قوم کے بچوں کو اقبالیات، ڈرامہ، تاریخ، جاگرافی، ماحولیاتی سائنس، طبی سائنس اور دفاعی علوم سمجھانے کے لیے جب پروفیسر عمران احمد نیازی، پروفیسر فیاض الحسن چوہان، پروفیسر فیصل واوڈا اور پروفیسر زرتاج گل موجود ہیں تو ڈاکٹر ہودبھائی، عمارعلی جان اور محمد حنیف جیسوں کو یونیورسٹیز میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ رہ گئے روحانی علوم تو ان کے لیے خاتون اول کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ جو لوگ فارمین کرسچن کالج یونیورسٹی ( ایف سی کالیج ) لاہور سے ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اور عمار علی جان کے نکالے جانے پر شور مچا رہے ہیں، دراصل وہ اقبالیات، ڈرامے، تاریخ و جاگرافی کے شعبات میں جو پروفیسر عمران احمد نیازی نے تازہ تحقیقی کام کیا ہے، جو نئے خیالات متعارف کرائے ہیں ان سے مکمل لاعلم ہیں۔
حبیب یونیورسٹی کراچی نے تخلیقی ادب پڑھانے والے محمد حنیف کا مستقبل کے لیے معاہدہ رد کر دیا ہے، حالانکہ حنیف کو ابھی پڑھانے کا شوق تھا مگر ادارے نے ان کی وہ پیشکش رد کر دی ہے۔ تو اب تخلیقی ادب اور خصوصاً فن ڈرامہ بھی قوم کے بچوں کو پروفیسر نیازی پڑھائیں گے۔ حال ہی میں ملک میں ڈرامہ لکھنے والے لکھاری پروفیسر نیازی سے سیکھنے کے لیے ملاقات کر چکے ہیں۔
جن کو دؤر حاضر کے ملک کے مقبول پروفیسر کے کام اور مقام کا اندازہ نہیں ان کو ادب میں پروفیسر فیاض الحسن، طبی اور ماحولیاتی سائنس میں ممتاز پروفیسر زرتاج گل اور دفاعی امور کے تاحیات پروفیسر فیصل واوڈا کے کام کا خاک پتا ہوگا۔ یہ شور کرنے والے معصوم لوگ ہیں، ان کی لاعلمی پر صرف رحم کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اپنے ملک و قوم کے تعلیمی ہیروز سے نا واقف ہوں، ایسے لوگوں کی رائے، احتجاج اور مزاحمت کو پوچھتا ہی کون ہے!
یہ پروفیسر ہودبھائی وہی ہے نا جس کو وزیر اعظم بنائے جانے سے پہلے پروفیسر نیازی نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں ”امریکی ایجنٹ“ کہہ کر خاموش کروایا تھا۔ عمار علی جان کے تعارف سے کون ہے جو واقف نہیں، یہ وہ استاد ہے جو بچوں کو تاریخ کم مزاحمت کے راستے زیادہ پڑھاتے ہیں۔ محمد حنیف کو تو ”پھٹتے آموں کا کیس“ اور لڑاکا بلوچوں کی کہانیاں لکھنے کے انعام میں مغربی ممالک کے ادارے بڑے انعاموں سے نواز چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قوم کے بچوں کو دشمن کے بچوں میں بدلنے کا کام کرتے ہیں۔ پھر دشمن کے ان بچوں کو قوم کے بچوں میں تبدیل کرنے کا معیاری نصاب وطن عزیز میں صرف پروفسیر نیازی، پروفیسر چوہان، پروفیسر زرتاج اور پروفیسر واوڈا پڑھاتے ہیں۔ پروفیسر واوڈا کو دشمن کے بچے پیار سے ”پروفیسر بوٹ واوڈا“ کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔
ملک و قوم کے لیے بدنامی کا سبب بننے والے یہ دو چار لوگ ہر آئے دن کوئی نیا تنازع کھڑا کر لیتے ہیں اس کے بعد مغربی میڈیا دیکھو کیسے ہمارے منظم اداروں کا مذاق اڑاتا ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے مقبول بنائے گئے یہ لوگ، یہی چاہتے ہیں کہ ملکی ادارے کسی طرح بدنام ہوں۔ پہلی بار ملک میں وزیر اعظم، صدر اور ڈنڈی اور جبے والے سربراہان نہ صرف ایک صفحہ پر ہیں مگر سب کے سب ایک سطر میں بھی ہیں۔ یہ باغی ذہن نہیں چاہتے کہ ملکی معاملات خاموشی سے چلیں، یہ دو چار شر پسند پروفیسر اور لکھاری ہیں، ان کو کبھی سکون اور خاموشی پسند نہیں آئی۔ اب جب ملک میں ہر طرف خاموشی ہے تو ان کو کوئی تکرار و تضاد درکار ہے جو ان کو نوکریوں سے فارغ کرنے کی صورت میں مل گیا ہے۔
ان سر پھرے پروفیسر حضرات میں ایک اور بھی نام شامل ہے، جسے حال ہی میں عوامی نیشنل پارٹی ( ای این پی ) نے اپنے ثقافتی محاذ کا صدر بنایا ہے، ان کا نام ہے ڈاکٹر خادم حسین، وہ بھی بچوں کو باچا خان کے فکر سے آشنا کرنے کے نام پر ہندوستان دوستی کا درس پڑھاتا تھا، اسے بھی بحریہ یونیورسٹی والوں نے اپنی ایسی تعلیمی و فکری حرکات کی وجہ سے فارغ کر دیا ہے۔ یہ لوگ امن کے نام پر قوم کے بچوں کے ذہنوں میں بھارت دوستی کا جذبہ ابھارتے ہیں۔ ملالہ یوسفزئی کی بات، یہ بات بات پر کرتے ہیں ان کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور کشمیری عورتوں پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ کبھی دکھائی نہیں دیتا۔ کبھی یہ باغی پروفیسر ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کرتے ہیں، کبھی یہ باجوہ صاحب کو توسیع لینے سے روکتے ہیں، کبھی یہ سرمد کھوسٹ کی فلم ”زندگی تماشا“ پر تماشا کرتے ہیں، کبھی یہ احسان اللہ احسان کے نکل جانے پر غصہ کرتے ہیں تو کبھی ان کو ڈرامہ ”ارطغرل غازی“ سے مسئلہ ہے۔
ڈاکٹر ہودبھائی کو تو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ سائنسز والوں نے بھی نوکری سے چلتا کیا تھا۔ اب قوم کے بچوں کو کسی پرویز ہودبھائی، کسی عمار علی جان، کسی محمد حنیف، کسی عائشہ جلال، کسی عائشہ صدیقہ، کسی رضا رومی اور کسی سرل المیڈا کی ضرورت نہیں رہی۔ نیلی چھتری والے کی نعمتیں اب ہم پر برس رہی ہیں اور قوم کو عمران احمد نیازی، فیاض الحسن چوہان، زرتاج گل اور فیصل واوڈا جیسے محسن مل گئے ہیں۔ بس قوم کے بچوں کو مالک گمراہی سے بچائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر