مئی 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی اور بارش۔۔۔فہمیدہ یوسفی

آٹھ دس  کلو سونا    یا   گاڑی جیتنے  کا خواب  تو رمضان میں کراچی میں موجود امت مسلمہ کو  تو تواتر  سے نظر آتا  ہوگا (

دیر تک بیٹھے ہوئے دونوں نے بارش دیکھی​

وہ دکھاتی تھی مجھے بجلی کے تاروں پہ لٹکتی ہوئی بوندیں​

جو تعاقب میں تھیں اِک دوسرے کے​

اور اِک دوسرے کو چھوتے ہی تاروں سے ٹپک جاتی تھیں​

مجھ کو یہ فکر کہ بجلی کا کرنٹ​

چھو گیا ننگی کسی تار سے تو آگ کے لگ جانے کا باعث ہو گا​

اس نے کاغذ کی کئی کشتیاں پانی پر اُتاریں​

اور یہ کہہ کے بہادیں کہ سمندر میں ملیں گے​

مجھ کو یہ فکر کہ اس بار بھی سیلاب کا پانی​

کود کے اُترے گا کہسار سے جب​

توڑ کے لے جائے گا یہ کچے کنارے ​

اوک میں بھر کے وہ برسات کا پانی​

اَدھ بھری جھیلوں کو ترساتی رہی​

اور بہت چھوٹی تھی، کمسن تھی، وہ معصوم بہت تھی​

آبشاروں کے ترنم پہ قدم رکھتی تھی اور گونجتی تھی​

اور میں عمر کے افکار میں گم​

تجربے ہمراہ لئے​

ساتھ ہی ساتھ میں بہتا ہوا، چلتا ہوا، بہتا گیا​

گلزار​

 کہتے ہیں کہ خواب  دیکھنا  چاہیے  کیونکہ خواب دیکھنے والوں کو تعبیر   ملتی ہے  یہ الگ بات ہے کہ خوابوں کا تعلق بھی کچھ   حقیقی دنیا  کہ ساتھ ہونا  چاہیے  ورنہ  فہد  مصطفی  کے پروگرام میں جاکر

آٹھ دس  کلو سونا    یا   گاڑی جیتنے  کا خواب  تو رمضان میں کراچی میں موجود امت مسلمہ کو  تو تواتر  سے نظر آتا  ہوگا ( ویسے اس خواب کا  صرف رمضان اور امت مسلمہ سے تعلق نہیں ہے  خواب ہے سب دیکھ سکتے ہیں )

ؐؐخیر سیانے تو  یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے  خواب ہر کسی  کونہیں بتانا چاہیے  نہ ایویں خواب   کی تعبیر الٹی ہوجاتی ہے  پورا ہونا تو دور کی بات ہے شاید اسی لیے  ستر سال سے پاکستان کے لیڈر پاکستان کے لیے خواب  دیکھ رہے ہیں  اور  اللہ کے فضل سے  اپنے ہر جلسے   کے خطاب میں خواب کی تکمیل کا  زور   و شور سے تذکرہ  کرتے ہیں  اسی لیے   تو پاکستان دن رات ترقی کے مدارج    طے  کررہا  ہے   ہر  طرف   انصاف  اور  عدل   کا بول بالا ہے  امن ہے  دہشت گردی کا تو دور دور تک نام نہیں    تعلیم اور روزگار کے بہترین مواقع  سکون ہی سکون   ہر شہری  خوش خواب ہے نا اب کیا اس پر بھی جے آئی  ٹی بنے گی یا عدلیہ کا بنچ بیٹھے گا   ایسے ہی   سوتے جاگتے ایک  خواب   کراچی   کا بھی دکھ گیا      کیو نکہ  جاگتے ہو ئے  تو  ہر صاحب نظر کو  کراچی کا  دکھ دکھتا ہے  سمندر کنارے   پیاسا کراچی   لہو  لہو   کرچی  کرچی  کراچی     ہر  طرف کچرا  کچرا کراچی  اپنوں کے ستم اور  غیروں  کی کرم فرمائیوں کا  مشق ستم کراچی   اپنی شنا خت کو ڈھونڈتا کراچی    وفاق اور  صوبائی حکومت  کے درمیان   مفاد کی جنگ کا  شکار کراچی  سب کو  سمیٹتا  خود   بکھر تا کراچی        چلو اب کچھ  خواب کی بات کرلیتے ہیں    گرمی کی  جھلستی   ہوئی تپش اور حبس سے بے حال    لوگوں کے لیے اچانک  ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل پڑنے پر  سکھ کا سانس لیتے ہیں نم آلود موسم       طبیعت پر خوشگوار اثرات  مرتب کرتے ہیں  ہلکی تیز بارشوں میں  بھیگتے ہوئے بچے بڑے سب    کو  یہ  برستی بوندیں اچھی  لگتیں ہیں    مگر اگر آپ کراچی کے رہائشی ہیں تو   پہلے  تو  جیسے  کراچی کے حالات  اور سندھ گورنمنٹ کے ترقیاتی کاموں پر  یقین کرنا  ذرا مشکل   ہے ویسے ہی  کراچی کے موسم پرکوئی حتمی رائے نہیں دی  جاسکتی بھلے  محکمہ موسمیات  کس قدر  پرجوش  انداز میں بتادے کہ  کراچی میں بھی طوفانی بارش ہوگی اور کراچی کی ترسی عوام  بھی بارش  کے انتظار  میں  تڑپ کر رہ جاتے ہیں  مگر کراچی میں  بوند بھی نہیں ٹپکتی  اور بیچارے کراچی  والے رات  پڑی  اوسوں کی   پکچرز لے کر ہی  سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتے ہیں آخر  مقابلے پر  لاہوری  اور    اسلا م آباد والے ہوتے ہیں  جہاں تو    ذرا گرمی ہوئی   اور برکھا  برسی  بہر حال  اگر کراچی  میں موسم مہربان ہوجا ئے  اور بادل  برسے  تو کراچی والوں کو  خوشی کم  اذیت زیادہ ہوتی ہے   دو بوندیں پڑتے ہی  کے الیکٹرک کی   قابلیت سامنے آجاتی ہے   اور کراچی اندھیروں  میں ڈوب جاتا ہے  اگر اتنے بڑے شہر  میں ستر فیصد  علاقوں میں  بجلی بند ہوجائے  تو کیا ہوا آخر   فیڈر ٹرپ ہوئے ہیں فالٹ ہیں  ٹھیک ہو جاتے  ہیں   ہر طرف نالے جو کہ  کچرے سے بھرے ہوئے ہیں  ابل جاتے ہیں اور  شہری   اور  صوبائی حکومتوں کی نا اہلی  کا منہ  چڑاتے  ہیں  اور ان کے پاس تو وہی رٹاے رٹائے  سبق ہیں کہ   اختیارت نہیں  تھے   ان کی ذمہ داری ہے  اس کی ذمہ داری ہے     زیادہ ہوگا تو ایک عدد    باقی  رہی سہی کسر     شہر میں  جاری ترقیاتی کاموں نے پوری کردی ہے    شہر بھر میں بدتریں ٹریفک جام   ہوجاتا ہے  کونسی سڑک پر جائیں کونسی پر نہ جائیں  ہر سڑک کا اپنا ہی  نوحہ ہے  کراچی والوں کے لیے  موسم   کی  خوب صورتی سے    لطف اٹھانا بھی جان جوکھم کا کام ہے  مگر  اس شہر کے رہنے والے اتنے        ستم سہہ چکے ہیں کہ  ان  کو   فرق    پڑتا  نہیں کہ بجلی  پانی  گیس   ٹریفک جام  تو زندگی کا حصہ  ہیں ان کے بغیر بھی کیا زندگی   تو کراچی والے بھی اپنے لیے  کوئی نہ  کوئی تفریح  ڈھونڈ لیتے ہیں یہ الگ  بات ہے  کہ  وہ تفریح  کرنٹ کھا کر مرنے میں  نالوں میں ڈوبنے اور  گھڑوں میں گندے پانی آجانے کی صورت میں  ملتی ہے   کیا کبھی کراچی میں بھی ایسی کوئی بارش برس سکتی ہے  جو آپس میں  دلوں کے میل دھو ڈالے  جب ہلکی ہلکی سے  پھوار پڑے تو   دل اس خوف سے بندنہ  ہوجائے کی گھنٹوں کی  مسافت طے کرنا پڑے گی ٹریفک رواں رہے گا     گٹر ابلنے سے پہلے صاف ہونگے  شہری اور  صوبائی انتظامیہ  امنے معاملات  حل  کرنے کی اہل ہوگی  کے الیکٹرک کے دل میں بغیر جلاؤ گھیراؤ کے اللہ کا خوف جاگ جائے   کراچی کے نلوں میں گندا نہیں صاف پانی آئے گا  ہر  سڑک کے اطراف میں  درخت ہونگے کراچی بھی روشن روشن ہرا  ہرا ہوگا  سمندر کنار ے  صاف ستھرا نکھرا نکھرا ہو کراچی  اے کاش   کراچی شہر میں بھی  اترے کمال کا موسم   خواب ہے نہ اور خواب دیلھنے  پر تو کوئی  پابندی تونہیں ہے  نہ  خواب تو خواب ہوتے  ہیں  ان پر کیا پابندی    ۔

%d bloggers like this: