سال 2018 میں گوگل کی جانب سے ایک سروے میں پاکستان کو فحش ویب سائیٹ دیکھنے والے ممالک میں سرفہرست قرار دیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سب زیادہ فحش دیکھنے والے 10 ممالک میں پہلے 6 مسلمان ممالک ہیں جس میں بالترتیب پاکستان ، ویت نام اور مصر پہلے نمبروں پر ہیں۔
ہو سکتا ہے آپ اس بات کو درست نہ سمجھیں یا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیں لیکن اگر ہم چند لمحے کیلئے مان لیں کہ یہ رپورٹ درست ہے تو سوال اٹھتا ہے ۔۔۔ آخر کیوں ؟
کیوں پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک فحش دیکھنے میں زیادہ دلچپسی لیتے ہیں ؟
فائٹ دا نیو ڈرگ نامی ایک تنظیم کے مطابق دنیا کا 60 فیصد فحش مواد امریکہ سے جاری ہوتا ہے 42 کروڑ 80 لاکھ ویب گاہوں اور پرسنل پروفائل پیجز کیساتھ یہ کام جاری ہے دوسری نمبر پر ہالینڈ 27 فیصد حصہ کے ساتھ اور برطانیہ 7فیصد کیساتھ تیسرے نمبر پر ہے
اگر آپ ان اعداد کو دیکھیں تو مغرب کے تیار شدہ فحش مواد کے بڑے دلدادہ مسلمان ممالک ہیں ، لیکن سوال پھر وہی ۔۔ کہ آخر کیوں ؟
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سائیکالوجسٹ سدرہ اختر سے یہی سوال کیے انکا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پہلی وجہ دیر سے شادیوں کا رجحان ہے جبکہ دوسری بات مذہبی سختی بھی ہیں، کیونکہ بغیر مذہبی بندھن کے جنسی زندگی کا تصور ممکن نہیں اسلیے لوگ فحش ویڈیو دیکھ کر گزارا کر لیتے ہیں اور انکو لگتا ہے کہ ہم براہ راست تو گناہ نہیں کر رہے اور دیکھنے کو گناہ کم ہی سمجھتے ہیں
دوسرے سوال پر سائیکالوجسٹ نے کہا مسلمان ممالک میں فحش ویب سائیٹ دیکھنے کا زیادہ رجحان بھی اسلیے ہے کہ ہمارے ہیں قبہ خانے یا جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے مغرب کی طرح ذرائع موجود نہیں ہیں اور دوسری طرف خواتین بھی ہر کسی کو منہ نہیں لگاتی ۔۔ چونکہ یورپ کی نسبت مسلمان ممالک میں پابندی زیادہ ہیں اسلیے Curiosity بھی زیادہ ہے
عوام کی رائے میں کچھ دوستوں نے اسکو وقت کا ضیاع کہ کر جواب دیا کہ وہ اب دیکھنا چھوڑ چکے ہیں تو کچھ کا کہنا تھا کہ فرسٹریشن دور ہوتی اور سکون ملتا ہے۔
پاکستان میں فحش ویب گاہیں پاکستانی حکومت کی جانب سے بند کردی گئیں ۔۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے 8 لاکھ سے زیادہ ایسی ویب گاہیں بند کی ہیں جن میں جنسی مواد نشر کیا جاتا تھا
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ویب سائیٹس کو بند کرنے سے فحش مواد تک رسائی بھی ختم ہوئی ہے یا نہیں ؟ جواب بھی پڑھ لیجئے
پاکستان جیسے ممالک میں فحش مواد تک رسائی کا بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ٹولز ہیں ۔۔ ٹویٹر،انسٹا گرام، فیس بک اور خاص کر واٹس ایپ پر یہ مواد آپکو فری میں ملے گا اور اگر اس کے باوجود آپ نے ویب سائٹ پر ہی جانا ہے تو ان ویب سائٹس کو پراکسی یا وی پی این کے ذریعے باآسانی کھول سکتے ہیں ۔ آپ گوگل پر سیکس گروپ لکھیں آپکو ہزاروں لنکس ملیں گے آپ کسی بھی گروپ کا حصہ بن سکتے ہیں اور فحش ویڈیوز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔۔ اور گروپس بھی اسی طرز کے ہیں جس طرز کی آپکو جنسی تسکین چاہیئے ۔۔۔ ہم نے Covertly کچھ گروپس کا حصہ بن کر مشاہدہ کیا ہے کہ چند ایک گروپ چھوڑ کے دیگر فحش گروپس میں جو مانگ کی جاتی ہے وہ بچوں سے جنسی عمل کی ویڈیوز کی ہے اور یہ ویڈیوز کوئی فحش ویب سائٹس جاری نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر یورپین ممالک کے لوگوں کی ویڈیوز ہوتی ہیں جو خود خاص طور پر بچیوں کو جن کہ عمر 5 سال یا کم ہوتی ہے ان سے جنسی عمل کرتے ہوئے بناتے ہیں اور پھر اسکو بھیجا جاتا ہے
بچوں سے جنسی زیادتی میں سوشل میڈیا کا کردار کتنا ہے ؟
ایک طرف تو ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز موجود ہیں اور انکے صارف زیادہ تر 20 سال تک کی عمر کے جوان ہیں ۔۔ لڑکوں کا زیادہ رجحان ان خواتین کی ویڈیوز کی طرف ہے جن کی نسوانیت عام لڑکیوں سے درجہا زیادہ ہے جبکہ خواتین میں چھوٹے بچوں کیساتھ جنسی عمل کی ویڈیوز مانگنے اور دیکھنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔۔ پاکستان میں حالات گھمبیر ہیں یہاں بھی بچوں سے زیادتی کا عمل کیا جا رہا ہے
آپ سوچیے لاک ڈاؤن یا اپنے کمرے میں ہر کسی کے پاس موبائل کے ذریعے ان ویڈیوز تک رسائی حاصل ہے لیکن اس جنسی عمل کیلئے جنس مخالف کی عدم موجودگی اور بچوں تک آسان رسائی موجود ہے ۔۔۔ دماغ میں موجود جنسی تسکین کا بھیڑیا ایسے حالات میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے بہت سے پہلو باقی ہیں اس لیے ایک سے زائد تحریروں میں احاطہ کیا جائے گا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ