبقات کا لکھنے والوں پر جو حق ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایف ایس سی کے طلباء وطالبات نے اپنے خط میں لکھا ہے۔
”کورونا وائرس کی وجہ سے صوبہ میں ایف ایس سی کے امتحانات منسوخ کرتے وقت یہ وعدہ کیا گیا کہ امتحانات کی منسوخی سے طلباء متاثر نہیں ہوں گے۔
اکثرطلباء کو بغیر امتحان کے پروموٹ کیا گیا لیکن کچھ طلباء کے لئے ستمبر اکتوبر میں خصوصی امتحانات کا اعلان کیا گیا۔خصوصی امتحان بلا شک بورڈ لے مگر یہ امر بھی مد نظر رکھے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے تعلیمی اداروں کے لئے انٹری ٹیسٹ ہر سال اگست ستمبر میں ہوتے ہیں۔
اب اگر ایڈیشنل بیالوجی، ایڈیشنل ریاضی وغیرہ کے خصوصی امتحانات ستمبر اکتوبر میں منعقد ہوں گے تو یہ طلباء اگست ستمبر میں ہونے والے انٹری ٹیسٹ میں کیسے شریک ہوں گے؟
طلباء کا کہنا ہے کہ تعلیمی بورڈز کو خصوصی امتحانات جولائی اور اگست کے اوائل میں لے لینے چاہئیں تھے تاکہ انٹری ٹیسٹ میں طلباء کی شرکت میں کوئی امر مانع نہ ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ خصوصی امتحان اورانٹری ٹیسٹ کے لئے تاریخیں اس طور متصادم ہیں کہ طلباء وطالبات کی ایک بڑی تعداد رواں سال انٹری ٹیسٹ میں شرکت سے محروم رہ جائے گی جس سے ان کا ایک سال ضائع ہونے کے ساتھ مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے“۔
ہماری دانست میں طلباء وطالبات کا خدشہ درست ہے تعلیمی بورڈز کے سربراہان کو چاہیئے کہ وہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے امتحانات اور انٹری ٹیسٹ کے لئے تاریخوں کا از سر نو تعین کریں۔ایڈیشنل مضامین کے امتحان کے بغیر انٹری ٹیسٹ میں شرکت ممکن نہیں اصولی طور پر خیبر میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی کو چاہیئے کہ وہ خصوصی امتحان کا نتیجہ آنے تک انٹری ٹیسٹ ملتوی کردیں۔
اس کے لئے صوبائی وزیر تعلیم سیکرٹری تعلیم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان اور تعلیمی بورڈز کے سربراہوں کو فوری طور پر لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا۔ہمیں امید ہے کہ طلباء وطالبات کے اس جائز مطالبے سے صرف نظر نہیں کیا جائے گا۔
دوسرا خط پشاور کے چند شہریوں کی جانب سے ہے اپنے خط میں ادویات کی خرید وفروخت اور ڈرگ ایکٹ کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا ہے کالم کے دامن میں چونکہ گنجائش محدود ہوتی ہے اس لئے ان کے خط کے اہم نکات صوبائی وزیر صحت اور دیگر متعلقہ حکام کی توجہ کے لئے عرض کرنا ضروری ہے اور یہ بھی عرض کرنا لازم ہے کہ اس مسئلہ کا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جائزہ لے کر کم سے کم وقت میں حل تلاش کیا جائے۔
خط میں کہا گیا ہے
”گیارہ مئی2017ء کو اس وقت کے وزیراعلیٰ جناب پرویزخٹک نے ڈرگ رولز1982ء میں ترمیم کرتے ہوئے ڈرگ ایکٹ1976ء کے سیکشن44کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کیا۔ڈرگ رولز میں کی گئی ترامیم کے مطابق صوبے بھر میں میڈیکل اسٹورز،فارمیسی شاپس اور ادویات کے ڈیلرز اس امر کے پابند کر دیئے گئے کہ وہ حکومت کے وضع کر دہ نئے قوانین کے تحت ہی کاروبار کریں گے اور مستقبل میں لائسنس حاصل کر سکیں گے۔
اس قانون کے تحت فارمیسی اور میڈیکل سٹور چلانے والے شخص کا بی ایس سی فارمیسی ہونا لازمی قرار دیا گیا۔لائسنس کے لئے بھی یہی قاعدہ منظور ہوا،فارمیسی شاپ اور میڈیکل سٹور پر کاروبار کے اوقات میں متعلقہ اہلیت کے شخص کی موجودگی لازمی ہوگی۔
نئے قوانین کے تحت فارمیسی شاپس میڈیکل اسٹورز اور ہول سیل ڈیلرز کے لئے کام کرنے کی جگہ کے حوالے سے بھی خصوصی ہدایات تھیں جن میں جگہ کی مقررہ حد،ساخت اور ڈیزائن کے رولز بھی شامل تھے۔
ادویات کی فروخت ڈاکٹری نسخہ سے مشروط کردی گئی۔
بد قسمتی سے کیمسٹ اینڈ ڈر گسٹ ایسوسی ایشن کی ہڑتال کی وجہ سے حکومت نے ان قوانین کا نفاذ2020ء تک ملتوی کردیا۔اور یہ اعلان بھی کیا کہ اس قانون پر عمل کے دن سے کیٹگری”سی“پر پابندی ہوگی۔گزشتہ دنوں صوبائی وزیر صحت شاہ فرمان سے کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے وفد کی ملاقات میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ کیٹگری”سی“ پر پابندیختم کرنے پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا“۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ ہم یہ ہر گزنہیں کہہ رہے کہ ادویات کا کاروبار کرنے والوں پر ناروا پابندیاں لگا دی جائیں لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ادویات کی خریدوفروخت کے حوالے بین الاقوامی طور پر مسلمہ قواعد وضوابط پر عمل کیا جائے گا
فارمیسی کی الف سے نا آشنا آٹھ یا دس جماعتوں کی تعلیم کے حاملین کو میڈیکل سٹورز فارمیسی شاپس وغیرہ پر سیلز مین نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ترمیم شدہ ڈرگ رولز پر عمل کیا جائے۔
حکومت ڈاکٹری نسخہ کے بغیر ادویات کی فروخت کے حوالے سے قواعد وضوابط پر عمل کروائے۔میڈیکل اسٹورز اور فارمیسی شاپس پر عطائیت کے خاتمہ اور دیگر امور پر بہر صورت عمل کروایا جائے۔
یہاں یہ عرض کردوں کہ شہریوں کی طرف سے لکھے گئے خط میں حکومت کو جن امور پر متوجہ کیا گیا ہے ان سے صرف نظر ممکن نہیں صوبائی حکومت کسی تاخیر کے بغیر ضروری اقدامات اٹھائے۔
بشکریہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر