کیا آپ جانتے ہیں کہ پالتو کتا دو سال کے بچے جتنی سمجھ رکھتا ہے اور ڈیڑھ سو الفاظ یاد رکھ سکتا ہے۔ اس لیے وہ بار بار استعمال کی جانے والی ہدایات سمجھ جاتا ہے۔ بلی بھی چھوٹے بچے جیسی سمجھ رکھتی ہے۔ یہ جانور ویسی ہی حرکتیں، شرارتیں اور غلطیاں کرتے ہیں جیسے چھوٹے بچے کرتے ہیں۔ انھیں ویسے ہی سمجھایا جاسکتا ہے جیسے ننھے بچوں کو سمجھایا جاتا ہے۔
عوام بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔
کوئی شخص ذہین ہوتا ہے، کوئی اوسط درجے کا، کوئی کم سمجھ۔ لیکن جب ایک ساتھ پورے ملک کے عوام کو بات سمجھانی پڑے تو ویسا رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے جیسا ایک ماں اپنے بچے کے ساتھ اپناتی ہے۔
حضرت موسیٰ نبی تھے لیکن جب بچے تھے تو ناسمجھی میں جلتا ہوا کوئلہ اٹھاکر منہ میں رکھ لیا تھا۔
اچھی ریاست اور اچھی حکومت سمجھ دار ماں کی طرح ہوتی ہے۔ ماں ہر وقت بچے کا خیال رکھتی ہے۔ اسے جھولے میں سلاتی ہے۔ اچھے کپڑے پہناتی ہے۔ اچھی غذا دیتی ہے۔ بہترین تعلیم فراہم کرتی ہے۔ طبیعت خراب ہوجائے تو اچھے سے اچھا علاج کراتی ہے۔
بچہ ناسمجھی میں خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو اسے روکتی ہے۔ بچہ ضد کرے تو اسے ڈانٹتی بھی ہے۔
کوئی ماں اپنے بچے کو گرم کوئلہ اٹھاکر منہ جلانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
لیکن ہم دنیا کی ایک انوکھی ریاست دیکھ رہے ہیں جس کی حکومت عجیب مخلوق کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ریاست اپنے عوام کو تعلیم، چھت اور لباس تو دور کی بات، خوراک اور علاج فراہم نہیں کرسکتی۔
اس پر بھی صبر آجائے لیکن یہ عوام کی زندگیوں کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ یہ بھی نہ سہی لیکن یہ عوام کو درست مشورہ تک نہیں دے سکتی۔ موت کی آندھی چل رہی ہے لیکن یہ گھر کا دروازہ بند نہیں کرسکتی۔
کیا کوئی شخص اپنے دو تین سال کے بچے کو یہ الزام دے سکتا ہے کہ گلی میں پاگل کتا گھوم رہا تھا تو وہ ٹافی خریدنے کے لیے گھر سے کیوں نکلا؟
کوئی سمجھ دار سنے گا تو یہی کہے گا کہ بچہ تو ناسمجھ ہے۔ آپ کو کوئی عقل ہے یا نہیں؟ دروازہ کیوں کھلا چھوڑا؟ بچے کو کیوں باہر جانے دیا؟
ریاست کو ماں جیسا بنانا ہے تو آئندہ کسی بینظیر، کسی ملالہ، کسی جیسنڈرا آرڈن کو منتخب کرنا پڑے گا۔ احساس برتری کے مارے ہوئے ذہنی مریض کبھی عوام کا بھلا نہیں کرسکتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر