کورونا وارڈ کام کرتے ہوئے اگرچہ کٹ میں شدید گرمی سے جسم پسینہ میں شرابور ہوتا اور ڈبل ماسک سے سانس بند ہوتا ہے مگر ماسک اتارنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.مگر سحری و افطاری میں ماسک اتارنا پڑتا تھا.
وارڈ میں کام کرنے کے ٹھیک پانچ دن مجھے جسم میں شدید درد ہوا اور نیچے کا دھڑ ایک دم سن ہو گیا.اگرچہ زور لگا کے میں چل سکتا تھا مگر یوں لگتا تھا کہ ساری رات جسم پہ جیسے تشدد کیا گیا ہو.انگ انگ میں درد تھا.اللہ پاک بہتر جانتا ہے کہ کورونا مریضوں کے وارڈ کے اندر ڈبل ماسک اور سیفٹی کٹ کے پار سے کورونا لگا یا سحری و افطاری میں ایم او روم ماسک اتار کے کھانا کھانے سے لگا.صبح غسل کرنے لگا تو گرمیوں میں پانی عجیب ٹھنڈا محسوس ہونے لگا.تھرمامیٹر لگایا تو 102 کا بخار تھا.
میرا نظام انہضام جو پہلے سے ہی کمزور ہے اس پہ شدید حملہ کیا اور 12 دن مسلسل بخار کے ساتھ (اب کے99 کبھی 100) اسہال یا loose motions کی کیفیت رہی جو پتلے پانی کی طرح تھے..بیماری کے قریبا” ساتویں دن پودینہ کی خوشبو نہیں آئی جو کہ بعد میں باڈی سپرے ناک کے قریب لگا کے میں نے کنفرم کر لی کہ سونگھنے کی حس ختم ہو گئی..پانی پیتے وقت کڑواہٹ محسوس ہونے لگی بعد میں حلوہ بھی کڑوا لگا گویا چکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا…
بیماری کے پہلے دن ایکس رے کروایا جو بالکل فٹ تھا مگر WBC صرف 3000 تھے اور lymphocyte 67 فیصد تھے.
لاہور والوں نے ٹائیفائڈ بتایا جو کہ بعد میں کورونا نکلا….
کچھ دن کے بعد خشک کھانسی زور پکڑنے لگی تو دوبارہ ایکس کروایا جس میں 15 سے 20 فیصد پھیپھڑے ناکارہ ہو چکے تھے..ایکس رے دیکھتے ہی میرے پائوں سے زمیں نکل گئی اور موت سامنے تھی.بابا جی اور ماما میرے ایک بار کھانسنے پہ رونے لگتے…الحمد للہ ذبیح کا صدقہ اور نفل کی منت اللہ پاک کو پسند آئی…دو دن موت میرے بستر کا رقص کرتی رہی…ہسپتالوں میں دگردگوں حالات کے پیش نظر اور ڈاکٹر سلمان شہید کے واقعے کے بعد میں نے گھر مرنا پسند کر رکھا تھا کہ ہسپتال نہیں جائوں گا.
قریبا” تین رات سانس تنگی کے باعث بابا ساری رات اٹھ اٹھ کے میری چلتی سانسیں دیکھنے باہر سے دروازہ پہ آتے رہے.بابا کہتے ہسپتال چلیں اور 3 لاکھ کے ٹیکے جس کی افادیت تک مکمل معلوم نہ تھی پیسوں کی کمی،لاعلاج مرض کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتے اور میرے منع کرنے پر کانپتے ہوئے مصلے پہ چلے جاتے تھے.
اللہ پاک کا احسان،سانس تنگی ہٹ گئی،خشک کھانسی کم ہو گئی، میری چکھنے سونگھنے کی حس واپس آ گئی.جسم میں کمزوری حد سے زیادہ ہے.
جب بیماری حد سے نکلنے لگتی 2 رکعت صلوت الحاجت پڑھتے تھے.
مفتی تقی عثمانی کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب خواب میں بتائے گئے ذکر پہ عمل کرتا رہا.
3 بار سورت اخلاص
3 بار سورت فاتحہ
313 بار حسبنا اللہ و نعم الوکیل
اللہ پاک نے نئی زندگی دے کے توبہ کا موقع دیا ہے.
اللہ پاک اس موذی وائرس سے ہر دشمن کو محفوظ رکھے.آمین
اسسٹنٹ پروفیسر سر عطا الرحمن ملغانی صاحب کا مشکور ہوں جنہوں نے پل پل گھر میں علاج میں معاونت کی اور دل کی ڈھارس بندھائے رکھی…
اسے یادگار تصویر کے طور پہ بنایا تھا جس میں میرا عذرائیل میرے برتنوں تک آ پہنچا تھا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر