جناب وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اصلاحات’ نظام’ احتساب’ این آر او سمیت مختلف امور پر تفصیل کیساتھ اظہار خیال کیا۔
وہ جب خطاب کیلئے ایوان میں آئے تو اپوزیشن واک آوٹ کرکے جا چکی تھی۔
واک آوٹ سے قبل حکومتی اور اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں الزامات کیساتھ سخت جملوں اور دشنام کا بھی تبادلہ ہوا’
اچھا ہوتا اگر دشنام کے تبادلے یا مقابلہ سے گریز کیا جاتا۔
وزیراعظم نے دو دلچسپ باتیں ارشاد فرمائیں، اولاً یہ کہ کوئی بھی ہماری حکومت نہیں گرا سکتا۔ ثانیاً میں مائنس ہوا بھی تو ان (اپوزیشن) کی جان نہیں چھوٹے گی۔
ان دو باتوں کو ایک تیسری بات (جو درحقیقت پہلی کہلائے گی) سے ملا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بات وزیراعظم نے بجٹ منظوری سے قبل پی ٹی آئی اور اتحادی ارکان کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ میں کہی تھی۔
وزیراعظم نے کہا تھا ”میرے سوا کوئی آپشن نہیں”۔ یوں اب ترتیب وار بات یہ ہوئی کہ ”میرے سوا کوئی آپشن نہیں، ہماری حکومت کو کوئی نہیں گرا سکتا، میں مائنس ہوا تو بھی اپوزیشن کی جان نہیں چھوٹنی”۔
ان تین باتوں میں سے ایک تو انہوں نے اپوزیشن کیلئے کہی، دو کس سے کہیں’ کسے سنائیں؟۔
یہاں ساعت بھر کیلئے رک کر پارلیمانی امور کیلئے وزیرمملکت علی محمد خان کی طرف سے سوشل میڈیا پر کی گئی ایک ٹویٹ پڑھ لیجئے وہ کہتے ہیں ”عمران خان مائنس ہوئے تو جمہوریت مائنس ہوگی؟۔ پچھلی شب جب میرے ملتانی دوست اور پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر علی محمد خان کی ٹویٹ کی تشریح کر رہے تھے تو فقیر راحموں نے کہنی مارتے ہوئے کہا ”شاہ جی تیرے دوست کی باتوں اور باڈی لینگویج میں زمین وآسمان کا فرق ہے” سچ یہی ہے ان کی بات اور چہرے کے تاثرات میل نہیں کھا رہے تھے۔
ہم اگر پچھلی نصف صدی کیا قیام پاکستان سے اب تک کی سیاسی پارلیمانی اور شخصی ادوار (مارشل لاوں) کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مختصر یا پانچ سال کی ہر حکومت اور آمر نے ایک مرحلہ پر یہ ضرور کہا کہ میرا متبادل کوئی نہیں۔
پھر چشم فلک نے دیکھا کہ متبادل نے اقتدار سنبھالا۔
کیا کوئی کھچڑی پک رہی ہے؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ جی ہاں۔
اس کی تصدیق ہفتہ بھر قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس کی روداد سے ہو جاتی ہے، جہاں وزیراعظم کی زبان سمجھے جانے والے وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے نام لے کر دو شخصیات سے کہا! آپ وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، ہمارا قائد اور وزیراعظم صرف عمران خان ہے۔ فیصل واؤڈا کی یہ بات محض ہوائی فائر نہیں تھے۔
پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران موجودہ نظام کا حصہ بنی چند شخصیات نے جن کے بارے میں یہ ابدی تاثر ہے کہ وہ کبھی ”مالکان” کی مرضی کے بغیر بات کرتے ہیں نا کمرہ ملاقات تک آتے ہیں، اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں سے قومی حکومت کی تشکیل کیلئے رابطے کئے، ان رابطوں میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے ناموں کی بازگشت سنائی دی تھی، ایک مرحلہ پر اسد قیصر کا نام بھی لیا گیا۔
یہ رابطے مہم دو وجوہات سے کامیاب (ابھی تک) نہیں ہو پائی، اولاً یہ کہ نون لیگ نے رابطہ کاروں کے سامنے دو شرائط رکھیں ایک پنجاب کی نون لیگ کو واپسی اور ثانیاً وفاقی کابینہ میں 40فیصد حصہ۔
پیپلز پارٹی نے رابطہ کار پیر صاحب سے سوال کیا یہ کیسی قومی حکومت ہوگی جس میں وزیراعظم تحریک انصاف کا ہی ہوگا؟
کہنے والے کہتے ہیں پیپلز پارٹی قومی حکومت کی تشکیل پر تو آمادہ ہے لیکن وہ چاہتی ہے کہ قومی حکومت کا سربراہ بلوچستان سے ہو۔
واقف حال کا دعویٰ ہے کہ پی پی پی بلوچستان سے آزاد رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی بارے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ (بھوتانی فی الوقت حکومتی اتحاد میں ہیں) پی پی پی کی ایک شرط اور ہے وہ یہ کہ قومی حکومت میں ایم ایم اے’ بی این پی بھی شامل ہوں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قومی اسمبلی میں چند دن قبل قبلہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی گرج دار تقریر اور پیپلز پارٹی پر گولہ باری کی وجہ رابطہ کاروں کی ناکامی کا بدلہ تھی۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے
لیکن علی محمد خان کا یہ کہنا کہ عمران خان مائنس ہوئے تو جمہوریت مائنس ہوگی بلاوجہ ہرگز نہیں۔
فیصل واؤڈا ہوں’ علی زیدی یا علی محمد خان تحریک انصاف اور وفاقی کابینہ میں ان تینوں کو عمران خان کی زبان سمجھا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔
تو کیا اگر درپردہ ہوتی کوششوں کو جو ابھی تک کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں کسی مرحلہ پر کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھ کر وزیراعظم قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کروا دیں گے؟
کیا جمہوریت مائنس ہوگی کا مطلب یہی ہے۔
غور وفکر کرنے والوں کیلئے بہت سارا سامان ہے وہ اس پر غور کریں اور جواب تلاش کرنے کی زحمت بھی۔
البتہ یہ عرض کرنے (اور خصوصاً علی محمد خان کی خدمت میں) کوئی امر مانع نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بھی انتخابی معرکہ مداخلت اور الزامات سے محفوظ نہیں یہاں تک کہ قدرے عوامی ردعمل کے اظہار والے 1970ء کے عام انتخابات میں جنرل یحییٰ خان کی حکومت جماعت اسلامی اور قیوم لیگ کی پشت پر کھڑی تھی۔
قیوم لیگ کو سابق حکمران جماعت کنونشن لیگ کے ضبط شدہ پارٹی فنڈ سے رقم بھی ادا کی گئی، جماعت اسلامی پر فوجی حکومت کیساتھ امریکہ بہادر بھی مہربان رہا اور ان مہربانیوں کی بازگشت انتخابی مہم کے د وران سنائی دیتی رہی، طویل جبر وستم کے بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر یہ پہلے انتخابات تھے اس لئے جان پیر پگاڑا کی کے نعرے لگے لیکن ووٹ ذوالفقار علی بھٹو کو مل گیا۔
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے سب کے تختے الٹ دئیے بعد ازاں ایک فراڈ ضمنی انتخابات جو صرف مشرقی پاکستان میں ہوئے ”فیض تقسیم” ہوا لیکن اس فیض کا فائدہ نہ ہوا اور پاکستان تقسیم ہوگیا۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات پر بھی سوالات ہیں، آر ڈی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے سمیت بہت سارے سوالات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ جمہوریت ہے کہاں جس کے مائنس ہونے کی دھمکی دی جارہی ہے؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر