وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران عالمی دھشت گرد اسامہ بن لادن کو شہید قرار دئیے جانے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اسامہ بن لادن کو شہید قرار دینے کے بہت دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ہزاروں انسانوں کا قاتل ہو اس کو اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر شہید کہنا ان ہزاروں انسانوں کے خون سے غداری اور ان کے لواحقین کی دل آزاری تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان کو جن مسائل اور سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وزیراعظم کو شائد اس کا ادراک تک نہیں ہے۔ بھارت ہمارے وزیراعظم کی اس بات کو لے کر پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں دھشت گردی کی حمایت کا جو پروپیگنڈہ کرے گا اس سے ہمیں کتنے نفلوں کا ثواب ملے گا اس کا جواب ہمارے ہینڈسم وزیراعظم کے علاوہ شائد اور کسی کے پاس نہ ہو۔
وزیراعظم کے ایک دو ترجمانوں کی طرف سے ہلکے پھلکے انداز میں کہا گیا ہے کہ یہ زبان کا پھسلنے کی وجہ سے ہوا لیکن وزیراعظم کی جانب سے اس بارے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی اس لئے یہی سمجھا جائے گا کہ وزیراعظم نے جو کہا ہے وہ زبان کا پھسلنا نہیں بلکہ وزیراعظم کے دل کی آواز تھی۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسامہ بن لادن کو شہید کہے جانے کا پورا ایک پس منظر ہے۔ عمران خان کی طالبان اور اسامہ بن لادن کے ساتھ ہمدردیاں اور سوفٹ کارنر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ عمران خان کے طالبان کے بارے اسی رویہ کے باعث عمران خان کو طالبان خان بھی کہا جاتا ہے۰ جب پاکستان میں دھشت گردی پورے عروج پر تھی اور طالبان سوات اور وزیرستان میں پوری طرح قابض ہو چکے تھے تو اس مشکل وقت میں بھی عمران خان نے کبھی طالبان کی مذمت میں ایک لفظ تک نہ کہا۔
عمران خان نے ہمیشہ سوات اور وزیرستان میں طالبان دھشت گردوں کے خلاف آرمی آپریشن کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ جب طالبان کی جانب سے آئے روز ملک بھر میں خود کش حملے کئے جاتے تھے، سیکیورٹی فورسز اور پبلک مقامات خاص طور پر دھشت گردوں کے نشانے پر تھے لیکن عمران خان اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ڈھولکی بجا رہے تھے۔ اتمام حجت کے طور پر جب حکومت نے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی تو قوم کو یقیننا یاد ہو گا کہ طالبان کی جانب سے جس مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا گیا اس میں طالبان نے اپنےاستاد سمیع الحق کے ساتھ جو دوسرا نام اپنی جانب سے مذاکرات کے لئے دیا وہ کسی اور کا نہیں بلکہ عمران خان کا تھا۔
قوم کو یقیننا وہ وقت بھی یاد ہو گا جب پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کو الیکشن 2013 میں دھشت گرد حملوں کی وجہ سے الیکشن کمپئین بھی نہ چلانے دی گئی۔ ان جماعتوں کے جلسوں پر خودکش حملے کئے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے سینکڑوں کارکنان کو شہید کر دیا گیا لیکن عمران خان کھلم کھلا پورے ملک میں جلسے کرتے پھرتے تھے۔ اس وقت شہباز شریف کا ایک بیان بھی منظر عام پر آیا جس میں طالبان سے اپیل کی گئی کہ چونکہ مسلم لیگ بھی آپ کی ہم خیال ہے اس لئے پنجاب میں دھشت گرد حملے نہ کئے جائیں۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو الیکشن کمپئین سے مکمل آؤٹ کر دینے کے نتیجے میں ہی عمران خان خیبرپختونخوا میں پہلی دفعہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت طالبان کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ہمیں عمران خان کے علاؤہ کوئی دوسرا وزیراعظم قابل قبول نہیں ہو گا۔
اوپر بیان کئے گئے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان کی جانب سے اسامہ بن لادن کو شہید کہا جانا کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ عمران خان کے دل کی آواز ہے جو زبان پر آ گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس پر ردعمل کیا ہو گا کیونکہ عمران خان ایک سے زیادہ موقع پر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے بارے امریکہ کو معلومات آئی ایس آئی نے فراہم کی تھیں۔ اب اگر عمران خان کے مطابق اسامہ بن لادن شہید ہے تو پھر آئی ایس آئی کا اس پر کیا موقف ہوگا؟
اس سارے قصے میں یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ حساس معاملات پر وزیراعظم کے بیانات اکثر غیرذمہ دارانہ ہوتے ہیں۔ ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ وزیراعظم نے بغیر سوچے سمجھے حساس موضوع پر ملکی مفاد کے منافی کوئی بات کی ہو۔ اس سے پہلے دورہ امریکہ کے دوران بھی وزیراعظم القائدہ اور طالبان کو بنانے کا الزام آئی ایس آئی پر لگا چکے ہیں۔ اگر اس طرح کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کسی اور لیڈر کی طرف سے کیا گیا ہوتا تو ملک سے غداری، سیکیورٹی رسک اور پتہ نہیں کیا کیا الزام لگا دئیے جاتے لیکن انوکھے لاڈلے کی جانب سے حساس معاملات پر بلا سوچے سمجھے غیرذمہ دارانہ بیانات پر ملکی سلامتی کے زمہ دار اداروں کی خاموشی بہت سے سوال کھڑے کرتی ہے جن کا جواب دیا جانا ملک کی سلامتی کے لئے بہت ضروری ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر