نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اساں قیدی تخت لاہور دے۔۔۔ملک سراج احمد

ایک بہت بڑی آبادی والا صوبہ وفاق کی دیگر اکائیوں کو بری طرح غیر متوازن کررہا ہے۔اور دیگر چھوٹے صوبے اس وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں

جون کے مہینہ کو سرائیکی وسیب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔1818 فروری میں رنجیت سنگھ نے اپنی فوج ملتان کی طرف روانہ کی۔ملتان کا محاصرہ کرلیا جو کہ چار ماہ تک جاری رہا۔2 جون کو ملتان کے والی نواب مظفر خان سدوزئی اپنے جانثاروں کے ہمراہ سکھوں کے مقابلے کیلئے نکلے اور شہید کردئیے گئے۔2 جون کوسقوط ملتان کے ساتھ ہی سرائیکی وسیب تخت لاہور کی غلامی میں چلا گیا۔سقوط ملتان کے ٹھیک 202 سال بعد 30 جون کو سرائیکی صوبہ کے وعدہ کے برخلاف جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔جس کے تحت ملتان اور بہاولپور میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کی تعیناتی کا حکم دیا گیا۔تحریک انصاف نے 90 دن میں سرائیکی صوبہ کے قیام کے اپنے وعدے سے نا صرف انحراف کیا بلکہ 30 جون کا دن سقوط سرائیکی صوبہ کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

انگریزوں کے جانے کے بعد سرائیکی وسیب سے مفتوحہ علاقوں جیسا سلوک روا رکھا گیا ۔غیروں سے کیسی شکایت گلہ تو اپنوں سے ہے ۔73 سال ہوگئے ملک کو بنے ہوئے اور ان سات دھائیوں میں تخت لاہور نے سرائیکی وسیب سے وہی رویہ رکھا جو اونچی زات کے برہمن اچھوتوں سے رکھتے ہیں۔سڑکوں،اچھے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سے محروم سرائیکی وسیب حقیقی معنوں میں پسماندگی اور بے چارگی کی تصویر بن گیا۔ہر بار کوئی منصوبہ احسان کے طورپر دیا جاتا رہا۔جب لاہور میں میٹرو اور اورنج لائن جیسے منصوبوں کی عیاشیاں جاری تھیں اس وقت بھی صحت کی بنیادی سہولیات میسر ناہونے سے سرائیکی وسیب کے لوگ مررہے تھے۔ملتان میٹرو تعمیر کرتے ہوئے اس وقت کے خادم اعلیٰ نے کہا کہ اس سے جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور ہوں گی یہ تھا تخت لاہور کے حاکم کو ویژن۔بیوروکریسی میں ایسے ایسے لاٹ صاحب بھیجے جاتے رہے کہ واسرائے کا عہد یاد کرادیا۔کمشنر اور ڈپٹی کمشنر عوام کے خادم نہیں حاکم بن کرتعینات ہوتے رہے۔ان حاکموں کے دربار میں عام آدمی کی رسائی ناممکن ہوتی تھی اگر کبھی کسی کی رسائی ہوبھی گئی تو اس نے بالآخر یہی کہا کہ “ہر کرسی تے کھورا چہرہ ہر چہرہ پنجابی”

پسماندگی اور محرمیوں کے خلاف ردعمل آنا شروع ہوگیا اور ایسے میں سرائیکی وسیب کے دانشور، شاعراور لکھاریوں نے اپنی فکری جدوجہد کا آغاز کیا۔سرائیکی وسیب میں بسنے والے طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا سہرا راجن پور کے علاقہ مہرے والا کے نامور شاعر اور دانشور عاشق بزدار کے سر بھی جاتا ہے ۔عاشق بزدار نے سالانہ سرائیکی میلہ کی بنیاد رکھ کر سرائیکی وسیب کے دانشوروں،شعرااور لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم دے دیا۔فکری سطح پر ایک پلیٹ فارم کا میسر آنا کسی نعمت سے کم نہیں تھا اور اسی پلیٹ فارم سے اپنی الگ شناخت کے لیئے سرائیکی صوبہ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔کون سا ایسا قوم پرست شاعر اور لکھاری نہیں ہے جو مہرے والا کے میلے میں شریک نہیں ہوا۔اسی میلے میں جب میزبان عاشق بزدار نے اپنی شہرہ آفاق نظم اساں قیدی تخت لاہور دے پڑھی تو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔خواجہ غلام فرید نے بھی اپنے عہد میں فرمایا تھا کہ اپنی نگری آپ وسا توں ۔۔ پٹ انگریزی تھانے اور پھراسی تسلسل میں عاشق بزدار نے جب اپنے عہد کا سچ اساں قیدی تخت لاہور دے بیان کیا تو گویا سرائیکیوں کو تخت لاہور کے استحصالی نظام کے خلاف نعرہ مل گیا۔

وزیراعلیٰ پجاب سردار عثمان خان بزدار نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج باقاعدہ طورپر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لیے انتظامی افسران کے نوٹیفکیشن جاری کردئیے گئے ہیں۔یہ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی جانب ایک بڑی پیشرفت ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسی پیشرفت ہے جس میں ہمیں 90 دن کے بعد صوبہ کی بجائے 2 سال بعد سیکرٹریٹ مل رہا ہے اور وہ بھی دوشہروں میں بنایا جائے گا۔یہ تو سرائیکی وسیب کو تقسیم کرنے والی بات ہے۔مستقبل میں سرائیکی باہم دست وگریباں ہوں گے۔کیا اس نوٹیفکیشن سے ہمیں این ایف سی سے حصہ ملے گا؟کیا دریاوں سے سرائیکی وسیب کی زرعی زمینوں کے لیے پانی مختص کیا جائے گا؟کیا پبلک سروس کمیشن میں اور وفاق کی نوکریوں میں ہمارا الگ کوٹہ مقرر ہوجائے گا؟کیا یہ طے ہے کہ یہ نوٹیفکیشن اب منسوخ نہیں ہوں گے؟حکمران اشرافیہ کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ سرائیکی صوبہ کا قیام انتظامی مسلئہ کے حل کے ساتھ ساتھ کروڑوں سرائیکیوں کی شناخت کا مسلئہ بھی ہے۔کیا اس سے سرائیکیوں کو شناخت مل جائےگی؟

اس سارے عمل میں جنوبی پنجاب صوبہ محاز کے اراکین کہاں غائب ہیں۔اس محاز کے سرپرست سابق نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری اور دیگر اکابرین نے ابھی تک اس نوٹیفکیشن کا خیرمقدم کیوں نہیں کیا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ 90 دن میں الگ صوبہ کے قیام کے وعدہ پر ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔اور اس وقت سیکرٹریٹ کے نام پر لولی پاپ دیا جارہا ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ان کو اپنے عوام سے نہیں چھپنا چاہیے بلکہ سامنے آکر حقائق بیان کرنے چاہیں اور اگر وہ اس فیصلے کے ساتھ ہیں تو اس فیصلے کا خیر مقدم کریں تاکہ عوام کے سامنے ان کی حقیقت واضح ہوسکے۔اور عوام آئندہ الیکشن کے لیے ان سے متعلق اپنی رائے قائم کرسکیں۔

جوبھی ہو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام لولی پاپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔قوی امید ہے کہ سرائیکی قوم پرست اس کو سختی سے مسترد کردیں گے ۔کیونکہ اس طرح کےسیکرٹریٹ کے قیام سے عوام کی مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ ان میں اضافہ ہوجائے گا اب کبھی ان کو ملتان یا بہاولپور کے علاوہ لاہور کے بھی چکر لگانے پڑیں گے۔عوام مزید مشکلات اور پریشانیوں کا شکار رہے گی۔اور اس طرح کے اقدام سے تحریک انصاف بھی خاطر خواہ سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔الٹا یہ اقدام اس کے نقصان میں بھی جاسکتا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ارباب اختیار سرائیکی صوبہ سے متعلق اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں۔اور فیصلہ سازوں کو ایک بات زہن نشین کرلینی چاہیے کہ پنجاب کی تقسیم ناگزیر ہے آج نہیں تو کل یہ ہونا ہے۔کیونکہ ایک بہت بڑی آبادی والا صوبہ وفاق کی دیگر اکائیوں کو بری طرح غیر متوازن کررہا ہے۔اور دیگر چھوٹے صوبے اس وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں

آخر میں عاشق بزدار کی نظم کی چند لائنیں پیش خدمت ہیں کہ

ساڈی اکھیں رَت مینہ ترمدیاں

ساڈے من ماندے ڈینہہ رات

ساڈے منہ تے جندرے جبر دے

ساڈے ہتھ کڑیاں وچ بند

اساں قیدی تخت لہور دے

اساں قیدی تخت لہور دے۔۔۔

About The Author