نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پتلون۔۔۔ قسور سعید

کھڑے ہو کر پیشاپ کرنا جو کہ ہم شاہ رخ، سلمان کی فلموں سے ایک عرصے سے سیکھ رہے تھے.....ہم نے سوچا شاید پتلون کے ساتھ فرض ہے...

اپریل 2004 کا واقعہ ہے جب تونسہ شریف کے شمال مشرق میں واقع بوائز ڈگری کالج جو اس وقت ڈھینگری کالج کہلایا جاتا تھا میں شاندار کرکٹ ٹورنامنٹ جاری تھا…..اس وقت تک تونسہ شریف میں پتلون کا رواج بلکل بھی نہیں تھا….ہمارے ایک کزن انعام بھائی لاہور پڑھتے تھے انہوں نے اپنی کچھ پرانی جینز اور شرٹس ہمیں گفٹ دیں تھیں. وہ تھوڑی کھلی جینز ہم چوری چوری پہن کے کالج کے گرائونڈ چلے آئے….پھر جو حال ہمارا ہوا وہ ٹھیک دس سال بعد بیان کرنے کی جسارت کر رہے ہیں……

کالج اور حکومتی اناج کا گدام ساتھ ساتھ ہیں…گدام کی حفاظت کیلئے چوکیداروں نے چھ سات نسلی کتے پال رکھے ہیں.جھری دار شرٹ اور کالے کلر کی پتلون پہن کے جب ہم گدام کے ساتھ پہنچے تو دو کتوں نے جرات کر کے ہمیں دیکھا مگر پھر وہ بھی چیختے ہوئے واپس بھاگ گئے…ہم ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ کمینے کتوں کو ڈرا کے کمال کر دیا کہ اسی اثنا میں ساتوں کتے ہماری طرف لپکے…ہماری فلک شگاف چیخیں سنتے ہی سارے کتے اتنی ہی رفتار سے واپس پلٹے…چوکیدار دور سے دوڑتا ہوا آیا اور اس نے حیرت اور ڈر کی ملی جلی کیفیت والی نظروں سے پہلے کتوں کو دیکھا جو دم ہلاتے ہوئے بھونک رہے تھے اور پھر سر سے پائوں ہمیں دیکھا.

کہنے لگا "اوئے پینٹو صاحب کتے آپ کو "بلا” سمجھ رہے ہیں جلدی یہاں سے پھٹ جا””…..

اللہ اللہ کر کے کالج گیٹ انٹر ہوئے ادھر وہوا اور تونسہ کا فائنل میچ تھا اور گرائونڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا…تونسہ کی جانب سے میں فاسٹ بولر تھا…میرے بائولنگ کراتے وقت سٹارٹ لینے پر لوگ تالیاں بجاتے تھے اور جب میں بال چھوڑنے لگتا تو سارا سٹیڈیم ہنسنے لگتا تھا….مجھے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی..اوو کے بعد بائونڈری لائن پہ ایک تماشائی نے یہ بتاتے ہوئے راز افشاں کیے کہ بائولنگ کے دوران آخری لمحے بال چھوڑتے وقت شرٹ اٹھنے کی وجہ سے آپکے راز افشاں ہوتے رہے تھے……

عصر کی نماز پڑھ کے مسجد آ گئے تو امام صاحب سب نمازیوں کے سامنے کہنے لگے” دیکھو ادھر بھی اس نے ننگے دھڑنگے کپڑے پہننا شروع کر دیے ہیں….او بھائی ان کپڑوں سے نماز ہی نہیں ہوتی..گھر جا کے کپڑے بدل کے قضا پڑھ لو.” سارے نمازی اتنی حقارت سے دیکھنے لگے جیسے ہم چھوٹو گینگ کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے رہے ہوں……

یہ ہمارے ایم بی بی ایس میں داخلے کا پہلا سال تھا…راستے میں کئی قسم کے لوگ ملے ..کچھ نے پینٹ شرٹ کو پھٹ شرٹ کہا تو کسی نے کہا ” ڈاکٹر صاحب آج کل بہت بڑے آدمی بن گئے ہو”…

اصل میں کوئی بھی پتلون کے استعمال سے واقف نہ تھا کوئی کہتا تھا پتلون اونچی کرلو تو اگلی گلی میں کوئی کہتا یار اتنی اونچی باندھ لی ہے تھوڑا نیچے کرلو.کیا کرتے ہماری پتلون کا پہلا دن تھا ہر ایک کی مان کے چل رہے تھے..پتلون بھی کھلی تھی اور اوپر سے لوگوں کو فالو کرتے کرتے اور کھلی ہو گئی تھی…. کبھی ناف سے اوپر چلی جاتی تھی اور اگلی گلی میں تشریف سے بھی نیچے!!

تعمیر نو اکیڈمی ایف ایس سی کے طلبا کی واحد بہترین اکیڈمی مانی جاتی ہے. گھر سے نکلتے ہی ہم نے طلبا کے سامنے اپنی پتلون کی نمائش دکھانے کیلیئے اسی کا رخ کیا…راستے میں طالبات کے اک حسین جمگھٹے کو دیکھ کر ہمیں فورا”احساس ہوا کہ پتلون واقعی ایک ننگا لباس ہے… یا اس میں کسی چیز کی کمی رہ گئ ہے.گو کہ پتلون مکمل تھی مگر جوانی کے حساب سے ہمارے پتلونی لوازمات ادھورے تھے….. اسی گوں نا گوں لاچارگی میں ہم تعمیر نو کے راستے سے ہی واپس آ گئے…

کھڑے ہو کر پیشاپ کرنا جو کہ ہم شاہ رخ، سلمان کی فلموں سے ایک عرصے سے سیکھ رہے تھے…..ہم نے سوچا شاید پتلون کے ساتھ فرض ہے…

چنانچہ ایک پرائویٹ جگہ پہ ہم نے بھی ٹرائی کرنا چاہا…اس کے بعد جو حالت ہماری پتلون کی ہوئی وہ ہم سے بھی بری تھی…!

مغرب کے بعد راستے میں ایک ستر سالہ بابا جی ملے….ہمیں رک کر سلام کیا !گالوں پہ چٹکی کاٹی اور بڑے پیار سے کہنے لگے.

”ابے چکنے لڈو تجھ میں اتنی جرات ہے کہ تونسہ میں پتلون پہنی ہے اور ابھی تک سلامت ہے، ہاتھوں کی شرارتی جنبش کے بعد بولے "”ھے ھے جوانی!! ”

اس دن کے بعد پتلون پہننے کا سوچتے ہی ہماری سٹی گم ہو جاتی اور ہم دو دو ناڑے پہنے بابا جی کو گالیاں دیتے ہوئے مغرب سے پہلے پہلے ہی گھر لوٹ جاتے ہیں!!!!!!!!

About The Author