احتیاط کے سوا کوئی عمل یا کوئی شے آپ کو کرونا وائرس سے نہیں بچاسکتی۔
عبادت بچاسکتی تو عمرہ نہ روکا جاتا۔ حرمین اور زیارات بند نہ کی جاتیں۔ مسجد، مندر اور گرجا جانے پر پابندی نہ لگتی۔
قوت مدافعت بڑھانے کے ٹوٹکے محض ٹوٹکے ہیں۔ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والے اٹھارہ سال کے نوجوان مررہے ہیں اور سو سال کے بزرگ بچ رہے ہیں۔ سو سال والا کیا کھا پی کر اٹھارہ سال والے سے بہتر قوت مدافعت پید کرسکتا ہے؟
پلازما بیچنے اور خریدنے والے احمق ہیں۔ عطیہ کرنے والوں کی نیت اچھی ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ جسے پلازما لگے گا، اسے وائرس نہیں لگے گا یا لگا تو جان بچ جائے گی۔
طبی تحقیق کرنے والے مستند ادارے کم از کم تین کلینیکل تجربات کے بعد کسی دوا یا علاج کی سفارش کرتے ہیں۔ اس لیے ویکسین یا دوا بنانے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔
کسی ڈاکٹر یا لیبارٹری مالک یا سائنس دان کے محض دعوے پر دنیا کا کوئی مہذب ملک کسی دوا یا علاج کی منظوری نہیں دیتا۔
امریکا کے صدر ٹرمپ ملیریا کی دوا ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کو بار بار پروموٹ کرتے رہے۔ انھوں نے یہ تک کہا کہ وہ خود کرونا وائرس سے بچنے کے لیے یہ دوا کھاتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا میں اس دوا کے استعمال پر پابندی ہے۔
اب تک صرف دو دواؤں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان سے کرونا وائرس کے مریضوں کو کچھ فائدہ ہوا ہے۔
ایک کا نام ریمڈیسوئیر ہے۔ یہ کسی مریض کی جان نہیں بچاسکتی۔ اگر کوئی مریض خود بخود پندرہ دن میں ٹھیک ہوسکتا ہے تو یہ دوا لینے سے وہ گیارہ دن میں شفایاب ہوجاتا ہے۔ ماہرین صحت نے کلینکل تجربات کے بعد اس دوا کی سفارش کی۔
دوسری دوا ڈیکسامیتھازون کے بارے میں منگل کو بتایا گیا۔ اس سے ان مریضوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا جنھیں آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر 25 مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت پڑے تو یہ دوا استعمال کرنے سے ان میں سے ایک کی جان بچ جاتی ہے۔ اگر 8 مریض وینٹی لیٹر پر چلے جائیں تو ان میں سے ایک بچ جاتا ہے۔
ڈیکسامیتھازون کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ اسٹیروئیڈ ہے۔ ان کا استعمال عام طور پر اس وقت کیا جاتا ہے جب باقی تمام دوائیں بے اثر ہوجاتی ہے۔ صرف ماہر ڈاکٹر نہایت سوچ بچار کے بعد انھیں تجویز کرتے ہیں۔
کرونا وائرس کے بارے میں ابھی طبی ماہرین زیادہ نہیں جانتے۔ امریکا میں وبائی امراض کے سب سے بڑے ڈاکٹر انتھونی فاؤچی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ماہرین صحت عامہ کے پاس معلومات کم ہے۔ ڈاکٹر فاؤچی چالیس سال سے ایچ آئی وی ایڈز پر تحقیق کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے مقابلے میں ایچ آئی وی کا وائرس بالکل سادہ ہے۔ کرونا وائرس نہایت پیچیدہ ہے اور اس کے حملے ابھی تک سمجھ میں نہیں آسکے۔
بیشتر مریض کسی مسئلے کے بغیر صحت یاب ہورہے ہیں۔ لیکن کیوں؟ یہ نہیں معلوم۔ کچھ مریض ایک ایک ماہ ٹھیک نہیں ہورہے۔ کیوں؟ نہیں معلوم۔ بعض مریض اچانک مررہے ہیں۔ وجہ؟ نامعلوم۔
کچھ مریض بظاہر ان بیماریوں میں مررہے ہیں جن میں پہلے سے مبتلا تھے۔ لیکن وائرس لگنے سے پہلے تو اچھے خاصے تھے۔ اچانک کیسے مرگئے؟ پتا نہیں۔
اس وائرس سے خون گاڑھا ہورہا ہے۔ خون کی نالیوں میں سوزش ہورہی ہے۔ پھیپھڑوں سمیت کئی اعضا متاثر ہورہے ہیں۔
وینٹی لیٹر پر جاکر زندہ بچ جانے والے مریضوں کے بارے میں خدشہ ہے کہ ان کے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ بچ تو گئے لیکن آگے کیا ہوگا؟ امریکا میں حال میں تیس سال سے کم عمر کی ایک خاتون کے دونوں پھیپھڑے ناکارہ ہوگئے۔ خوش قسمتی سے دو پھیپھڑے مل گئے اور ماہر ڈاکٹر بھی جس نے ٹرانسپلانٹ کردیا۔ خاتون بچ گئیں۔ لیکن امریکا میں بھی ہر مریض اتنا خوش قسمت نہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کے مریض کیا امید کریں۔
پھر کوئی امید ہے یا نہیں؟ بالکل ہے۔ اہم بات یہ کہ سو فیصد جان بچانے والا مشورہ ہے اور بالکل مفت۔ بے حد آسان بھی۔ نہ کسی دوا کی ضرورت پڑے گی، نہ پلازما کی اور نہ ٹرانسپلانٹ کی۔
احتیاط کریں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر