یہ ابھی گذشتہ رات کا قصہ ہے. فیصل ٹاون سینٹر پواینٹ فلیٹس پر کرایہ نامہ موجود نہ ہونے کے سنگین جرم میں فیصل ٹاون تھانے کی متوالی فورس کے جیالوں نے بعض انسپکٹروں کی سرفروشانہ قیادت میں حال ہی میں فلیٹوں کو بمشکل پلٹنے والے تعلیم اور روزگار کے متلاشیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ڈالوں اور ڈربوں میں قید کیا.
چشم دید گواہوں کے سامنے فورس میں سے ایک نے لاہور سے دور ایک سرایکی ضلع سے تعلق رکھنے والے قیدی کی رہای کا ڈرامہ رچایا ، دوسرے نے چاے پانی کے نام پر رشوت وصولی، تیسرے نے رشوت دینے کے الزام میث دوبارہ پکڑنے کا ناٹک کھیلا اور چوتھے نے ہتھکڑیاں لگا دیں.
اگرچہ مشور و معروف حدیث نبوی کے مطابق رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں، تاہم خدا نیتوں اور مجبوریوں کا حال بہتر جانتا ہوگا. مجبوروں کی لسٹ میں مختاروں کو شامل نہیں کیا جا سکتا لیکن اتنا ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے اس وفادار رشوت خور "کردوغلو” کو بھی گرفتار اور نظر بند کیا گیا یا یہ اعزاز بس غریب دے بال قیدی ہی کو حاصل ہوا جس کے بارے شاعر نے کہا تھا، کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے.
عینی شاہدوں کے مطابق پولیس فورس میں سے بیشتر نے ماسک پہننے کی زحمت تک گوارا نہ کی تھی. نہ اس بارے میں حکومت کی واضح یدایات کے باوصف کسی قیدی سے اس بارے میں پوچھا گیا.
جب دنیا کے کئی دوسرے ممالک کی طرح وطن عزیز میں کرونا مریضوں کی تعداد خطرناک حد کو چھو رہی ہو تو ایسے میں پولیس کی اس بیجا مستعدی اور نا وقت ہوشیاری پر کئی سوالیہ نشان لگتے ہیں.
یہ کیسے سرکاری ملازمین ہیں جو ایس او پیز کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوے نہ صرف قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں بلکہ پبلک کو موت کے منہ میں بھی دھکیل رہے ہیں؟ پبلک سیفٹی کے یہ کیسے جی دار پاسدار ہیں جو پلازوں اور فلیٹوں کے کروڑ پتی مالک مکان سے بات کرتے ہر ممکن رعایتی دفعات کا گھونگٹ نکال لیتے ہیں؟
یہ کیسے ڈھول سپاہی ہیں جو طالب علموں، مزدوروں اور دیہاڑی داروں کو ڈراتے دھمکاتے اک واری فیر شیر بن جاتے ہیں؟ اور تو اور عدلیہ یعنی متعلقہ مجسٹریٹ کو بھی اس طرح کے ٹوپی ڈراموں سے چونا لگانے سے (اور وہ لگوانے سے!) باز نہیں آتے؟
راقم الحروف ان عینی شاہدوں میں سے ایک ہونے کے باعث یہ ضروری سمجھتا ہے کہ مفاد-عامہ کے عین بر خلاف کی گئی ایسی نام نہاد، غیر قانونی اور ماوراے عدالت کاروائیوں کو انتظامیہ کی طرف سے تحفظ فراہم کرنے کی بجاے ان ڈھولوں کا پول کھولا جاے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ