نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قاضی فائز عیسیٰ کیس۔۔۔ نصرت جاوید

ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ’’بدخبری‘‘ کے عادی ہوئے ہمارے اذہان کوئی ’’خوش خبری‘‘ بھی سنیں تو ’’ساقی نے کچھ ملانہ دیا ہو…‘‘

افتخار چودھری صاحب ایک طویل تنازعہ اور بحران کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوئے تو انہوں نے سیاست دانوں کی ’’صداقت‘‘ اور ’’دیانت‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے ازخود نوٹسوں کی رونق لگانا شروع کردی۔ ’’جعلی ڈگریوں،حج سکینڈل‘‘ نجی شعبہ میں چلائے بجلی کے کارخانوں سے جڑی کہانیاں بالآخر ایک وزیراعظم -یوسف رضا گیلانی-کی محض ایک چٹھی نہ لکھنے کی وجہ سے نااہلی تک بھی بات جا پہنچی۔

ان دنوں ٹی وی کے ذریعے بہت ہی معقول تنخواہ لیتے ہوئے سرخی پائوڈر لگانے کے بعد ایک گھنٹہ کیمرہ کو مخاطب کرتے ہوئے خود کو ’’مصلح قوم‘‘ ثابت کرنا مجھ جیسے صحافی کے لئے بہت آسان تھا۔ میرا بدنصیب دماغ اس جانب مگر مائل ہی نہ ہوپایا۔ Ratingsکی ہوس میں مبتلا ہونے کے بجائے روایتی صحافت کے تقاضوں کے احترام پر اصرار کرتا رہا۔

اُستادوں نے محض ’’عدالتی کارروائی‘‘ کو دیانت داری سے رپورٹ کرنا سکھایا تھا۔ ٹی وی سکرین پر ’’متوازی عدالت‘‘ لگانا میری دانست میں ہمیشہ پیشہ وارانہ ’’غیر ذمہ داری‘‘ رہی۔ ’’اولڈ سکول‘‘ کے احترام نے وہ معاوضہ کمانے کا موقعہ ہی نہ دیا جو’’چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو‘‘ والا ماحول عطا کرتے ہوئے آپ کا ’’ٹہکا شہکا‘‘ بھی بنائے رکھتا ہے۔ ’’ہاتھ آئے‘‘ بے شمار امکانات کو اس حوالے سے گنوادینے کا بخدا خود پر نازل ہوئی اداسی کے اس طویل موسم میں بھی کوئی ملال نہیں۔ مرتے دم تک اصرار کرتا رہوں گا کہ صحافت کی بنیاد ’’خبر‘‘ ہے۔ قاری یا ناظر کا یہ بنیادی حق ہے کہ سب سے پہلے اسے وہ بتائی جائے۔ ’’خبر‘‘ کو As it is بیان کرنے کے بعد ہی ’’بھاشن فروشی‘‘ کا چھابہ لگایا جاسکتا ہے۔

صحافت کی طرح ’’عدالتی منصب‘‘ کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اپنے شعبے کے حوالے سے کوتاہیوں کو کھلے دل اور بسا اوقات شرمساری سے بیان کرنے میں کبھی میں نے رعایت نہیں برتی۔ ’’عدالتی منصب‘‘ کے تقاضوں کے تناظر میں لیکن ’’بکری‘‘ ہوجاتا ہوں۔ چودھری صاحب کے بعد جناب ثاقب نثار صاحب نے بھی جو ماحول بنارکھا تھااس کی بابت فقط دل ہی دل میں کڑھتا رہا۔

گیلانی صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے گھریلو ملازموں کی طرح فارغ کرتے ہوئے ’’حیف ہے اس قوم پہ‘‘ کی دہائی بھی مچائی گئی تھی۔ یہ دہائی مچاتے ہوئے یہ حقیقت یاد نہ رکھی گئی کہ 3نومبر 2007 کو لگائی ’’ایمرجنسی پلس‘‘ کے بعد ہمارے کئی قدآور ججوں کو معطل کرتے ہوئے گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ ان کے ’’برادر ججوں‘‘ کی کافی بڑی تعداد مگر Business as Usual کی طرح کام کرتی رہی۔ چند دیوانے وکلاء نے مگر اُمید کی لو جگائے رکھی۔ بالآخر لاہور سے ایک جلوس اسلام آباد کی سمت عوام کے ہجوم سمیت روانہ ہوا۔ یہ جلوس گوجرانوالہ پہنچا تو ٹیلی فون کھڑک گئے۔ عدلیہ ’’بحال‘‘ ہوگئی۔ اس جلوس کی قیادت کرنے والا اگرچہ بالآخر عدالت ہی کے ذریعے ’’صادق اور امین‘‘ نہ رہا۔

پنجابی زبان کا ایک محاورہ آپ کو سمجھاتا ہے کہ جس گائوں جانے کا ارادہ نہ ہو تو اس کا راستہ تلاش کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس محاورے کی بدولت ’’عدالتی منصب‘‘ کے تناظر میں اپنی ’’اوقات‘‘ خوب پہچانتے ہوئے میں نے اعلیٰ ترین عدالت میں اٹھائے ’’حساس ترین‘‘ سوالات کے بارے میں دانستہ بے اعتنائی کا چلن اختیار کررکھا ہے۔ عزت مآب جسٹس فائز عیسیٰ صاحب تقریباََ ایک سال سے جس ’’بھانبڑ‘‘ کی زد میں رہے اسے میرے اندر موجود ’’محتاط بزدل‘‘ نے نظرانداز کئے رکھا۔

اس موضوع پر لیکن میڈیا میں دھواں دھار بحث جاری رہی۔ عمران حکومت نے روایتی میڈیا کو کافی ’’ذمہ دار‘‘ بنادیا ہے۔ میڈیا میں لہذا عیسیٰ صاحب کے حوالے سے ’’متوازی عدالت‘‘ والا ماحول نہ لگا۔ یوٹیوب پر چھائے ’’حق پرستوں‘‘ نے البتہ اس ضمن میں ’’سب کا احتساب‘‘ والا ماحول بنائے رکھا ۔ ’’رسیداں کڈو‘‘ کے مطالبے ہوتے رہے۔ اس مطالبے پر زور دیتے ہوئے اکثر ہمیں یاد یہ بھی دلایا گیا کہ عمران خان صاحب نے اپنے بنی گالہ والے گھر کی خریداری کی Money Trail کئی برس گزرجانے کے بعد بھی پیش کی تھی۔ اسی باعث تو وہ پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جنہیں اعلیٰ ترین عدالت نے ’’صادق اور امین‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ اپنی آمدنی اور وسائل کا حساب دینے کو ہر وقت تیار ہیں تو باقی افراد میں کونسے ’’سرخاب کے پر‘‘ لگے ہوئے ہیں کہ ان سے ’’رسیدیں‘‘ طلب نہ کی جائیں۔ ’’سب کا احتساب‘‘ والی بڑھک سنتا ہوں تو یقین مانیں مجھ کم عقل کا پنجابی والا ’’ہاسہ چھوٹ‘‘ جاتا ہے۔ بہرحال ’’احتساب‘‘ آن بان شان سے جار ی ہے۔ ربّ کریم اس عمل میں مزید برکت عطا فرمائے تاکہ 44 روپے کلو تیار ہوئی چینی بازار میں اس سے دگنی قیمت پر فروخت نہ ہو۔

’’احتساب‘‘ کی دُعا مانگتے ہوئے اپنی خواہشات کی فہرست بیان کرنا شروع ہوگیا تو آئندہ جمعہ اس کالم کو قسط وار جاری رکھنا پڑے گا۔مجھے فی الوقت عرض فقط یہ کرنا تھی کہ صحافت کی بنیاد ’’خبر‘‘ ہوتی ہے۔ اسے As it is بیان کرنے کے بعد ہی بھاشن فروشی کے چھابے لگانا چاہیے۔

گزشتہ جمعہ کی سہ پہر سپریم کورٹ نے طویل سماعت کے بعد فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے ریفرنس کے خلاف دائر ہوئی اپیلوں پر اپنا فیصلہ سنایا۔ صحافت کی جو مبادیات میں نے سیکھ رکھی ہیں ان کے مطابق دیکھوں تو دس رکنی بنچ نے اکثریت سے نہیں بلکہ یکجا ہوکر عیسیٰ صاحب کے خلاف بھیجے ریفرنس کو Quashکردیا۔ گویا اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے شاید یہ فیصلہ آنے کے بعد ’’عدالت کی آزادی‘‘ برقرار رکھنے کو بے چین وکلاء کے گروہ نے مٹھائیاں تقسیم کرنا شروع کردیں۔

ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ’’بدخبری‘‘ کے عادی ہوئے ہمارے اذہان کوئی ’’خوش خبری‘‘ بھی سنیں تو ’’ساقی نے کچھ ملانہ دیا ہو…‘‘ والے وسوسے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جمعہ کے روز جو مختصر فیصلہ آیا اس میں “10-0” کے بعد “7-3″ کی تعداد سے FBR کو یہ ہدایت بھی دی گئی کہ وہ فائز عیسیٰ صاحب کی اہلیہ اور بچوں کی بیرون ملک جائیداد کے بارے میں فراہم کردہ معلومات کا جائزہ لے۔ اس ہدایت نے انگریزی محاورے والا گلاس ’’آدھا‘‘ بناکر دکھانا شروع کردیا۔ یوٹیوب پر چھائے حق گو نوجوان مٹھائیاں بانٹنے والوں کا تمسخر اڑانا شروع ہوگئے۔ کئی دل جلوں کو وہ ’’مٹھائی‘‘ بھی یاد آئی جو JIT بنانے کا فیصلہ سننے کے بعد بھی نواز شریف صاحب کو چکھنا پڑی تھی۔

روایتی صحافت کے تقاضوں میں جڑے میڈیا والوں کو مگر مصیبت یہ لاحق ہوگئی کہ وہ جمعہ کے روز آئے فیصلے کو کس کی ’’فتح‘‘ بتائیں۔ حکومت ’’سرخرو ہوئی یا فائز عیسیٰ‘‘ والا سوال کھڑا ہوگیا۔ اس سوال کا جواب فراہم کرنے کے لئے Balance کی تلاش شروع ہوگئی۔’’خبر‘‘ کم از کم اخبار کی حد تک پہلے پیرے میں بیان ہوتی ہے۔ اس پیراگراف کو ہم لوگ Intro یعنی Introduction پکارتے ہیں۔ استادوں کا حکم یہ بھی ہے کہ انٹرو میں لفظوں کی تعداد 29 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہفتے کے روز جمعہ کے دن آئے فیصلے کے ’’انٹرو‘‘ میں نے تمام اخبارات کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر بارہا دیکھے۔ Balance کی خواہش نے ’’انٹرو‘‘ کے تمام تر اصولوں کا ستیاناس کردیا۔ گلاس بیک وقت آدھا بھرا اور آدھا خالی دکھائی آیا ۔”10-0” کا اثر جاتا رہا۔ “7-3″نے دماغ کی دہی بنادی۔

اب اس فیصلے کے حوالے سے فقط بھاشن فروشی ہورہی ہے۔ میں حسب عادت اس میں حصہ نہ ڈالنے کو مجبور ہوں۔ مجھ جیسے احمقوں کو ’’بکائو صحافت‘‘ کے بجائے ’’اصل صحافت‘‘ سکھانے کو مامور حق پرستوں سے فریاد البتہ یہ ضرور کروں گا کہ مختصر فیصلے کے پیراگراف نمبر9 کے بعد آئے پیرا 10کو بھی کچھ وقت نکال کر غور سے پڑھ لیں۔ شاید اس کے بعد گلاس اتنا بھی ’’خالی‘‘ نظر نہ آئے۔

میرے باقاعدہ قاری یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہوں گے کہ میں نے اس کالم میں ازخود پیرا نو اور دس کے مضمرات بیان کرنے کی زحمت کیوں نہیں اٹھائی۔ دست بستہ اعتراف کررہا ہوں کہ ’’علموں بس کری اویار‘‘ کی حقیقت دریافت کر چکا ہوں۔کالم کے ذریعے اب ’’صحافت‘‘ نہیں کرتا۔ ڈنگ ٹپاتا ہوں۔ آج کا کالم ختم ہونے کے قریب ہے۔ میں نے قلم گھسیٹنے کا فریضہ صبح اٹھتے ہی ادا کردیا ہے۔ سورج گرہن کا آغاز ہورہا ہے۔ طبیعت بچپن ہی سے ’’وہمی‘‘ نہیں رہی۔ 21جون 2020کے گرہن نے مگر نجانے کیوں خوفزدہ کردیا ہے۔ اپنی کھڑکی سے باہر جھانکتا ہوں تو ذہن خوف سے مائوف ہوجاتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author