دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان، شکوے اپنوں سے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔ حیدر جاوید سید

سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی اپنا سیاسی وزن بلوچ بھائیوں کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے افغان مہاجرین کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔

جناب اختر مینگل کیساتھ حکومتی وفد کی ہفتہ کو ہونے والی ملاقات’ بس ملاقات ہی رہی۔ اختر مینگل نے تحریک انصاف کیساتھ ہوئے تحریری معاہدہ کو مہمانوں کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے سوال کیا
”آپ بتا دیجئے اس معاہدہ کی کس شق پر عمل ہوا؟” حکومتی وفد کے سربراہ وفاقی وزیردفاع پرویز خٹک کہتے ہیں
”ابھی مزید نشستیں ہوں گی ہم مایوس نہیں ہیں”
ہفتہ کو ہی مولانا فضل الرحمن کی بلائی کل جماعتی کانفرنس میں سردار اختر مینگل اپنی جماعت کے وفد کے ہمراہ موجود تھے۔
مشترکہ اعلامیہ پڑھے جانے کے بعد اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب میں ان کا کہنا تھا
”حکومت میں واپسی مشکل ہے” حکومتی وفد سے ملاقات کے بعد انہوں نے کہا تحریک انصاف اگر بی این پی کیساتھ ہوئے معاہدہ پر عمل کر دیتی تو آج سارا بلوچستان پی ٹی آئی میں ہوتا۔
حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کے بعد اپوزیشن کے تینوں بڑے گروپس (پی پی پی’ نون لیگ اور ایم ایم اے) نے جناب مینگل سے رابطہ کیا، مولانا فضل الرحمن ان سے دو ملاقاتیں کرچکے، آصف علی زرداری اور شہباز شریف نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، حکومت بھی اپنا اتحادی واپس لانے کیلئے سرگرم عمل بلکہ پرجوش و پراُمید ہے۔
مگر کیا پچھلے برس کی طرح اس بار بھی سردار صاحب کسی شخصی وتحریری صمانت پر ”مان” جائیں گے؟
گو بظاہر اس کا امکان نہیں لیکن یہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
فقیر راحموں کا البتہ دعویٰ ہے کہ مینگل صاحب حکومتی اتحاد میں واپس نہیں جائیں گے۔
ان کی جماعت پر رائے دہندگان کا اور جماعت کا سردار اختر مینگل پر بہت دباؤ ہے۔
بلوچستان سے دور بیٹھے اہل دانش’ شام کی محافل کے اینکرز اور تین صوبوں کے اخبار نویسوں میں سے وہ چند افراد ایک ہاتھ کی اُنگلیوں کی پوروں سے بھی کم ہیں جو بلوچستان کے سیاسی حقائق’ مسائل اور لوگوں کی شکایات کیساتھ ان سلگتے مسائل سے آگاہ ہوں گے جو آتش فشاں بن چکے۔
قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان’ گمبھیر مسائل سے بھی مالامال ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارے اہل دانش وفاقی وریاستی اداروں اور دیگر نے کبھی سنجیدگی غور وفکر اور تدبر وتحمل کیساتھ مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بلوچستان کے عوام اپنے وسائل پر اپنا حق چاہتے ہیں، مثال کے طور پر پنجاب کے دور اُفتادہ دیہات تک میں موجود سوئی گیس سے اس صوبے کے عوام کی اکثریت محروم ہے جہاں سے سوئی گیس نکلتی ہے۔
یہ ایک مثال ہے آپ پچھلے 30برسوں کے دوران وفاقی اداروں میں بلوچستان کے کوٹہ سے بھرتی ہوؤں کی تعداد کو دیکھ لیجئے، ان 30برسوں میں (مکرر عرض ہے یہ ایک مثال ہے) کسی نے جعلی ڈومیسائل پر بلوچستان کا حق کھانے والوں کیخلاف ہی کارروائی نہیں کی، صوبے کے شہریوں کو حق کیا ملتا۔
جتنے شکوے بلوچستان کے بلوچوں کو وفاق اور دوسرے صوبوں سے ہیں اس سے کم لیکن شکوہ وشکایات انہیں اپنے ہی صوبے کے پشتون سیاستدانوں خصوصاً جناب محمود خان اچکزئی سے بھی ہیں۔
سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی اپنا سیاسی وزن بلوچ بھائیوں کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے افغان مہاجرین کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے کسی دن ان سطور میں تفصیل کیساتھ عرض کروں گا کہ قومیتی شناختوں کے حوالے سے دو قومی صوبے کی مختلف الخیال قیادتوں کے درمیان صوبے کے حقوق کیلئے مشترکہ جدوجہد پر اتفاق رائے کیوں نہیں ہو پاتا۔
فی الوقت تو یہ ہے کہ 2018ء میں جب تحریک انصاف اور سردار اختر مینگل کی بی این پی کے درمیان تحریری معاہدہ ہوا تھا تو اس معاہدے کی اہم ترین شق مسنگ پرسنز کے حوالے سے تھی،
بی این پی نے 2018ء میں مسنگ پرسنز کے حوالے سے جو فہرست دی اس میں پانچ ہزار سے زیادہ افراد کے نام تھے، گزشتہ دو سالوں کے دوران لگ بھگ اڑھائی پونے تین سو مسنگ پرسنز بازیاب ہو کر گھروں کو لوٹے مگر اسی دوران 2ہزار کے قریب افراد کے نام مسنگ پرسنز کی فہرست میں شامل ہوگئے۔
پچھلے دو برس کے چند المناک واقعات بھی بی این پی یا یوں کہہ لیں کہ بلوچ عوام اور ریاست کے درمیان فاصلہ بڑھانے کا مؤجب بنے،
ان میں سنگین ترین وہ تین واقعات ہیں جن کا ذکر اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں چند دن قبل اپنی تقریر میں کیا۔
مسنگ پرسنز کے علاوہ وفاقی اداروں میں طے شدہ تعداد کے مطابق ملازمتیں دینے’ گوادر سمیت صوبے میں دیگر وفاقی منصوبوں میں مقامی افراد کو ملازمتوں میں اولین ترجیح’ گوادر میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر اراضی پر قبضوں اور چند دوسری شکایات یہ وہ سارے معاملات تھے جن پر بقول جناب اختر مینگل ایک ڈیڑھ قدم بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔
بی این پی سمیت بلوچ قوم پرستوں کے دیگر گروپوں کو ذرائع ابلاغ سے شکوہ ہے کہ وہ بلوچستان کے حقیقی مسائل کو اُجاگر کرنے کی بجائے سرکاری پریس ریلیزوں کے سب اچھا کو آگے بڑھاتا ہے۔
شکوہ کسی حد تک درست بھی ہے۔
ہماری دانست میں بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کیلئے بہترین طریقہ وہی ہے جو چند برسوں سے عرض کرتے چلے آرہے ہیں۔
بلوچستان کے حوالے سے ایک قومی کمیشن کی ضرورت ہے، وفاق اور چاروں صوبوں کی نمائندگی کیساتھ بلوچستان کے تمام فریقوں کی نمائندگی والا کمیشن ازسرنو سارے معاملات کا جائزہ لے’ کمیشن ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قائم ہو، اس کی سفارشات پر عمل کو قانونی تحفظ حاصل ہو، سچی بات یہ ہے کہ یہ بہت ضروری ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی اسی کمیشن کے حوالے کیا جائے مگر بلوچ رہنما یہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل مسنگ پرسنز کے زندہ ہونے کی گارنٹی دی جائے۔ کیا ہم اُمید کریں کہ وفاق کی طرف سے بلوچستان کی شکایات کو دور کرنے کیلئے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے؟۔

About The Author