نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ۔۔۔ عاصمہ شیرازی

مشین بے حس ہوتی ہے، بے پرواہ اور بے نیاز ہوتی ہے۔ مشین کو کیا پتہ کہ عمر گزار دینے کے باوجود ماں باپ زندگیوں کا محور ہوتے ہیں۔۔۔ مر جائیں تو کیا ہوتا ہے؟

کورونا کے اعداد و شمار بتانے والی مشین بتا رہی ہے کہ ابھی جتنا اندازہ تھا اتنا نقصان نہیں ہوا۔ پھر یہی مشین دکھا رہی ہے کہ اندازہ تھا کہ اتنا نقصان ہو گا۔۔۔ مشین کے سینے میں دل کہاں، مشین تو مشین ہے، نہ سانس لیتی ہے نہ جذبات ہیں نہ احساسات، نہ ہی خدشات۔

مشین بے حس ہوتی ہے، بے پرواہ اور بے نیاز ہوتی ہے۔ مشین کو کیا پتہ کہ عمر گزار دینے کے باوجود ماں باپ زندگیوں کا محور ہوتے ہیں۔۔۔ مر جائیں تو کیا ہوتا ہے؟

مشین کو کیا معلوم کہ زندگی کی بازی ہار جانے والے درمیانی اور جوان عمروں کے افراد گزر جائیں تو کتنے خوابوں کے دیے بجھ جاتے ہیں، کتنی امیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔

مشین تو مشین ہے یہ کہاں جانتی ہے کہ اُس کے تخمینیے اور اندازے بس سکور کارڈ پر بدلتا نمبر نہیں بلکہ چلتے پھرتے جاندار ہیں۔ ’ریوڑ کی مدافعت‘ کا راہنما اصول کب سمجھنے دیتا ہے کہ انسان اور جانور میں کیا فرق ہے۔

پہلی بار ہرڈ امیونٹی یا ’ریوڑ کا مدافعتی نظام‘ سُنا تو عجیب سا محسوس ہوا۔ لفظ ایجاد کرنے والے نے بہت سوچ سمجھ کر اسے لغت میں ڈالا ہے۔

اس نظریے نے وبا کے دنوں میں جنم لیا ہے کہ جب آپ کے پاس کسی بھی وبا یا صورتحال سے نمٹنے کا نظام موجود نہ ہو تو اُس نظام کے سامنے سرنگوں ہو جائیں، شکست تسلیم کر لیں اور خود کو صورتحال کے حوالے کر دیں۔

یہ سپردگی دراصل آنکھیں بند کرکے عام اجازت ہے کہ حملہ آور کی تلوار فیصلہ کرے ۔۔۔ کس کس کو کس کس طرح اور کب ختم کیا جائے۔ میں لفظ ذبح کااستعمال کرنے سے گریزاں ہوں تاہم اس اصول کو آسان لفظوں میں یوں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کوروناجناب! ملک کی معیشت کی زبوں حالی اور ملکی سالمیت اب کورونا کے رحم و کرم پر ہے۔ لاک ڈاؤن نہ کر کے غریبوں کی فلاح کا منصوبہ کیا ہوا جب آپ کو دوبارہ لاک ڈاؤن کی جانب ہی بڑھنا پڑ رہا ہے

پاکستان میں کورونا نے جو کرنا تھا سو کرنا تھا مگر جو ہم نے خود کے ساتھ کر لیا تو جون ایلیا کا یہ شعر ہر دوسرے لمحے لبوں پر آتا ہے کہ۔۔۔

’میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس۔۔۔

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘

جناب اسد عمر صاحب کے لبوں سے یہ الفاظ سنے کہ صورت حال یہی رہی تو جولائی کے آخر تک ملک میں متاثرہ افراد کی تعداد دس سے بارہ لاکھ ہو گی تو وسوسوں نے گھیر لیا۔

عالمی ادارے بتا رہے ہیں کہ خدارا سمجھ جائیے کورونا آپ پر حاوی ہو رہا ہے کچھ کیجیے اور ہم ہیں کہ بضد کہ ابھی وہ تعداد نہیں جو ہم سوچ رہے ہیں۔

جناب! آپ کی حد ہے کیا؟ آپ کے اعداد ہیں کیا؟ آپ کے اہداف ہیں کیا؟ اگر تمام چیدہ چیدہ اداروں کی باتوں کو غلط مان لیں تو بتائیے کہ کیا لاکھوں نہیں تو ہزاروں اموات آپ کے لیے کافی ہیں؟

جس ’ہرڈ امیونٹی‘ پر عملدرآمد ہم نے کیا ہے اس کے نتیجے میں 10، 20 یا 30 ہزار اموات بھی کافی نہیں مگر کیا آپ کے لیے یہ سکور کافی ہے؟

دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت نے 2020 کے بجٹ میں جو اہداف مقرر کیے ہیں وہ محاصل کہاں اور کس سے پورے ہوں گے؟ معمول کی صورت حال میں مقررہ محاصل پورے نہ کر سکنے والی حکومت غیر معمولی صورت حال میں آئی ایم ایف کی جانب سے دیے گئے اہداف کیسے پورے کرے گی؟

پاکستانتصویر کے کاپی رائٹPID
Image captionتحریک انصاف کی حکومت نے 2020 کے بجٹ میں جو اہداف مقرر کیے ہیں وہ محاصل کہاں اور کس سے پورے ہوں گے؟

کیا ہم نے سوچا کہ اگست میں جب کورونا کے متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہو گی تو پیش کیے جانے والے بجٹ کی حیثیت کیا ہو گی؟

جناب! ملک کی معیشت کی زبوں حالی اور ملکی سالمیت اب کورونا کے رحم و کرم پر ہے۔ لاک ڈاؤن نہ کر کے غریبوں کی فلاح کا منصوبہ کیا ہوا جب آپ کو دوبارہ لاک ڈاؤن کی جانب ہی بڑھنا پڑ رہا ہے۔

تب میں فرق یہ تھا کہ لاشیں زیادہ نہیں تھیں اور اب میں فرق یہ ہے کہ کئی قیمتی جانوں کے زیاں کے بعد یہ فیصلہ ہو گا۔ بہر حال۔۔۔ خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔

اُدھر طاقت کے مراکز ہاتھوں سے آہستہ آہستہ سرکتے فیصلوں کو مٹھی میں بند کر لینا چاہتے ہیں مگر فیصلہ ساز قوتوں کے ہاتھ اب عوام کی اصل نمائندہ جماعتوں کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

سیاسی جماعتیں اس صورت حال میں کسی بھی غیر انتخابی تبدیلی کی طرف اب بڑھیں تو نتائج ماضی سے مختلف نہ ہوں گے۔

غیر سیاسی مگر سیاسی قوتوں کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا تاہم یہ فیصلہ بھی ابھی ضروری ہے کہ نمائندہ سیاسی جماعتیں مقتدر ہوں اور فیصلے صرف عوامی طاقت کے ذریعے طے پائیں۔

ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں۔ اگر یوں نہ ہوا تو بہت دیر ہو جائے گی اور اب اور دیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔

About The Author