نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گھر گھر کرونا، ذمہ دار کون؟ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک سے زیادہ موقع پر وزیراعظم کو مخاطب ہو کر کہا کہ یہ نہ تو لڑائی کا وقت ہے اور نہ سیاست کا

‏آج جب پاکستان میں کرونا مکمل طور پر اپنے پنجے گاڑ چکا ہے اور بائیس کروڑ عوام کرونا کے رحم و کرم پر ہیں اس بات کا تعین کرنا نہایت ضروری ہے کہ کہاں کہاں فاش غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور کون اس کا ذمہ دار ہے۔
‏پاکستان میں تادم تحریر کرونا کے مریضوں کی تعداد سوا لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ صرف وہ تعداد ہے جو کہ سرکاری نمبر ہے۔ پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ایک سٹڈی کے مطابق یہ تعداد اب لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں تک پہنچ چکی ہے اور شائد اب کوئی خوش قسمت گھرانہ ہی اس مرض سے بچا ہو۔
‏کرونا کے خلاف لڑنے والے ممالک میں پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ کرونا سے لڑنے والے ناکام ترین ممالک میں پاکستان اس وقت 148 ویں نمبر پر کھڑا ہے جبکہ ہمسایہ ملک بھارت اس فہرست میں 56ویں نمبر پر ہے۔ اوائل مارچ میں جب پاکستان میں کرونا کا آغاز ہوا تو سندھ حکومت نے نہایت تیز رفتاری سے اقدامات کرنے شروع کئے جن میں قرنطینہ سنٹرز کا قیام، فیلڈ ہسپتالوں کا قیام اور موجودہ ہسپتالوں میں کرونا کے لئے بیڈز مختص کرنا، سکول بند کرنا اور پھر لاک ڈاؤن جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس وقت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ٹیم نے سندھ کے ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے بعد رپورٹ جاری کی کہ پاکستان کے کرونا کے خلاف انتطامات نہ صرف بہترین ہیں بلکہ دوسرے ملکوں کے لئے بھی باعث تقلید ہیں۔ سندھ حکومت کے ان انتطامات کو بعد میں دوسرے صوبوں نے بھی فالو کر لیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے کی جانے والی تعریف اور اس کے بعد پاکستانی میڈیا میں سندھ حکومت کی کارکردگی کی ستائش ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ وفاقی حکومت بجائے فیڈریشن کی ایک اکائی کے اچھے کام کی تعریف کرتی اور اسے پوری سپورٹ فراہم کرتی، وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو اپنا حریف سمجھ کر سیاست کھیلنی شروع کر دی۔ وفاقی وزرا اور درجن بھر ترجمانوں کی سندھ حکومت پر ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ وزیراعلی سندھ کی ایک ایک پریس کانفرنس کے جواب میں دس دس پریس کانفرنسیں کی جانے لگیں۔ ان پریس کانفرنسوں میں ایک دفعہ بھی کرونا کا نام نہ لیا جاتا بلکہ سارا زور پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے خلاف بے بنیاد الزامات اور جھوٹے پروپگنڈے پر لگایا جاتا رہا۔
‏اس کے جواب میں چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک سے زیادہ موقع پر وزیراعظم کو مخاطب ہو کر کہا کہ یہ نہ تو لڑائی کا وقت ہے اور نہ سیاست کا۔ آگے بڑھو بطور وزیراعظم پورے ملک کی قیادت کرو ہم تمہارا ساتھ دیں گے تمہاری قیادتِ میں چلیں گے۔ وزیراعلی سندھ نے تو ایک موقع پر ہاتھ بھی جوڑ دئیے کہ خدارا ہمیں کام کرنے دو سیاست نہ کرو لیکن وفاقی حکومت اور وزیراعظم اس نہایت اہم موقع پر اپنی جھوٹی انا اور نفرت کے خول سے باہر نہ آ سکے اور کرونا کے خلاف قومی یک جہتی پیدا کرنے کا ایک نادر موقع ضائع کر دیا۔
‏زیادہ تفصیل میں جائے بغیر اگر شروع سے لے کر اب تک وفاقی حکومت کے چند اقدامات کا تذکرہ ہی کر لیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ کیسے یہ اقدامات پاکستان میں کرونا کے پھیلاؤ کا باعث بن گئے۰ سب سے پہلے تو تفتان بارڈر پر ناکافی سہولیات، پھر بغیر سکریننگ کے وزیراعظم کے مشیر زلفی بخآری کا زائرین کو تفتان قرنطینہ سنٹر سے لے جانا، ایئرپورٹس پر سکریننگ کا انتظام نہ ہونا، باہر کے ملکوں سے آنے والوں کو قرنطینہ نہ کرنا، رائے ونڈ اجتماع کی اجازت دینا، بینظیر انکم سپورٹ کی رقوم کی بنک اکاؤنٹ کی بجائے ہجوم کی صورت میں کیش میں ادائیگی اور پھر سب سے بڑھ کر لاک ڈاؤن کو اہمیت نہ دینا اور وفاقی وزرا اور وفاق کے نمائندوں کی طرف سے لاک ڈاؤن کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں اور آخر میں عید سے پہلے لاک ڈاؤن کا مکمل خاتمہ، وزیراعظم کی جانب سے مسلسل کنفیوزن پھیلانے والے خطابات جن میں پہلے کہا گیا کہ کرونا صرف عام سا فلو ہے جس سے صرف بوڑھے لوگ متاثر ہوتے ہیں۰ یہ سب ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے کرونا کے پھیلاؤ میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا۔
‏آج صورتحال یہ ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سخت ترین لاک ڈاؤن کا مشورہ دے چکی ہے جبکہ اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ نہ صرف پاکستان سے انٹرنیشنل ٹریولنگ پر پابندی لگا دی جائے بلکہ ہماری ایکسپورٹس بھی اس پابندی کی زد میں آ سکتی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں ایک بار پھر مکمل اور سخت لاک ڈاؤن کے بارے سوچنا شروع کر چکی ہیں لیکن ایک دفعہ پھر وزیراعظم یکسوئی سے محروم اور نیم دلی کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور کوئی بھی بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آ رہے ہیں۔
‏ان نہایت مشکل حالات میں جب پاکستان بدترین طور پر کرونا کے شکنجے میں پھنس چکا ہے اور ہماری معاشی صورتحال تاریخ کے سب سے نچلے مقام پر کھڑی ہے ہمارا ملک قیادت کے بحران سےبھی دوچار نظر آتا ہے۔ وزیراعظم اپنی جھوٹی انا، ہٹ دھرمی اور نفرت کے خول سے باہر آنے کے لئے تیار ہے اور نہ وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالنے پر تیار نظر آتا ہے۔ مشکل حالات کسی بھی لیڈر کا اصل امتحان ہوتے ہیں جن میں اس کی لیڈرشپ کا پتہ چلتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ وزیراعظم اس امتحان میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۰ کرونا کے باعث ملک اور قوم جس بڑے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں ان حالات میں بات وفاقی حکومت کی نااہلیت، نالائقی اور ہٹ دھرمی سے آگے نکل کر مجرمانہ غفلت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور تاریخ میں موجودہ حکومت کا نام نااہل حکومت کے طور پر نہیں بلکہ مجرم حکومت کے طور پر لکھا جائے لکھا جائے گا۔

About The Author