ایپل کمپنی کے بانی اسٹیو جابز نے آج سے 25 سال پہلے جب ایک فلم پر سرمایہ کاری کی تو یہ کوئی خبر نہیں تھی۔ کسی اخبار میں اس کی شہہ سرخی نہیں بنی۔ ہالی ووڈ کے ایک دو جریدوں میں سرسری سا تذکرہ ہوا۔ لیکن آج پیچھے مڑ کے دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر غیر معمولی واقعہ تھا۔ شاید آپ نے بھی کبھی نہ سنا ہو کہ اسٹیو جابز نے ایک فلم بنانے میں دلچسپی لی تھی۔
اسٹیو جابز کی سوانح حیات لکھنے والے والٹر آئزک سن نے اپنی کتاب میں اس بارے میں پورا ایک باب لکھا۔ اس کتاب کو شائع ہوئے 9 سال ہوچکے ہیں اور کسی نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ لیکن اب بہت سے لوگوں کو وہ فلم یاد آرہی ہے۔
یہ 1995 کی بات ہے جب دو ٹرانس جینڈر ڈائریکٹرز لینا ویچوسکی اور للی ویچوسکی نے ایک سائنس فکشن فلم کی کہانی وارنر برادرز کو پیش کی۔ اس میں ایک سوپر کمپیوٹر پوری دنیا کو اپنا غلام بنالیتا ہے۔ وارنر برادرز نے اسے اہمیت نہیں دی کیونکہ اس وقت تک کمپیوٹر آج کی طرح انسان کی زندگی کا حصہ نہیں بنا تھا۔
ان دنوں اسٹیو جابز ایپل کی انتظامیہ میں شامل نہیں تھا اور کمپنی بھی برے حالات کا شکار تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ ایپل آئی فون اور ایپل آئی پیڈ جیسی چیزیں کوئی دس سال بعد مارکیٹ میں آئیں۔ نوے کے عشرے میں ایپل کی مصنوعات اس طرح فروخت نہیں ہورہی تھیں اور وہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔
اسٹیو جابز کو 1997 میں ایپل کی انتظامیہ میں شامل کیا گیا اور کمپنی کی ترقی کا دور شروع ہوا۔ لیکن اس سے پہلے اسٹیو جابز دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہا تھا اور فلم کا شعبہ ان میں شامل تھا۔
ایپل میں واپسی سے پہلے اسٹیو جابز ویچوسکی سے وعدہ کرچکا تھا کہ وہ ان کی فلم میں پیسہ لگائے گا۔ اس کی دلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کہانی کے آئیڈیے پر نہ صرف فلم بنانا چاہتا تھا بلکہ بعد میں اسے حقیقت کا روپ بھی دینا چاہتا تھا۔
1999 میں ریلیز کی گئی اس فلم کا نام میٹرکس ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں نے وہ فلم دیکھی ہے۔ اس کا ہیرو مشہور اداکار کینو ریوز ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک سوپر کمپیوٹر نے پوری دنیا کو اپنا غلام بنالیا ہے۔ کمپیوٹر کو زندہ رہنے کے لیے انرجی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ انسان کا جسم انرجی پیدا کرتا ہے۔ سوپر کمپیوٹر کسی ترکیب سے تمام انسانوں کو سلادیتا ہے اور کیبلز کو ان کے جسموں سے منسلک کردیتا ہے۔ ایک طرف یہ کیبل انسان سے انرجی نکالتے ہیں اور دوسری طرف انھیں ورچوئل ریئلٹی یعنی مصنوعی دنیا میں لے جاتے ہیں۔
اس مصنوعی دنیا میں انسان کھاتے پیتے ہیں، سوتے جاگتے ہیں، ملازمت اور کاروبار کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ایک مشترکہ خواب میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں دنیا کی پوری آبادی قید اور نیند میں رہتی ہے۔ اتفاق سے کچھ ہیکر جاگ جاتے ہیں۔ وہ دنیا کو قید سے نکالنے اور نیند سے جگانے کے لیے طویل جنگ لڑتے ہیں۔
اسٹیو جابز نے اس فلم کی پروڈکشن کے دوران ہی ایک عظیم منصوبہ تشکیل دیا اور اس کا بلو پرنٹ اپنے حریف بل گیٹس سے شئیر کیا کیونکہ وہ تنہا اس پر عمل نہیں کرسکتا تھا۔
منصوبہ یہ تھا کہ فلم میٹرکس کی طرح پوری دنیا کی آبادی کو گھروں میں بند رہنے پر مجبور کردیا جائے۔ کوئی باہر نہ نکلے اور سب سوتے جاگتے چوبیس گھنٹے اپنے کمپیوٹر کے ساتھ منسلک رہیں۔ چند سال بعد جب آئی فون اور ونڈوز فون ایجاد کیے گئے تو منصوبے میں کمپیوٹر کے ساتھ انھیں بھی شامل کرلیا گیا۔
اسٹیو جابز اور بل گیٹس کو جلد اندازہ ہوگیا کہ انھیں ٹیکنالوجی کی دنیا کے اور ذہین لوگوں کو اس عظیم منصوبے میں شامل کرنا پڑے گا کیونکہ اس کی کئی جہتیں ہیں جنھیں وہ دونوں نہیں سنبھال سکیں گے۔ اسٹیو جابز کے مشورے پر ہارورڈ یونیورسٹی میں اس کے شاگرد مارک زکربرگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنایا جسے آج ہم فیس بک کے نام سے جانتے ہیں۔
اسی دوران ٹیسلا کے مالک ایلون مسک کو اعتماد میں لیا گیا کیونکہ وہ خلائی منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا تھا۔ اسٹیو جابز نے تجویز پیش کی کہ وہ زمین کے مدار میں درجنوں سیٹلائٹس بھیجے جو دنیا کے ہر خطے میں تیز رفتار انٹرنیٹ ممکن بنائیں۔ اگر آپ سیٹلائٹس کے اس منصوبے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو گوگل کرکے چیک کرسکتے ہیں کیونکہ برسوں پرانا وہ منصوبہ ان دنوں تکمیل کے قریب ہے۔ کئی ملکوں میں لوگ بتارہے ہیں کہ انھوں نے رات کو آسمان پر بہت سے ستارے ایک قطار میں دیکھے ہیں۔ یہ ستارے نہیں بلکہ ایلون مسک کے سیٹلائٹس ہیں۔
اسٹیو جابز نے اس منصوبے کا کوڈ نام ٹوئنٹی ٹوئنٹی رکھا تھا۔ کبھی آپ آنکھوں کے ڈاکٹر سے پوچھیں کہ بالکل ٹھیک نظر کا نمبر کیا ہوتا ہے۔ وہ بتائے گا، ٹوئنٹی ٹوئنٹی۔ یعنی بیس فٹ کی شے کو بالکل ٹھیک دیکھ لینا۔ اسٹیو جابز کے منصوبے کا کوڈ نام لیک ہوا تو لوگ سمجھے کہ اس کا مطلب مستقبل کے وژن سے ہوگا۔ درحقیقت اس کا مطلب یہ تھا کہ منصوبے پر سنہ 2020 میں عمل کیا جائے گا۔
مسئلہ یہ ہوا کہ اسٹیو جابز کو کینسر لاحق ہوگیا اور وہ منصوبے پر عمل سے 9 سال پہلے 2011 میں انتقال کرگیا۔ اس کے بعد بل گیٹس نے منصوبہ جاری رکھنے کے لیے امیزون کے بانی جیف بیزوس کو ساتھ ملالیا۔
آپ غور کریں کہ اس عظیم منصوبے میں شامل تمام افراد ارب پتی ہیں۔ ان کی مجموعی دولت کئی سو ارب ڈالر بنتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جب سے کرونا وائرس کا بحران شروع ہوا ہے، ان کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں سچائی جاننے کے لیے ایک بار پھر آپ گوگل کرسکتے ہیں۔
یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اس عظیم منصوبے کے لیے کرونا وائرس ایک لیبارٹری میں بنایا گیا۔ جو بات عام لوگوں کو معلوم نہیں، وہ یہ ہے کہ اس لیبارٹری کا نام فائیو گریٹس ہے۔ فائیو گریٹس یعنی ٹیکنالوجی کی دنیا کے پانچ بڑے: اسٹیو جابز، بل گیٹس، مارک زکربرگ، ایلون مسک اور جیف بیزوس۔
کمپیوٹر کے لوگ جانتے ہیں کہ وائرس کیسے بنتے ہیں، کیسے منتقل ہوتے ہیں، کیسے سسٹم کو ناکارہ کرتے ہیں، اینٹی وائرس یعنی ان کی ویکسین کیسے بنتی ہے اور وائرس کا شکار ہونے والے کو کیسے اشاروں پر نچاتے ہیں۔
عظیم منصوبے کے تحت پوری دنیا میں کمپیوٹر اور موبائل فون گھر گھر پہنچادیا گیا، انٹرنیٹ تک رسائی ممکن بنائی گئی، سیٹلاٹس خلا میں چھوڑے گئے، کرونا وائرس بنایا گیا لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس وائرس کو دنیا کے ہر کونے میں کیسے پہنچایا جائے۔
اس غرض سے جو ٹیکنالوجی بنائی گئی، اس کا نام رکھا گیا فائیو جی۔ ناسمجھ لوگ اسے ففتھ جنریشن سمجھتے ہیں جبکہ اصل میں یہ فائیو گریٹس یعنی فائیو جی لیبارٹری کی ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں خاص طرح کے سگنل سیٹلائٹس سے موبائل فون کے ٹاورز کو بھیجے جاتے ہیں۔ پھر یہ موبائل ٹاورز اپنے علاقے میں وائرس پھیلا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ زد میں آجاتے ہیں اور کچھ بچ بھی جاتے ہیں۔
یہ بات آپ نے سنی ہوگی کہ کوئی شخص کرونا وائرس کے کسی مریض سے ملا نہیں لیکن پھر بھی وہ اور اس کے اہلخانہ بیمار ہوگئے۔ ایسے لوگ قسمیں کھاتے ہیں لیکن کوئی یقین نہیں کرتا۔ وہ لوگ سچ کہتے ہیں کیونکہ کرونا وائرس لگنے کے لیے کسی مریض سے رابطہ ضروری نہیں۔ یہ تو موبائل فون کے ٹاور سے آپ تک پہنچ رہا ہے۔
ایلون مسک نے حال میں دو امریکی خلابازوں کو اپنے راکٹ کے ذریعے خلائی اسٹیشن میں پہنچایا ہے۔ آپ نے ٹی وی پر ان کے راکٹ کی روانگی کا منظر دیکھا ہوگا۔ کیا آپ نے سوچا کہ دنیا میں بحران چل رہا ہے اور خلاباز راکٹ میں جارہے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
وجہ یہ ہے کہ خلاباز راکٹ بھر کے کرونا وائرس اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ سیٹلائٹس ان کے خلائی اسٹیشن کے قریب سے گزرتے ہیں تو وہ ان میں فیول کی طرح وائرس بھر دیتے ہیں تاکہ وہ اسے دنیا میں تیزی سے پھیلاسکیں۔ اس سال کے آخر تک پوری دنیا فلم میٹرکس کی طرح فائیو جی کے سوپر کمپیوٹرز کی غلام ہوچکی ہوگی اور کوئی کینو ریوز دنیا کو بچانے نہیں آئے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ