بیس سال پرانی ایک دھندلی سی یاد آئی ہے۔ ایکسپریس کراچی کا نیوزروم تھا۔ بڑے رہنماؤں کی سیاست کا ذکر ہورہا تھا۔
ایڈیٹر نیر علوی مرحوم نے ہندوستان کی کسی علیحدگی پسند تنظیم کا ذکر کیا جو اندرا گاندھی حکومت کے لیے وبال بنی ہوئی تھی۔
شاید ناگالینڈ یا اسی طرف کے علاقے سے تعلق تھا۔
اندرا گاندھی نے اس کے لیڈر کو پیغام بھجوایا کہ الگ ریاست بناکر جو حاصل کرنا چاہتے ہو، وہ ہم سے ویسے لے لو۔
لڑتے رہو گے تو کچھ نہیں مل سکے گا۔ ہتھیار رکھو، الیکشن لڑو، مرکزی حکومت تعاون کرے گی۔ وزیراعلیٰ بن کر وہ سب کچھ کرلینا جو الگ ریاست میں کرنا چاہتے ہو۔
قصہ مختصر، وہ تنظیم مان گئی۔ معاہدہ ہوگیا۔ اندرا گاندھی نے وعدے کے مطابق انھیں ریاستی حکومت بنانے میں مدد دی۔
اس کے بعد وہی ہوا جو اندرا گاندھی کو معلوم تھا۔
بڑی بڑی باتیں کرنے والا لیڈر ڈلیور نہ کرسکا۔ اس کی جماعت پٹ گئی۔ الگ ریاست بنانے کی باتیں کرنے والوں کو عزت بچانی مشکل ہوگئی۔
حکومت میں آنے کے خواہش مند سیاست دانوں کو بڑی بڑی باتیں کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کیمرے اور سوشل میڈیا کے زمانے میں تو ہرگز یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے۔
نوٹ: یہ مشورہ صرف سمجھ دار لوگوں کے لیے ہے، پیدائشی احمقوں کے لیے نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر