سندھ کے 1241 ارب روپے کے بجٹ میں صوبہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں 5 سے 10 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ کرۂ ارض کے کسی دوسرے حصے یا مریخ پر تو آباد نہیں سندھ اسی ملک کا صوبہ ہے۔ ایک صوبہ جسے وفاق سے یہ شکایت بھی ہے کہ اس کے مالیاتی حصے سے سوا دو کھرب روپے کم دئیے گئے اور رواں (اختتام پذیر) مالی سال میں بھی اس کے مالیاتی حصہ سے کٹوتی کی گئی۔
وفاقی بجٹ پیش کئے جانے پر بھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں عدم اضافہ کوئی کارنامہ ہرگز نہیں۔
مہنگائی اور دوسرے مسائل سے دیگر طبقات کی طرح سرکاری ملازمین بھی متاثر ہیں، مالیاتی ماہرین نے بجٹ بناتے وقت اس امر کو مدنظر کیوں نہیں رکھا اورکیوں سارا ملبہ غلط طور پر آئی ایم ایف پر ڈال کر جان چھڑائی جا رہی ہے
جبکہ آئی ایم ایف نے جن امور میں ہدایات دیں’ کٹوتیوں پر زور دیا اور جن کی تنخواہیں نہ بڑھانے کی تجویز دی وہ بالکل الگ معاملات ہیں۔
یہاں کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ سول اخراجات میں کمی کرکے ملازمین کی تنخواہیں بڑھا دی جائیں، کہا یہ جا رہا ہے کہ دفاعی شعبہ کے کل اخراجات دفاعی بجٹ کا حصہ ہونا چاہئیں اس سے سول بجٹ سے لگ بھگ ساڑھے تین کھرب کا بوجھ کم ہوگا
گویہ رقم ہر دو مدوں میں ادا ملکی خزانہ سے ہی ہوتی ہے مگر ایک شعبہ کے اخراجات کا بوجھ دوسرے پر ڈالنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
دفاعی شعبہ کی پنشنز جنرل پرویز مشرف کے دور میں سول بجٹ کا حصہ بنائی گئیں۔ تب بھی اس پر سوالات اُٹھے تھے، بعد کے ادوار میں اس معاملے کا حقیقت پسندی سے جائزہ لے کر فیصلہ کرنے سے گریز بہرطور ایک سوال تو ہے
مگر خود انقلابی اصلاحات کے وعدوں پر اقتدار میں آئی تحریک انصاف کا بھی یہ تیسرا بجٹ ہے، اس کی قیادت اور مالیاتی ماہرین کو وضاحت کرنی چاہئے۔
اولین بات دوبارہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ وفاقی حکومت اور دیگر تین صوبے بلوچستان’ خیبر پختونخوا اور پنجاب آئندہ مالی سال کے بجٹوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں کے معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اس امر پر بھی توجہ دیں کہ کیا موجودہ حالات میں نجی شعبہ کیلئے پچھلے سال مقرر کی گئی تنخواہ کی حد 17500روپے میں گزر اوقات ممکن ہے؟
ایک گزشتہ کالم میں رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی مجموعی شرح میں اضافے کے حوالے سے تفصیل کیساتھ عرض کرچکا۔
مکررعرض ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہنگائی کو روکنے اور قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے پر ناکام ہوئیں۔ کہیں بھی کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہوئی۔
15مارچ کے بعد سے جب پورا ملک کورونا سے لڑنے میں مصروف تھا اور ہے منافع خوروں نے مہنگائی کا کورونا پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
عوام الناس کا یہ شکوہ بجاطور پر درست ہے کہ حکومت نہ تو اپنے وعدہ کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں ہوئے غیرقانونی اضافے کو کم کراسکی اور ناہی وزیراعظم کے اعلان کے مطابق ادویہ ساز کمپنیوں سے اضافی رقم واپس لیکر صارفین کو دلوا سکی۔
اسی طرح ایک شکایت یہ بھی بجا طور پر درست ہے شوگر کمیشن نے باقی کے سارے کام کئے لیکن شوگر مافیا کی طرف سے فی کلو چینی کی قیمت میں ہوئے 25سے 30روپے اضافے کو ختم کروانے کیلئے نہ کوئی تجویز دی اور ناہی اقدام اُٹھایا۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اب جبکہ کورونا کے حوالے سے وفاقی سطح پر قائم نیشنل کنٹرول اینڈ کمانڈ سنٹر نے ملک کے 20 بڑے شہروں کے سینکڑوں علاقوں میں سمارٹ لاک ڈائون کی ہدایات دی ہیں (سمارٹ لاک ڈائون پر عمل شروع ہوچکا) تو بھی ملک بھر میں پچھلے تین دنوں کے دوران روزمرہ ضرورت کی اشیاء مہنگی ہوگئیں۔ آٹا’ چاول’ دالیں’ سبزیاں وغیرہ ان اشیاء میں سر فہرست ہیں جن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا’ یہاں یہ سوال بہرطور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ صارفین کو لوٹنے والے منافع خوروں کیخلاف کیا اقدامات ہوں گے؟
وزیراعظم عمران خان منگل کو 2روزہ دورہ پر سندھ پہنچے۔ منگل کو انہوں نے سندھ کے گورنر ہاوس میں پی ٹی آئی سندھ کی کور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی اور دیگر مصروفیات بھی نبھائیں، تادم تحریر وزیراعظم اور سندھ کے وزیراعلیٰ کے درمیان باضابطہ ملاقات نہیں ہو پائی۔
سندھ حکومت کا موقف ہے وزیراعظم کے دو روزہ دورہ کی اطلاع اسے ذرائع ابلاغ سے ملی۔
اسلام آباد سے اس ضمن میں باضابطہ طور پر رابطہ نہیں کیا گیا۔ بدھ کو وزیراعظم نے لاڑکانہ جانا ہے، اپنے ایک دوست اور تحریک انصاف کے رہنما کی دعوت پر۔
اطلاع یہی ہے کہ وہ لاڑ کانہ سے سیدھے اسلام آباد چلے جائیں گے۔ وزیراعظم وفاق کی علامت ہی نہیں بلکہ پارلیمانی نظام کے قائد اور محافظ بھی ہیں، سیاسی نظام میں فیڈریشن کے مختلف حصوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں کا ہونا خرابی ہے نابرائی۔
یہ اسی ملک کی بدقسمتی ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت کسی صوبے میں دوسری حکمران پارٹی کو پارلیمانی نظام حکومت میں مساوی طور پر شریک رکھنے کی بجائے اسے دشمن نمبر ایک کی طرح دیکھتی ہے۔
1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں اس طرح کے تماشے ہمارے یہاں بہت بار لگے۔
تحریک انصاف خود کو ماڈریٹ سیاست کا علمبردار قرار د یتی کم از کم اس کے دور میں تو کسی صوبے سے باج گزار ریاست والا برتائو نہیں ہونا چاہئے تھا۔
بلا شبہ تحریک انصاف کے پاس کراچی سے مینڈیٹ ہے، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اس کے اتحادی ہیں لیکن سندھ کے ہی عوام نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے، اس کی عوامی نمائندگی کا احترام اور موجودہ حالات میں سندھ کو ساتھ لیکر چلنا وفاق اور خصوصاً وزیراعظم کا فرض ہے۔
کوئی اختلاف ہے تو باہم مل بیٹھ کر طے کرلیا جانا چاہئے۔ کورونا وبا سمیت درجن بھر بحران اور مسائل کی لمبی قطار ہے اس مرحلہ پر متحد ومتفق ہو کر ملک اور عوام کی رہنمائی ازبس ضروری ہے، اُمید ہے کہ وزیراعظم اس امر کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کریں گے۔
ایک گزشتہ کالم میں رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی مجموعی شرح میں اضافے کے حوالے سے تفصیل کیساتھ عرض کرچکا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر