نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سپریم کورٹ : صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آئین آزادانہ نقل و حرکت ،وقار، ذاتی عزت و تکریم کا تحفظ فراہم کرتا ہے

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ کوویڈیو لنک کے ذریعے بیان دینے کی اجازت دے دی۔۔۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسارکیا کہ آئوجائیدادیں ڈھونڈیں کے اختیارات کہاں سے حاصل کیے گئے؟؟۔۔۔اثاثہ جات ریکوری یونٹ کسی شہری کوقانون کے بغیرکیسے چھوسکتا ہے؟؟۔۔وہ گالف کلب جاتے ہیں ان کی تصاویرلی جاتی ہیں تویہ ایسا ہوگا کہ جمہوریت سے فاشزم کی طرف بڑھا جائے۔۔۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کیا دھرنا فیصلے سے آسمان گر پڑا۔۔۔۔عدالت اپنے اختیارات پرسمجھوتہ نہیں کرےگی

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی  سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ  نے سماعت کی۔

عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ویڈیو لنک پر بیان دینے کی اجازت دے دی

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک انتظامات کروا رہے ہیں،دوپہر کو جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا بیان لیں گے۔ ہماری درخواست ہے اہلیہ مختصر بات کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ وہ بیان دیتے وقت مناسب الفاظ کا استعمال کریں،عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں وہ ہمارے سامنے فریق نہیں ۔

فروغ نسیم نے کہا جوڈیشل کونسل فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی،جوڈیشل کونسل فیکٹ فائینڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات دیتی ہے، بدنیتی پر فائینڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں، جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے تمام فریقین ایک جیسے ہوتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدلیہ پر چیک موجود ہے،کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے،عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھاکیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے؟

فروغ نسیم نے کہا کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے۔ عدالت کو بدنیتی پر فائینڈنگ دینے کا اختیار ہے.

جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کیا کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے؟

فروغ نسیم نے کہا کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے،کونسل کے پاس ہر اتھارٹی ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟

فروغ نسیم نے کہا عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، شو کاز نوٹس میں 3 نقطے جوڈیشل کونسل نے شامل کیے،جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لیکر الزام کے تین نقاط نکالے،عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا اس دلیل کی سپورٹ میں آرمی چیف کیس کا حوالہ کیوں دیا؟

فروغ نسیم نے کہا آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلا، یہ آرڈر 23 کا اصول ہے درخواست عدالت کی اجازت کے بغیر نہیں لی جا سکتی،کیا ریفرنس کالعدم ہو جائے تو پھر بھی اپنی جگہ زندہ  رہے گا۔

فروغ نسیم نے جواب دیا میری بصیرت کے مطابق یہی دلیل ہے ریفرنس کے بعد بھی شو کاز نوٹس ختم نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے آزخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلا۔ جوڈیشل کونسل تمام 28 سوالات پر آبزرویشن دینے کی مجاز ہے،جج تحریری جواب دیکر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کردیا، صدر مملکت کی رائے کا کونسل جائزہ لے سکتی ہے،صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی۔ .تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہے،امریکہ میں چوتھی ترمیم کے مطابق شواہد کی تلاش قانونی ہے,پاکستان اور بھارت میں امریکہ کی چوتھی ترمیم جیسی مثال نہیں ہے,برطانیہ میں جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا,

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آئین آزادانہ نقل و حرکت ،وقار، ذاتی عزت و تکریم کا تحفظ فراہم کرتا ہے،ہمارے ملک میں ایف بی آر، نادرا ، ایف آئی اے جیسے دیگر ادارے موجود ہیں ، آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے,میں گالف کلب جاتا ہوں میری تصاویر لی جاتی ہیں،یہ تو ایسے ہی ہو گا جمہوریت سے فاش ازم کی طرف بڑھا جائے۔

فروغ نسیم نے کہا میں فاشزم کی بات نہیں کر رہا ، یہاں بات شواہد کے اکھٹا کرنے کی ہو رہی ہے،

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس سے غرض نہیں کہ پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں۔ ان جائیدادوں کو ڈھونڈنے کے اختیارات کہاں سے لیے گئے، سوال یہ ہے کہ کس طرح سے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں؟آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کہاں سے حاصل کیا گیا؟

فروغ نسیم نے کہا صحافی کی طرف سے معلومات  آ گئیں تو اسکی حقیقت کا پتہ چلایا گیا ،

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کا وہ سورس چھپائے ،صحافی آرٹیکل یا خبر دیں تو سورس نہیں پوچھ سکتے ، میری تشویش یہ ہے کہ شواہد کی سرچ کیسے کی گئی؟ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے ،جج چاہتا ہے کہ میری پرائیویسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے ،میں تو کہتا ہوں جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔

فروغ نسیم نے کہا پرائیویسی کا حق محدود ہے ،

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جمہوری معاشروں میں قانون ترقی کرتا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا ضیا المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے ، شکایت کنندہ کی درخواست میں صرف ایک جائیداد کا ذکر تھا، صدر مملکت کی منظوری کے بغیر کسی جج کے خلاف مواد اکٹھا نہیں ہو سکتا۔

فروغ نسیم نے کہا کسی قسم کی منی ٹریل نہیں دی گئی,عدالت نے ایف بی آر کو بھیجنے کی تجویز دی تو انکار کر دیا گیا,درخواست گزار کہتے ہیں کہ دھرنا فیصلے کیوجہ سے کچھ حلقے خوش نہیں۔

جسٹس مقبول باقر نےکہا دھرنا  کیس کا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نظر ثانی کے مقدمے میں دونوں ججز کا ذکر نہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ الزام ہے کہ نظر ثانی مقدمے میں جج کو ہٹانے کی بات کی گئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا دھرنا فیصلے سے آسمان گر پڑا؟ اگر نظر ثانی خارج ہوتی ہے تو کیا آسمان گر پڑے گا؟

جسٹس مقبول باقر نے کہا ہماری سائیکی یہ بن چکی ہے ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے، اپنا کام کرنے کی بھی آزادی نہیں دی گئی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا درخواست گزار کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ مجھ پر اور انور منصور پر لگائے جانیوالے الزامات غلط ہیں,ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینا درست نہیں,

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بدنیتی میں پس پردہ مقصد ہونا  چاہیے ،پس پردہ ایسا مقصد جو قانون سے باہر ہو,قانون میں کچھ اقدام ہیں جو بدنیتی پر انحصار کرتے ہیں۔بدنیتی میں آسانی سے نہ الزام لگ سکتا ہے نہ ثابت ہو سکتا ہے،حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی جب قانون سے باہر کام ہو گا، لگتا ہے کچھ الماری میں پڑا تھا جس کے استعمال کرنے کا انتظار تھا۔

فروغ نسیم نے کہا وحید ڈوگر کی شکایت میں تین ججز کے خلاف الزام تھا ، یہ دلیل درست نہیں کہ ریفرنس کی منظوری کابینہ سے لینا ضروری تھی ، آرٹیکل 209 میں وفاقی حکومت کا ذکر نہیں ہے ،

جسٹس عمر نے کہا درخواست گزار کی دلیل ہے کہ جج کو ہٹانے کا معاملہ بڑا سیریس ایشو ہے ،دلیل دی گئی یہ معاملہ کابینہ میں جانا چاہیے تھا ،

فروغ نسیم نے کہا جج کی تقرری کا جائزہ کابینہ نہیں لیتی ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جج کی تقرری کا طریقہ ہی مختلف ہے ،

فروغ نسیم نے کہا صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کے پابند ہیں ،

جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ دلیل تسلیم کرتے  ہیں صدر تو صدر مملکت کے اعتراض پر دوسری مرتبہ ایڈوائس کی کیا ضرورت ہے؟

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

عدالت نے حکم دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ 3:30 بجے بیان ریکارڈ کروائیں گی

جسٹس مقبول باقر نے کہا ریفرنس کی سمری پر رائے صدر مملکت نے آزادانہ طور پر طے کرنی ہے،

فروغ نسیم نے کہا سیکرٹری قانون سے لے کر اوپر تک سب نے اپنا مائنڈ اپلائی کیا

جسٹس مقبول باقر نے کہا صدر مملکت کو رائے بنانے کی ضرورت نہیں ہے،صدر مملکت صرف اپنا ذہن اپلائی کرتے ہیں۔ صدر مملکت کے سامنے کوئی مواد نہیں تھا ، الزامات پر مبنی دستاویزات تھیں۔ ہم نے آج جج صاحب کی اہلیہ کا موقف بھی سننا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک  نے کہا عدالت کا حکم میں نے پہنچا دیا تھا،اہلیہ الزامات کے حوالے سے جواب دیں گی ،امید کرتا ہوں اہلیہ کا جواب زیادہ طویل نہیں ہو گا ،

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیاجج صاحب کی  اہلیہ صرف جائیداد کے حوالے سے جواب دیں گی ؟

منیر اے ملک نے کہا جج صاحب کی اہلیہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں گی ، میں انکا وکیل نہیں ہوں میری حیثیت پیغام رساں کی ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا حکومت کے عام معاملات میں صدر مملکت کو رائے بنانے کی ضرورت نہیں،جب بات آرٹیکل 209 کی آئے گی تو صدر مملکت کو اپنی رائے بنانا ہوگی۔

فروغ نسیم نے کہا جمہوری نظام حکومت ایسے نہیں چلتا،سمری سیکرٹری قانون کی طرف سے تیار کی جاتی ہے، ریفرنس سے متعلق سمری بڑی جامع ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار  کیا وزیراعظم کی ایڈوائس سے صدر مملکت اختلاف کر سکتے ہیں؟

فروغ نسیم نے کہا صدر مملکت معاملے کا دوبارہ جائزہ لینے کے لئے واپس بھیج سکتے ہیں، صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس سے اختلاف نہیں کر سکتے،بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں فون ریکارڈ ہو رہا تھا،یہاں تو کسی جج کی جاسوسی نہیں کی گئی،نہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی جاسوسی ہوئی نہ ہی کسی اور جج کی، ریفرنس اور شوکاز نوٹس میں اینٹی منی لانڈرنگ قانون کی بات نہیں کی گئی۔ قانون کے مطابق ہنڈی حوالہ سے پیسہ باہر جاناجرم ہے ۔ اسٹیٹ بنک کے سرکلر حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسہ بار جانے کو منی لانڈرنگ قرار دیتے ہیں،قانون میں ایک تصور جرم کے تسلسل کا بھی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا منی لانڈرنگ کا جرم تسلسل جرم کب ہو گا ،برطانیہ اور پاکستان کی منی لانڈرنگ رجیم میں بہت فرق ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا منی لانڈرنگ 2010 میں جرم تھا ہی نہیں،ہمارے ملک کے قانون اجازت دیتے ہیں، کرنسی کو تبدیل کروائیں ، فارن اکاؤنٹس کے ذریعے باہر بھجوائیں۔

فروغ نسیم نے کہا عدالتی فیصلے موجود  ہیں جن میں منی لانڈرنگ کو 1998 سے جرم کہا گیا ،میں عدالتی فیصلے پڑھ کر ایجوکیٹ ہو رہا ہوں ،ہم منی لانڈرنگ کی نہیں منی لانڈرنگ رجیم کی بات کر رہے ہیں۔ اس وقت کے قوانین ہنڈی حوالہ کی صحیح وضاحت نہیں کر پائے ۔ میں بینک کے زریعے رقم باہر بھیجوں اور جائیداد خریدوں تو ظاہر کروں گا،

جسٹس مقبول باقر نے کہا منی لانڈرنگ کونسی رجیم  بانڈ ہے۔ قانون کے نقص پر کسی عمل کو جرم تو نہیں کہہ سکتے۔ ہمارے سامنے کوئی بینک ٹرانزکشن نہیں جس پر الزام دے سکیں۔

فروغ نسیم نے کہا اس لیے تو کہہ رہے کہ انکوائری ہو جائے،20 مئی سے 28 مئی تک میڈیا پر ریفرنس کی کوئی خبر نہیں تھی،سابق چیف جسٹس کہہ چکے ہیں انہوں نے ریفرنس جج صاحب کو پڑھنے کے لیے دیا،میرے حساب سے جج صاحب صاف ہاتھوں سے عدالت نہیں آئے، جج صاحب نے صدر مملکت کو خط لکھے، ریفرنس کی خبر میڈیا کو حکومت نے لیک نہیں کی، سابق چیف جسٹس نے ریفرنس پڑھنے کے لیے جج صاحب کو دیا،جج صاحب نے ریفرنس پڑھا اور نوٹس بھی لیا،اپنا خط بھی خود لیک کیا گیا،جج صاحب نے ریفرنس پڑھنے کے باوجود خط میں لکھا مجھے تو ریفرنس کا معلوم ہی نہیں۔انکم ٹیکس قانون کے مطابق جائیداد خریداری کے ذرائع بھی بتانے لازم ہیں

عدالت نےاستفسار کیا کہ تحریری گذارشات کب دیں گے ؟

فروغ نسم نے کہا تحریری گذارشات کے لیے چار پانچ دن لگیں گے،

صدر ، وزیر اعظم، دیگر فریقین کے وکلاء نے فروغ نسیم کے دلائل adopt کر لیے

فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے بعد اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے وڈیو لنک کے ذریعے دس رکنی لارجر بنچ کے سامنے اپنا بیان دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا موقف سنیں گے،انکی اہلیہ کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا

جسٹس فائز عیسی کے اہلیہ وڈیو لنک پر آئیں تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اسلام علیکم بیگم صاحبہ

جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہااپنے خاوند سے کہا مجھ سے کیوں نہیں پوچھا جارہا,موقع دینے کا بہت بہت شکریہ آپکی شکرگزار ہوں,ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔ میرے خاوند نے مجھے کہا ریفرنس میرے متعلق نہیں ہے,میرے لیے یہ بڑا مشکل وقت تھا ،میرے والد قریب المرگ ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا میری شادی 25 دسمبر 1980 کو ہوئی ،

جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ نے نے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ اورپرانا شناختی کارڈ بھی دکھایا ۔  ، 1983 میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ 21 سال بعد لندن میں جائیداد خریدوں گی، شادی کے اکیس سال بعد میں نے لندن میں جائیداد خریدی ،میرا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 میں بنا ،اسوقت میرے خاوند جج نہیں تھے۔

انہوں نے کہا پہلا شناختی کارڈ زاہد المعیاد ہونے پر دوسرا کارڈ بنوایا, میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسی ہے,میری والدہ سپینش ہیں,میرے پاس سپینش پاسپورٹ ہے,الزام لگا دیا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا,جب میرے خاوند وکیل تھے تو مجھے پاکستان کا پانچ سال کا ویزا جاری ہوا,قاضی فائیز عیسی کی اہلیہ موقف دیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں ۔ پانچ سال کا ویزا اس وقت ملا جب میرے خاوند جج نہیں تھے۔ .میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا ،دوسرا ویزا جب جاری ہوا تب بھی میرے خاوند سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے،جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا ۔ یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے ہراساں کیا گیا,ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا, انہوں نے ایسا کیس بنایا جیسے میں ماسٹر مائنڈ کریمنل ہوں۔ پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی،

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا برطانیہ میں جائیداد کی خریداری کے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا,کراچی میں امریکن سکول میں ملازمت کرتی رہی,ریحان نقوی میرے ٹیکس معاملات کے وکیل تھے,گوشوارے جمع کرانے پر حکومت نے مجھے ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا,میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا،ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا،

انہوں نے بتایا کہ کلفٹن کی پراپرٹی فروخت کر دی گئی، شاہ لطیف میں خریدی گئی پراپرٹی بھی فروخت کر دی گئی،میری زرعی زمین میرے اپنے نام پر ہے، زرعی زمین کا خاوند سے تعلق نہیں ہے, زرعی زمین والد سے ملی ہے،زرعی زمین ڈسٹرکٹ جیکب آباد سندھ میں ہے ، ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں بھی زرعی زمین ہے زرعی زمین کی دیکھ بھال میرے والد کرتے تھے،

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ موقف کے دوران بار بار آبدیدہ ہوتی رہیں، ریحان نقوی نے ایڈوائس دی کہ زرعی آمدن قابل ٹیکس نہیں، ریحان نقوی نے ایڈوائس کی کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ اوپن کروائیں ،حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتہ ہے، میں غلط بیانی نہیں کرونگی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ بھی دکھایا

انہوں نے کہا مجھے یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،2003 سے 2013 تک رقم اسی اکاؤنٹ سے باہر گئی ،بنک دس سالہ پرانا ریکارڈ نہیں رکھتے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ برطانیہ میں ٹیکس گوشواروں کا 2016 سے ابتک کا ریکارڈ دکھایا ، برطانیہ نے زیادہ ٹیکس دینے پر ٹیکس ریفنڈ کیا ، میں ایف بی آر گئی مجھے کئی گھنٹے انتظار کرایا گیا۔ ایک بندے سے دوسرے بندے کے پاس بھیجا گیا ،میں نے پوچھا میرا RTO کراچی سے اسلام آباد کیوں تبدیل ہوا؟میں نے ایف بی آر کو دو خط بھی لکھے ، 27 جنوری 2020 کو ایف بی آر جاکر پہلا خط حوالے کیا ،

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم نے نوٹس کیا ہے کہ آپ کے پاس ریکارڈ موجود ہے،ہمارے لیے مسئلہ ہے میرٹ کا جائزہ نہیں لے سکتے ۔ آپ کے پاس دو فورم ہیں ،

جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا  پیسہ بینک اکاونٹ سے لندن بهیجا گیا.میرے نام سے پیسہ باہر گیا،جس اکائونٹ سے پیسہ باہر گیا وہ میرے نام پر ہے.ایک پراپرٹی 236000 پائونڈ میں خریدی گئی.اسٹینڈر چارٹر بنک کے فارن کرنسی اکائونٹس میں سات لاکه پائونڈ کی رقم ٹرانسفر کی گئی. یہ تمام دستاویزات جو میں نے دیکهائی ہیں اصلی ہیں.مجهے محدود وقت دیا گیا ہے.میرا لندن اکاونٹ بهی صرف میرے نام پر ہے۔ 245000 پاونڈز سے 2013 میں تیسری جائیداد خریدی,اس پراپرٹی میں میرا بیٹا رہتا ہے,270000 پاونڈز سے پراپرٹی اپنے اور بیٹی کے نام خریدی,یہ پراپرٹی میرے خاوند کے نہیں میرے اور بیٹی کے نام ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا امریکن اسکول میں کام کرنا بند کیا تو ریحان نقوی نے تجویز دی کہ آمدن قابل ٹیکس نہیں،اب قانون تبدیل ہو گیا ہے,2 جائیدادیں کرایہ پر دے دی گئیں,تیسری پراپرٹی میں بیٹا رہتا ہے,اب میں پاکستان اور برطانیہ میں انکم ٹیکس نہیں دے رہی,

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے کہا مجھے پہلی مرتبہ موقع ملاہے، اسٹیٹ بینک کے پاس تمام معلومات موجود تھی۔ میں لندن کی جائیدادیں 2018 کے گوشواروں میں جمع کرا چکی ہوں

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آدھا گھنٹہ سن کر محسوس ہوا کہ آپ کے پاس اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کافی ہے،

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کی اہلیہ نے ایف بی آر کی بہت شکایت کی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا ایف بی آر نے زیادتی کی تو براہ راست شکایت وزیر اعظم کے پاس جائیگی۔

عدالت نے اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے 2018 کے ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ سیل لفافے میں طلب کر لیا

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ بہت بہادر اور حوصلہ مند خاتون ہیں،اچھے ذہن کے ساتھ آپ کو موقع دیا،ہمارے پاس مقدمہ میرٹ پر سننے کا حق نہیں، ہم آپ کے حوالے سے مطمئن ہے،خریداری کے زرائع سے بھی مطمئن ہیں،اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے۔

About The Author