نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عبدالستار ایدھی اور کراچی کے ایک ’لاوارث بچے‘ کی کہانی جو اب خود چار بچیوں کا باپ ہے

اپنی فائل پڑھنے کے بعد بدر میں اپنے حقیقی والدین کو تلاش کرنے کی جستجو پیدا ہوئی اور وہ صرافہ بازار والے سلیم چوکیدار کے گھر پہنچ گئے۔

آسیہ انصر


سنہ 1985 میں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں لسانی بنیادوں پر ہونے والے ہنگاموں کے دوران لالو کھیت کے صرافہ بازار میں ڈیوٹی دیتے چوکیدار سلیم کو سٹرک پر ایک ڈیڑھ سالہ لاوارث بچہ پڑا ہوا ملا۔

سلیم کافی دیر تک علاقہ مکینوں سے اس بچے کی بابت پوچھتے رہے مگر سب نے بچے کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔

تھک ہار کر سلیم بچے کو لیے کورنگی میں واقع ایدھی سینٹر پہنچ گئے۔

اس بچے کو بدر کا نام دیا گیا جس کے والدین کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا تھا۔

بدر نے جب ہوش سنبھالا تو اس نے خود کو ایدھی ہوم میں پایا جہاں عبدالستار ایدھی اس کے لیے ’بابا‘ اور بلقیس ایدھی ’اماں‘ تھیں۔ ایدھی سینٹر میں بدر کے کوئی دو، چار نہیں بلکہ درجنوں بہن بھائی تھے اور کم و بیش سب کے سب یہاں اسی طرح پہنچے تھے جیسا کہ بدر خود۔

بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر بدر نے اس فائل کا مطالعہ کیا جو ایدھی سینٹر میں داخلے کے وقت ہر بچے کے حوالے سے بنائی جاتی ہے۔ اس فائل میں یہ درج کیا جاتا ہے کہ بچہ کیسے اور کس حالت میں ایدھی سینٹر پہنچا اور اسے یہاں لانے والا کون تھا۔

اپنی فائل پڑھنے کے بعد بدر میں اپنے حقیقی والدین کو تلاش کرنے کی جستجو پیدا ہوئی اور وہ صرافہ بازار والے سلیم چوکیدار کے گھر پہنچ گئے۔

بدر بتاتے ہیں کہ ’میں اس پتے پر گیا تو وہاں جا کے معلوم کہ سلیم صاحب کا 15 برس پہلے انتقال ہو چکا تھا اور ان کے گھر والوں کے پاس میرے حوالے سے مزید کوئی معلومات نہیں تھیں۔ لالو کھیت کے صرافہ بازار سے بھی کوئی معلومات نہیں ملیں تو پھر میں صبر شکر کر کے بیٹھ گیا۔‘

شناختی کارڈ اور اصل امتحان کی شروعات

Image copyrightBADARشناختی کارڈ

بدر کے حقیقی والدین کون ہیں، یہ بدر سمیت کوئی نہیں جانتا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب شناختی کارڈ بنانے کا مرحلہ آیا تو اس وقت مجھے حقیقت میں احساس ہوا کہ ماں باپ کی شناخت نہ رکھنے والے بچوں کو اپنی پہچان کروانے کے لیے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’جب میں شناختی کارڈ بنوانے گیا تو وہاں طرح طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا گیا کہ ماں باپ کے شناختی کارڈ لاؤ، پھر میرے بتانے پر کہا گیا تمھارا کوئی آگے پیچھے نہیں ہے، کیا پتا کہ تم پاکستانی ہو بھی کہ نہیں۔ اس کے علاوہ وہاں موجود عملے نے اور بہت سے چبھتے ہوئے سوالات کیے جس سے میری عزت نفس کو ٹھیس پہنچی۔‘

بدر ایدھی سینٹر واپس آئے اور تمام روداد ایدھی صاحب کو بیان کی۔ بدر کہتے ہیں کہ ایدھی صاحب نے نادرا کے مقامی حکام سے بات کی اور انھیں ادارے کا لیٹر بنا کر دیا جس میں میری فائل میں موجود تفصیلات درج تھیں۔

اس کے بعد میرا شناختی کارڈ بنا اور میرے والد کے نام کے خانے کے آگے عبداللہ لکھ دیا گیا۔ ’میں بالکل بھی نہیں جانتا کہ عبداللہ کون تھے یا ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ بعد کے دنوں میں ایدھی سینٹر میں موجود بیشتر ایسے بچے جن کے والدین کا پتا نہیں ہوتا تھا انھیں ب فارم اور شناختی کارڈ کے حصول میں اسی نوعیت کی مشکلات درپیش تھیں۔

ایدھی کی سپریم کورٹ سے اپیل

Image copyrightBADARبدر کے بچپن کی تصویر
Image captionایدھی ہوم کی فائل میں لگی بدر کے بچپن کی تصویر

بدر سمیت فلاحی اداروں میں پرورش پانے والوں بچوں کو درپیش انہی مشکلات نے ایدھی صاحب کو مجبور کیا اور سنہ 2011 میں انھوں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ایک درخواست بھیجی۔

اپنی درخواست میں ایدھی صاحب نے شکایت کی کہ ایسے بچے جن کی والدین کا کچھ پتا نہیں اور وہ فلاحی اداروں میں رہائش پذیر ہیں، نادرا ایسے بچوں کو ب فارم جاری نہیں کر رہا ہے۔

سنہ 2014 میں یہ درخواست اس وقت نمٹی جب نادرا نے اس حوالے سے نئی پالیسی ترتیب دی۔

اس پالیسی کے تحت کسی بھی یتیم خانے کا سربراہ ایک حلف نامہ دے کر وہاں موجود کسی بھی بچے کا قانونی سرپرست بننے کا اہل ہو گیا اور اس کے بعد وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے تحت بچوں کی ولدیت کا مسئلہ حل ہوا۔

’عبدالستار اور بلقیس‘ کے 53 بچے ہیں

ویسے تو عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کے چار حقیقی بچے ہیں تاہم اگر نادرا ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو 53 ایسے بچے ملتے ہیں جنھیں عبدالستار اور بلقیس نے اپنا نام دیا۔

تاہم یہ پالیسی کچھ عرصہ ہی چلی اور اس کے بعد سنہ 2018 میں ایک نئی پالیسی بنائی گئی جس کے تحت یتیم بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے یعنی چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کی نادرا میں رجسٹریشن لازمی ہے۔

18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے یتیم بچے کے والدین کے نامعلوم ہونے کی صورت میں والد کے خانے میں نادرا سافٹ ویئر کے ذریعے تخلیق کیا گیا کوئی بھی فرضی نام ڈالا جاتا ہے۔

پالیسی کے تحت جن بچوں کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے ان کے گارجئین یا سرپرست کے خانے میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے اہلکار کا نام لکھا جائے گا جو بچے کو لے کر نادرا کے دفتر گیا ہو۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نادرا ترجمان فائق علی چاچڑ نے بتایا کہ ’ایسے لاوارث بچے جن کے ماں باپ کا علم نہیں ہوتا ان کا شناختی کارڈ بناتے وقت ’اَن نون پئیرینٹج‘ یعنی نامعلوم والدین کی کٹیگری میں سسٹم میں ان کے دیگر کوائف ڈالے جاتے ہیں، کمپیوٹر سسٹم میں موجود لنک طریقہ کار کے تحت والد کی جگہ ڈیٹا بیس سے کوئی بھی نام خود سے جنیریٹ کرتا ہےاور وہی نام بچے کی ولدیت کے خانے میں لکھا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کوئی بھی شخص خود سے نام اس میں داخل نہیں کر سکتا بلکہ کمپیوٹرسافٹ ویئر سے دی گئی کمانڈ کے تحت نام چُنا جاتا ہے۔‘

’ہم سچ مچ یتیم ہو گئے‘

Image copyrightBADARبدر

بدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آٹھ جولائی 2016 کو عید کا تیسرا دن تھا جب ایدھی بابا کا کراچی میں انتقال ہوا۔ ’مجھے ایسا لگا کہ ہم سچ مچ آج یتیم ہو گئے ہوں اور ہمارے سر سے باپ کا سایہ چھن گیا ہو۔‘

بدر نے اپنا سارا بچپن ایدھی سینٹر میں گزارا اور اب جوان ہونے کے بعد وہ خود بھی ایدھی فاؤنڈیشن سے وابستہ ہیں۔

’میں نے تو بچپن سے ہی ایدھی بابا کو اپنا والد اور بلقیس ممی کو ماں سمجھتا رہا ہوں، کیونکہ ان رشتوں کی پہچان ہمیں ان دونوں نے ہی دی۔‘

ایدھی سینٹر میں رہتے ہوئے بدر نے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں بچپن میں کھیل کود میں لگا رہتا تھا اور پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔

‘ایدھی صاحب نے مجھے کہا کہ اگر تم آگے پڑھنا نہیں چاہ رہے تو پھر کوئی کام اور ہنر سیکھو۔ اس طرح میں نے پہلے درزی، پھر پلمبر اور الیکٹریشن کا کام سیکھا اور پھر کمپیوٹر ہارڈ ویئر سیکھا۔ اس وقت میں ایدھی فاؤنڈیشن کے آفس میں نیٹ ورکنگ کا کام، کیمرہ اور انٹر کام کی انسٹالیشن بھی سنبھالتا ہوں اور بطور کلرک بھی کام کرتا ہوں۔’

پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بدر نے بتایا کہ ’ایدھی بابا اکثر ہم سے ملنے آتے رہتے تھے، وہ جب بھی آتے اپنے ساتھ پھل اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں ہم سب کے لیے لاتے، ہمارے درمیان بیٹھ کر سب کو کھلاتے اور خود بھی کھاتے، ہنسی مذاق بھی کرتے اور پیار بھی کرتے، ہمیشہ ان کا رویہ بہت مشفقانہ ہوتا تھا، ایدھی صاحب نے ہمیشہ سب کو یہی سمجھایا کہ زندگی میں آگے بڑھو، جو ہو چکا اس پر نہ سوچو بلکہ پڑھو لکھو اور کوئی کام سیکھو تاکہ جب ہم تم سب کے ساتھ نہ بھی ہوں اس وقت تمھیں کوئی مشکل نہ ہو اور تمھارا ہنر تمھارے کام آئے۔‘

’میری شادی بھی ایدھی صاحب نے خود کروائی، بلقیس ممی اور ستار ایدھی نے ہی لڑکی ڈھونڈی اور رشتہ کروایا، اور جب لڑکی والوں نے مجھ سے تفصیلات پوچھیں تو میں نے کچھ نہیں چھپایا۔ شادی میں ایدھی بابا، مما اور فیصل بھائی کی سرپرستی رہی اور اب ماشا اللہ میری چار بچیاں ہیں۔‘

’بچہ جائز ہے یا ناجائز‘

Image copyrightBADARبدر

بدر کہتے ہیں کہ ’اگر بچے کو کوئی جھولے میں ڈال گیا اور اس نے ایدھی سینٹر میں پرورش پائی تو لوگ طرح طرح کے سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا نا جائز اورایسے سوال بڑے ہونے کے بعد خاص طور پر بچیوں کی عزت نفس کو بہت متاثر کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کے افراد کو اس بات کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کوئی بھی بچہ اپنے ماں باپ کے گھر سے گُم ہوتا ہے یا کوئی ادارے کے جھولے میں ڈال کے چلا جاتا ہے تو اس میں بچے کا کیا قصور ہے؟

بدر کہتے ہیں کہ انھیں آج بھی ایدھی صاحب کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

’اُن کی باتیں اور ان کا انداز سب سے مختلف تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیشہ سچ بولو چاہے اس کے لیے کتنی ہی تکلیفیں یا نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑیں اور اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچنے دو۔ ہمیں ہمیشہ ایدھی بابا نے یہ سکھایا کہ اگر کسی سے غلطی ہو جاتی ہے یا کوئی آپ سے سخت لہجے میں نامناسب بات کرے تو اس کو ہمیشہ درگزر کرو ورنہ ان باتوں کو یاد رکھنے سے دلوں میں گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔


بشکریہ بی بی سی اردو ‘

About The Author