چودھری شجاعت حسین صاحب کی سوچ سے آپ کو ہزاروں اختلافات ہوسکتے ہیں۔ ایک بات مگر طے ہے اور وہ یہ کہ موصوف ہمارے بہت ہی تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ اقتدار کے کھیل کو جبلی طورپر سمجھتے ہیں۔بھولے دکھائی دیتے ہیں مگر ہیں نہیں۔ ذاتی تعلق میرا ان سے بہت پرانا اور قریبی ہے۔ تنہائی میں کئی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران سنجیدہ ترین موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے وہ بسااوقات بے ساختگی میں ایسا فقرہ ادا کردیتے جو ان کی یادداشت اور قوت مشاہدہ کو حیران کن انداز میں عیاں کردیتا۔
آج سے چند ہفتے قبل چودھری صاحب سے ایک بیان منسوب ہوا تھا۔ اس بیان کے مطابق انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر ملکی حالات موجودہ ڈگر پر چلتے رہے تو چھ مہینوں بعد کوئی (سیانا) سیاست دان وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوگا۔ میرے صحافی دوستوں کی اکثریت نے مذکورہ بیان کو یاوہ گوئی شمار کیا۔ سیاست دانوں کے دلوں میں ہمہ وقت موجزن خواہش اقتدار پر انہیں کامل بھروسہ تھا۔ میں نے چودھری صاحب سے منسوب بیان کو البتہ بہت سنجیدگی سے لیا۔
بدھ کے روز اپوزیشن کے سرکردہ رہ نمائوں نے عمران حکومت کے نمائندوں کے ساتھ جس سرعت سے آئندہ بجٹ کی منظوری کا طریقہ کار طے کیا اس نے میرے رویے کو درست ثابت کردیا۔ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہونے سے قبل عمران حکومت کے حامی اور مخالف صحافی یکسو ہوکر اس امکان کو اجاگر کررہے تھے کہ آئندہ بجٹ منظور کروانا اس حکومت کے لئے ناممکن نہ سہی تو انتہائی مشکل ضرور ہوجائے گا۔ حکومت کے لئے ممکنہ مشکلات کا اصل سبب ’’شوگرمافیا‘‘ کو ٹھہرایا جارہا تھا۔ قومی اسمبلی میں اس ’’مافیا‘‘ کے عزیزوں اور قریبی دوستوں کی ایک مؤثر تعداد موجود ہے۔ باور کیا جارہا تھا کہ یہ لوگ ’’شوگرمافیا‘‘ کے خلاف حکومتی ایماء پر اچھالے ’’گند‘‘ سے بہت ناراض ہوئے ہیں۔ وہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ چینی پیدا کرنے اور اسے بازار میں لانے والوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے عمران خان صاحب نے ’’بے مروتی‘‘ دکھائی۔ خود کو غریبوں کا ہمدرد اور کرپشن کا دشمن دکھانے کے لئے جہانگیر ترین جیسے دوستوں کو رسوا کردیا۔ اپنی ہی کابینہ میں موجود چند وزراء کو ’’بدنام‘‘ کرنے کے علاوہ گجرات کے چودھریوں کو شوگر سکینڈل میں ’’گھسیٹ کر‘‘ ناراض کیا۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے اہم ترین رہنما بھی چینی کے دھندے سے وابستہ ہیں۔ اس دھندے سے جڑے تمام سیاستدان اپنے بے تحاشہ وسائل اور تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے عمران حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو ناکام بناسکتے تھے۔
اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے کئی ساتھیوں نے تواتر سے یہ دعویٰ بھی شروع کردیا کہ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہونے سے چند ہی روز قبل شہباز شریف کے خلاف نیب کا متحرک ہونا اور سندھ کے وزیر اعلیٰ کو چند سوالات کے جواب کے لئے طلب کرنا درحقیقت اس امر کی نشاند ہی کررہا ہے کہ اپوزیشن کو ’’بندے کا پتر‘‘ بنانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔
میرا جھکی ذہن یہ ماننے کو ایک لمحے کے لئے بھی تیار نہیں ہوا کہ ’’شوگرمافیا‘‘ کو حقیقی معنوں میں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں دل وجان سے ارادہ باندھ لیا ہوتا تو ’’شوگرمافیا‘‘ کے طاقت ور ترین سرغنہ کے طورپر ’’بدنام‘‘ کئے جہانگیر ترین راولپنڈی کے نور خان ایئربیس سے ایک چارٹر پرواز کے ذریعے اپنے فرزند سمیت لندن روانہ نہ ہوتے۔
جہانگیر ترین لندن پرواز کرگئے تو ہمارے کئی متحرک رپورٹروں نے جو عمرا ن حکومت کے قریب تصور ہوتے ہیں یہ کہانی پھیلائی کہ موصوف کو ’’فرار‘‘ کروانے میں وزیر شہری ہوابازی جناب غلام سرور خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان دونوں کی ’’پشت پناہی‘‘ کے بغیر جہانگیرترین نور خان ایئربیس سے پرواز نہ کرپاتے۔ یہ تاثر بھی پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ مذکورہ ایئربیس پرامیگریشن والے موجود نہیں ہوتے۔ یہ محکمہ ایف آئی اے کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا کہ اگر جہانگیر ترین بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پرواز کرنا چاہتے تو ایف آئی اے والے انہیں شاید پرواز کی اجازت نہ دیتے۔
میں یہ کہانی سن کر دل ہی دل میں مسکراتا رہا۔ کئی ماہ پہلے کا ایک واقعہ یاد آگیا جب عمران خان صاحب کے ایک قریبی دوست اور مشیر جناب زلفی بخاری نور خان ایئربیس سے ہی غیر ملک پرواز کرنا چاہ رہے تھے۔ ان دنوں وہ نیب کو ’’مطلوب‘‘ تھے۔ ایف آئی اے والوں نے انہیں روک لیا۔ تقریباََ دو گھنٹوں تک پھیلی تگ ودو کے بعد انہیں پرواز کی اجازت ملی۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سویلین کو پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ سے بیرون ملک پرواز کرنے سے قبل اپنے پاسپورٹ پر ایف آئی اے والوں سے Exit کی مہر لگوانا ہوتی ہے۔ اس مہر کے بغیر آپ جس ملک کے ایئرپورٹ پر اُتریں گے وہاں کی امیگریشن والے آپ کو Enterکی اجازت نہیں دیں گے۔
روانی میں اصل موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔ اطلاع اس کالم کے ذریعے آپ کو یہ فراہم کرناتھی کہ عمران حکومت آئندہ سال کے بجٹ کو بآسانی منظور کروالے گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس کی سرعت سے منظوری کا طریقہ کار بدھ کے روز طے کردیا ہے۔
بجٹ منظوری کے عمل میں اہم ترین ایام وہ دو یا تین روز تک پھیلے اجلاس ہوتے ہیں جہاں مختلف وزارتوں اور محکموں کے لئے مختص رقوم کی شق وار منظوری لی جاتی ہے۔ حکومت کے پیش کردہ بجٹ کو یکسرمسترد کرنے کے بجائے اپوزیشن یہ کوشش کرتی ہے کہ جب مختلف محکموں کے لئے مختص رقوم کی منظوری کا مرحلہ آئے تو Cut Motion کے ذریعے مطلوبہ منظوری کو روکا جائے۔ فرض کیا ایک وزارت کے لئے مثال کے طورپر 20کرو ڑروپے مختص ہوتے ہیں تو Cut Motionکے ذریعے اپوزیشن مذکورہ وزارت کی کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ان کی تقاریر کے بعد پیش ہوئے Cut Motionکو منظور یا نامنظور کیا جاتا ہے۔ عمومی طورپر Voice Voteیعنی بلند آواز میں کہی ’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ کے ذریعے Cut Motionکا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اپوزیشن اگر یہ محسوس کرے کہ حکومتی بنچوں پر ’’اکثریت‘‘ موجود نہیں تو وہ گنتی کا تقاضہ کرتی ہے۔ اپنی ’’اکثریت‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی وزراء کو لہذا بجٹ منظوری کے آخری تین دن ہمہ وقت متحرک رہنا ہوتا ہے۔
ان کے بارے میں لیکن گنتی کے ذریعے ہوئی رائے شماری پر اصرار نہیں کرے گی۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار کوئی حکومت بجٹ منظوری کے دوران اپنی ’’اکثریت‘‘ کو پارلیمان میں ہمہ وقت موجود دکھانے کو مجبور نہیں ہوگی۔
حکومت کو یہ ’’تاریخی‘‘ رعایت مہیا کرنے کے لئے کرونا کو بہانہ بنایا گیا ہے۔ ’’سماجی دوری کا احترام‘‘ مگر ایک بہانہ ہے۔ دُنیا بھر کی پارلیمانوں کی ’’ماں‘‘ تصور ہوتی برطانوی پارلیمان بھی کرونا کے موسم میں سماجی دوری کا بھرپور احترام کررہی ہے۔اپنے اجلاس چلانے کے لئے اس نے Hybrid طریقہ کار اپنا رکھا ہے۔ اراکین کی ایک مخصوص تعداد ایوان میں جسمانی طورپر موجود ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت مگر اپنے گھروں میں محصور ہوئے اراکین بھی اجلاس میں ’’شریک‘‘ ہوتے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے مراحل کے دوران ہماری اپوزیشن بھی برطانوی پارلیمان کے اپنائے طریقہ کار پر اصرار کرتے ہوئے Real Time اور Virtual کے ملاپ کے ذریعے چند Cut Motions پر ہر صورت رائے شماری کو اصرار کرسکتی تھی۔ ایسا ہوجاتا تو حکومت کو ’’گنتی‘‘ پوری کرنے کے لئے سو جتن کرنا پڑتے۔ اپوزیشن نے مگر تردد ہی نہیں کیا۔
میرے نوجوان ساتھیوں کا اصرار ہے کہ ’’نیب کے خوف سے ‘‘ اپوزیشن عمران حکومت سے ’’تاریخی ‘‘ تعاون کو تیار ہوئی ہے۔ذاتی طورپر میں اس خیال سے متفق نہیں۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ا پوزیشن عمران حکومت کے بجٹ کو ناکام بنانے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ یہ بجٹ ’’گنتی‘‘ کے ذریعے ناکام ہوجائے تو ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ لانا ہوگی۔ اس تبدیلی کے امکانات اپنی جگہ روشن ہیں۔ موجودہ حالات میں لیکن کوئی ایک سیاست دان بھی عمران خان صاحب کی جگہ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کو تیا ر نہیں ہے۔ چودھری شجاعت حسین صاحب کی بے ساختگی میں کہی بات یقینا درست ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر