یہ جولائی انیس سو باہتر کی بات ہے جب سندہ میں سندھی مہاجرلسانی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ دادو شہر کے ایک محلے کے گھر میں دھماکہ ہوا تھا جس میں اسوقت کا ایک نوجوان علی جان شدید زخمی ہوا تھا۔ علی جان کے دونوں ہاتھ بم دھماکے میں اڑ گئے تھے۔ ہوش میں ٓآنے پر گرفتار علی جان اور اسکے ساتھیوں نے پولیس کو یہ بیان دیا تھا کہ وہ اپنی اوطاق میں بیٹھے تھے کہ دوازے پہ دستک ہوئی اور جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا تو کوئی نامعلوم شخص بم پھینک کر فرار ہو گیا۔
لیکن آجتک علی جان کے تمام دوستوں کو معلوم تھا کہ علی جان اور اسکے کچھ ساتھی مبینہ بارود سے بم بنا رہے تھے کہ بم پھٹ گیا جس سے علی جان اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہو گیا۔ علی جان کا تعلق جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھا۔
یہ پہلی بار تھا کہ سندھی قومپرست طلبہ تنظیم کے لوگ ایسی کاروائی میں ملوث پائے گئے تھے۔ علی جان گرفتار ہوا تھا کئی ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد وہ شاید یورپ چلا گیا اور کبھی واپس نہیں لوٹا۔
لیکن علی جان اپنے ساتھیوں اور دوستوں میں ایسی دہشتگرادنہ کاروائی پر” ہیرو” اور “بہادر” مانا جاتا تھا۔ شاید اب نئی نسل کے لوگ شاذ و نادر ہی علی جان کے نام سے واقف ہوں۔
یہ وہ دہائی تھی جب دنیا بھر میں انقلابی یا بائیں بازو کی چاہے کمونسٹ چاہے قومپرست مسلح تحریکیں اور دہشتگرد گروپ زوروں پر تھے۔ سوویت یونین دوسرا سپر پاور مانا جا تھا تھا اور سوویت بلاک کو انکے حامی دنیا بھر میں “امن کیمپ” کہتے تھے۔ مشرق وسطی میں الفتح کے فدائین۔ بلیک سیپٹیمبر ، لیلا خالد، جارج حباش، چاہے یورپ جرمنی میں بدر مین ہاف، اٹلی کی ریڈ بریگیڈ اور ادھر ایشیا میں جاپان کی ریڈ آرمی کی متشدد دہشتگرد کاروائیوں کی خبریں پاکستان کی میڈیا میں بھی نمایاں شایع ہوا کرتی اور سندہ کی بھی سیاست میں انکا ذکر زور شور سے رہتا۔ ٓ آئے دن بالا ذکر کوئی نہ کوئی گروپ اسرایئل سمیت کسی نہ کسی ملک میں طیارے اغوا کر کر لیبیا، کیوبا پہنچا رہا ہوتا۔ ٹھیک انہی دنوں جرمنی میونخ میں ہونیوالی اسکی اولمپیک گیمز میں کھیلوں کے دوران اسرائیلی کھلاڑیوں کا کھیل کے میدان میں اسوقت قتل عام ہوا تھا جس وقت دنیا بھر کے ٹیلیویزن پر اولمپک کھیلون کی لائیو کمینٹری اور کوریج چل رہی تھی اور اسرائیلی کھلاڑیوں کا بھی یہ قتل عام دنیا بھر میں لائیو دیکھا گیا۔ فوری بعد میں جسکی ذمہ واری بلیک ستمبر نامی فلسطینی شدت پسندتنظیم نے قبول کرلی تھی۔ الفتاح اور جارج حباش کی پی ایف ایل پی یا پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف پیلسٹائین سے وابستہ یا اسکے ہمدرد فلسطینی نوجوان سندہ یونیورسٹی کی تینوں کیمپس میں پڑہتے اور انکی ھاسٹلوں میں رہتے تھے۔
گوریلے اور دھشتگرد کارلوس کے قصے بھی بڑے شوق سے پڑہے جاتے۔ چے گویرا تو ہیرو تھا ہی۔ بنگلہ دیش ایک نئے ملک کے نام سے پاکستان کی بطن سے ٹوٹ کر دنیا کے نقشے پر ابھر چکا تھا۔ انہی دنوں میں بلوچستان میں بھٹو حکومت کی فو جی کاروائی پر بلوچ مزاحمت پہاڑوٖں پر شروع ہو چکی تھی یا شروع ہونیوالی تھی۔ وتنام کی جنگ بھی تھی تو دنیا بھر میں اسکیخلاف احتجاج بھی ،پاکستان میں بھی ہو رہا تھا۔ ویٹکانگ گوریلوں کے قصے سندھی رسالوں میں بھی شائع ہوتے تھے۔ بلکہ وہ وییتکانگ گوریلئ کی تصویر بھی بہت مشہور ہوئی تھی بلکہ رسول بخش پلیجو کے جریدے “تحریک” کی سرورق پر چھپی تھی جس میں ایک ویتنامی ماں کاندھے پر بندوق اٹھائے گود میں اپنے بچے چھاتی سے دودہ پلا رہی ہے۔
بھارت میں نیکسلائیٹ اور خالصتان تحریک تھی تو افغانستان میں ظاہر شاہ تھا یا دائود خان ہر سال “یوم پختونستان” منایا جا رہا تھا۔ مارچ انیس سو تہتر میں جی۔ایم۔ سید نے پہلی بار سندہ کی پاکستان سے علحدگی اور” آزاد سندھیو دیش” کا نئعرہ لگا کر تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس سے ایک دن قبل تک وہ پاکستان کی حدود میں رہ کر انیس سو چالیس کی قرارداد لاہور یا پاکستان کے مطابق سندہ کی مکمل صوبائی خودمختاری کے ساتھ حقوق چاہتے تھے۔ کبھی کبھی وہ بعد میں بھی اپنا یہ مطالبہ بادل نخواستہ بھی دہراتے رہے تھے۔یہ جو سندھی مصنف و مترجم عطا محمد بنبھرو تازہ انتقال کر گیا اس نے پہلی بار اپنے جریدے “ہوشوکتابی سلسلے کے سرورق پر “سندھو دیش مقدر آ” کی بات انہی دنوں کی جو اب جی یم سیدکی پیروکارجئے سندہ تحریک کا نعرہ بن چکا ہے “ جی۔ایم سید رہبر ٓ سندھو دیش مقدر آ”۔
لیکن حیرت کی بات ہے انہی دنوں ذولفقعار علی بھٹو بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کرنے شملہ جا رہے تھے اور اپنے وفد میں جی۔ایم سید کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ اسکیلیے سید کو پاسپورٹ کے اجرا کیلیے بھٹو حکومت اور سید کے درمیان خط و کتابت بھی ہوئی۔ جو سید کی تصنیفات میں بھی ایسی خط و کے کے نقول ضمیموں کی طور شامل ہیں۔ نیز یہ کی انیس سو تہتر کے آئین پر بھٹو کو ولی خاناور بلوچ رہنمائوں کی حمایت چاہئے تھی اور اسکیلے جی۔ ایم ۔سید اور ذولفقئار علی بھٹو کے درمیان ایک ملاقات چیف منسٹر ہائوس کراچی میں بھی ہوئی تھی۔
تاریخٰی طور ہمیشہ سے سندھی قومپرست چاہے علحدگی پسند تنظیموں میں دو قسم کے لوگ اور رجحانات رہے ہیں ایک وہ جو عدم تشدد کی حامی ہیں اور دوسرے بندوق یا تشدد کی سیاست اپنائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تمام گروپ اور لوگ جی ۔ایم سید کو اپنا رہبر اور اسکے نظریات کو اپنا راستہ بتا تے رہے رہے ہیں۔ دونوں طرح کے یہ لوگ خود کو جی۔ایم سید کے عدم تشدد کے “فلسفے” پر کاربند ہونے کا دعوا بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ لو خود ریاستی ار غیر ریاستی تشدد اور دہشتگردی کا شکار رہے ہیں۔ انہی دنوں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں اسلامی جمعیت طلبہ کا زور تھا اور جمعیت اور جیئے سندھ والوں کے درمیاں مسلح جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں ایک ایسےق میں دستی بموں کا بھی استعمال ہوا تاہم۔ تاہم یہ مجھے نہیں معلوم کہ دونوں فریقین کے طرف سے ہوا تھا کہ ایک فریق کی طرف سے۔
لیکن یہ بھی تاریخ ہے جیئے سندھ کے پر امن عدم تششد میں یقین رکھنے والے کارکنوں اور رہنمائوں کی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ کئی برسوں تک سندہ کی جیلوں اور ملک کے عقوبت خاں میں گذرا ہے۔ یہ شاید پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں سے بھی طویل مدتوں کی قید و صعوبتیں ہوں۔ اگرچہ جیئے سندہ کے لوگ انخابات میں یقین نہیں رکھتے اور نہ پاکستان میں جمہوریت میں لیکن جب بھی ملک کیا جنوبی ایشیا میں جمہوری تحاریک کو جلا بخشنے والوں کی صحیح تاریخ لکھیجائے گی اس میں جئے سندہ والوں اور اسکے بانی کاابھی کا ذکر نمایاں طور ضرور آئگا
۔ انکا لال جھنڈا جسپر سفید سفید ہاتھ میں تھامے کالے رنگ کی کلہاڑی کی ڈیزائین ہے۔ یہ جھنڈا میرے دوست اور جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے عدم تشدد میں یقین رکھنے والے جنرل سیکرٹری مدد علی سندھی نے ڈیزائین کیا تھا۔ سید کو اکیس کلہاڑویوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔ اور ان دنوں کچھ نوجوانوں کے وبھیسفید ہاتھ میں کالی کلہاڑی کا دی آئین بھی ہے ہاتھ میں رائفلیں اور یوسف جکھرانی کے پاس اسٹن گن بھی تھی۔
انیس سو ستر کی دہائی کے وسط میں پہلی بار سندہ یونیورسٹی جامشورو نیو کیمپس کے دو ھاسٹل بلاکوں میں دھماکے ہوئے تھے۔ تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ان دونوں سندہ یونیورسٹی میں جئسے سندھ اسٹودنٹس فیڈریشن کا کنٹرول اور شاھ محمد شاہ کی قیادت تھی۔ یہ بہت بعد کی بات ہے کہ جیئے سندہ کے شدت پسند گروپوں کی طرف سے ایسی کاروائیوں میں استعمال ہونیوالے بموں کو پٹاخہ یا میڈ ان سندھو دیش کہا جانے لگا۔ (جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر