سوشل میڈیا پہ ہر شخص خود کو برائیوں سے مبرا سخی حساس اور اچھا پیش کرتا ہے۔پاکستانی سوشل میڈیا پہ نظر ڈالیں تو ہر شخص آپ کو فرشتہ محسوس ہو گا مگر حقیقت اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔
جب آپ تحریر پڑھتے ہیں تو صاحب تحریر سے قاری کا اک تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔مجھے آب بیتیاں پڑھنے کا بہت شوق ہے آپ کسی بڑے شاعر ادیب اور بیوروکریٹ کی آب بیتی پڑھیں تو ایسا لگے گا کہ ان سے اچھا انسان روئے زمین پہ موجود نہیں ہو گا مگر جب واسطہ پڑتا ہے تو تب معلوم ہوتا ہے کہ اگلا خود کو کتنا معتبر سمجھتا ہے۔گو ڈاکٹر مجاہد مرزا کی آپ بیتی پریشان سا پریشان ہوا کا اک تازہ جھونکا ثابت ہوئی ہے مگر ڈاکٹر صاحب کو تلخ حقائق لکھنے کے نتائج بھی بھگتنا پڑے۔
ڈاکٹر مجاہد مرزا نے لگی لپٹی کے بغیر اپنے روشن اور تاریک دونوں پہلووں کا احاطہ کیا ہے۔قاری اور مصنف کے درمیان تعلق توقعات کو بڑھا دیتا ہے۔
رؤف کلاسرہ صاحب کی مثال لے لیں ان کے کالمز پڑھ پڑھ کے میں ان کا پرستار بنا بلکہ آج بھی ہوں۔چند سال قبل جب میں نیا نیا کالم نگار بنا تھا تو ان سے رابطہ کیا مگر انہوں نے کبھی میری گرمجوشی کا اس طرح سے جواب نہیں دیا جس کی راقم کو توقع تھی۔
میں ان کو مینٹور سمجھتا ہوں مگر جس طرح انہوں نے تنقید پہ لوگوں کو سائبر کرائم کے نوٹسز بھجوائے وہ بھی مجھے ناگوار گزرا۔مگر چونکہ وہ سیلف میڈ آدمی ہیں لیہ جیسے پسماندہ گاؤں سے اٹھ کر یورہ و امریکہ تک پہنچنا اور مین سٹریم میں نام بنانا آج اک جملے میں لکھا جا سکتا ہے مگر اس کے پیچھے کلاسرہ صاحب کی کتنی محنت ہے اس کا اندازہ آپ ان کے اس کالم سے لگا سکتے ہیں جس میں وہ لاہور کی سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے دس روپے کے نان چھولے دو بندوں میں تقسیم کر کے کھاتے ہیں۔
میں تمام سوشل میڈیا کی بات نہیں کر رہا کچھ شخصیات کو استثنیٰ حاصل ہے جیسے مرشد حیدر جاوید سید وہ شخصیت ہیں جن کے کالم پڑھنے کے بعد خاکسار نے یونیورسٹی میں جرنلزم پڑھنے کا ارادہ کیا تھا۔مرشد سرتاپا محبت ہیں۔رانا محبوب اختر وسیب کے پہلے سی ایس پی آفیسر بنے۔سیاست کی کالم نگار ہیں کئی کتابوں کے مصنف ہیں خاکسار کے دوسرے کالم کے بعد ہی رابطہ کر کے حوصلہ افزائی کا جو سلسلہ شروع کیا وہ آج تک قائم ہے۔
میرے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں مجھے تاریخ سمجھاتے ہیں اور اپنی ہر تصنیف نہ صرف بھیجتے ہیں بلکہ راقم ان کی کتابوں سے نقلیں بھی مارتا ہے جس کی انہوں نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔اتنی بڑی تہمید کا مقصد آج آپ کو اپنی شخصیت کے ان تاریک پہلووں سے روشناس کرانا ہے عام طور پہ جس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ساجد حسین نے لکھا کہ ان کی دادی نے اپنے حق کی زمین اپنے بھائی کو دے دی جس کی وجہ سے ان کے بیٹوں کی زندگی عسرت میں گزری اور اس وجہ سے وہ دادی کو گالیاں دیتے رہے ان کے بقول گالیاں کتھارسس کا ذریعہ ہے۔
اس پہ عرض کیا گالیاں دینا ہمارے خاندان کی روایت ہے میرا دادا گالیوں کی وجہ سے مشہور و معروف تھا۔پھر ان کی وراثت چاچو نے سنبھالی جو ٹیچر بھی تھے اس لیے ان کو آڈینس بھی آرام سے میسر آ گئی۔یہ خصوصیت دیگر بھائیوں میں بھی تھوڑی بہت موجود رہی۔میرا بچپن بھی گالیاں دیتے گزرا۔لیکن جوں جوں تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ایکسپوژر بڑھتا گیا۔پڑھنے پڑھانے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا تو گالیاں دھیرے دھیرے ختم ہو کر کھوتے دا پتر چول دا پتر اور الو کا پٹھا پہ آ گے رک گئیں۔
آریز کو بطور خاص چند گالیاں سکھائیں کہ پب جی کھیلتے ہوئے اگر کوئی ٹیڑھا ہو تو یہ والی گالیاں دے کر سیدھا کر دیا کرو۔
پہلے پہل تو اس کی کان کی لوئیں شرم سے لال ہو جاتیں اور میرے کان میں گالیاں دیتا مگر اب آہستہ آہستہ وہ رواں ہو چکا ہے۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں گالیاں لازم و ملزوم ہیں جس کی اک مکمل مثال مختارے آ وڑ جانی دے آ والی آڈیو کی صورت میں موجود ہے۔خصوصاً لڑکوں کے لیے گالیوں سے آشنا ہونا لازمی ہے اس بے رحم معاشرے میں ممی ڈیڈی بچوں کی کوئی وقعت نہیں۔باقی جہاں تک بات ہے دادی والی تو میرے بھائی ان کو گالیاں دینے کا آپ کو کوئی حق نہیں وہ ان کا حق تھا انہوں نے بقائمی ہوش و حواس جسے دے دیا سو دے دیا۔
ہمارے بڑوں نے بھی دادی کے حصے کو بیچ کر سینما ٹھیکے پہ لے لیا تھا اور جب انہیں شہر میں دو ہزار روپے مرلہ زمین مل رہی تھی تو لاکھوں روپے کا بیل لے آئے کہ ہم ڈھل و پتھر کیوں لیں۔آج وہ کمرشل زمین کروڑوں کی ہے لیکن میں نے تب سے بزرگوں کو مورد الزام ٹھہرانا چھوڑ دیا جب سے پڑھا کہ غریب پیدا ہونا جرم نہیں غریب مرنا جرم ہے۔آپ کو اللہ پاک نے ذہن دیا جسم دیا عقل دی اس کو استعمال کریں اور حالات بدل ڈالیں کیونکہ کوسنے دینے سے حالات نہیں بدلا کرتے دوست۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر