وزیراعظم کہتے ہیں ”عوام کورونا پر سنجیدہ نہیں، ٹائیگرز ایس او پیز پر عمل کروائیں۔ اشرافیہ لاک ڈاؤن چاہتی ہے جس کا مطلب معیشت کی تباہی ہے” کورونا وباء سے 6جون کے دن ملک میں 100اموات ہوئیں۔ مریضوں کی تعداد 94ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ بجا کہ 32ہزار مریض صحت یاب ہوئے لیکن وباء کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر کے بقول غیرمحتاط لوگوں نے دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔
وزیراعظم اور وفاقی وزیر اسد عمر دونوں نے اپنے اس مؤقف کو دہرایا کہ ”کورونا کو روکنا ناممکن ہے
” ہفتہ کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک بار پھر وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، ان کا کہنا تھا کہ ”کورونا کے پھیلاؤ کی ذمہ داری وفاق پر ہے جس نے سنجیدہ اقدامات میں سندھ سے تعاون کرنے کی بجائے لوگوں کی زندگیوں پر معیشت ماڈل کو اہمیت دی”
کڑوا سچ یہ ہے کہ کورونا کے حوالے سے صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ ٹیسٹوں کا نظام ابھی تک مؤثر نہیں بنایا جاسکا۔
دوسری طرف وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اعتراف کیا کہ
”بدانتظامی کے باعث ڈاکٹروں اور طبی عملے کی بڑی تعداد کو حفاظتی سامان ابھی تک نہیں مل سکا”
انہیں بتانا چاہئے کہ بدانتظامی کا ذمہ دار کون ہے، صحت کی وفاقی وصوبائی وزارتیں یا این ڈی ایم اے جس کے بارے میں سوال پر ملک دشمن کی پھبتی کسی جاتی ہے۔
عوام کو زندگی تبدیل کرنے کے مشورے دینے والے یہ بھی تو بتائیں کہ زندگی کیسے تبدیل ہو۔
کیا جس قسم کی غیرسنجیدگی حکومتی زعما’ انتظامی حلقوں اور خود عوام میں کورونا کے حوالے سے دستیاب بلکہ وافر مقدار میں دستیاب ہے اس سے نجات کے بغیر زندگی کیسے تبدیل ہوگی۔
جب کہا جاتا تھا کہ مخمصے سے نکلیں اور دنیا کے حالات کو سمجھ کر فیصلے کریں تب غربت’ بے کسی اور بھوک کی باتیں کی گئیں، اب کیا غربت’ بے کسی اور بھوک ختم ہوگئے؟
ازبس ضروری تھا کہ ابتداء ہی میں سخت گیر لاک ڈاؤن ہوتا اور ڈاکٹرز ودیگر طبی عملے کو حفاظتی سامان فراہم کیا جاتا یہاں ہم اندرونی صورتحال کو نظرانداز کرکے حفاظتی سامان کا تحفہ امریکہ کو دینے چل پڑے۔
آگے بڑھنے سے قبل دو سوال بہت اہم ہیں،
اولاً یہ کہ حکومت (وفاقی حکومت) نے کورونا پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اپنا کیس سنجیدگی سے کیوں نہیں لڑا۔ ضمنی سوال یہ ہے کہ جب عدالت عظمیٰ کاروباری مراکز کو عیدالفطر کیلئے کھولنے کا حکم دے رہی تھی تو حکومت نے منطقی انداز میں عدالت کے سامنے دنیا، خطے اور خود ملک کی مجموعی صورتحال کیوں نہ رکھی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کورونا کے حوالے سے جو بیرونی مالی امداد ملی وہ کہاں اور کیسے خرچ ہوئی؟
وفاقی حکومت کے ذمہ داروں نے سپریم کورٹ میں بتایا تھا کہ ایک مریض پر ابتدائی طور پر ساڑھے 6لاکھ اور مجموعی طور پر 25لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ حساب کس بنیاد پر تھا؟
این ڈی ایم اے کی اب تک کی کارکردگی ناقص بلکہ ناقص اکبر رہی۔ بظاہر یہ ادارہ کسی کو جواب دہ نہیں یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کسی میں کبھی جرأت نہیں رہی ہے کہ وہ اس ادارے سے حساب مانگے۔
2006ء کے زلزلے سے اب تک اس ادارے کو فراہم کی گئی بیرونی امداد اور ملکی بجٹ سے رقوم کا حساب کیا ہے اور کارکردگی پر بھی ایک نہیں کئی سوالات ہیں۔
کورونا وباء کے آغاز سے اب تک اس ادارے کی کارکردگی جمع تفریق سے زیادہ نہیں۔
جو ادارہ ملک بھر میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو حفاظتی سامان ہی فراہم نہیں کرسکا وہ کیا تیر مار لے گا۔ زیادہ مناسب ہوگا کہ این ڈی ایم اے کی ضرورت فعالیت اور کارکردگی پر پارلیمنٹ کے رواں سیشن میں بات کی جائے، سینٹ اور قومی اسمبلی کی ایک مشترکہ کمیٹی جس میں حکومت اور اپوزیشن کے مساوی ارکان شامل ہوں این ڈی ایم اے کے ذمہ داران کو سامنے بٹھائے اور ان سے سوال وجواب کرے۔ جوابدہی کے بغیر معاملات کا آگے بڑھنا مزید سوالات کو جنم دے گا۔
کورونا وباء سے پیدا شدہ صورتحال کے ذمہ دار وہ سارے فیصلہ ساز ہیں جنہوں نے زمینی حقائق کو نظرانداز کیا۔ یقین کیجئے پاکستان جیسی صورتحال مہذب دنیا کے کسی ملک میں پیش آتی تو فیصلہ ساز سب سے پہلے احتساب کے کٹہرے میں کھڑے کئے جاتے،
دوسرے مرحلے میں وہ سارے نوٹنکی باز احتساب کا سامنا کرتے جنہوں نے ایک بدترین وباء کو سازش بنا کر پیش کیا۔
اس نوٹنکی باز کے پیروکاران ہمیں بتاتے ہیں کہ موصوف ایک نہیں بلکہ تین مضامین میں الگ الگ پی ایچ ڈی ہیں۔
اللہ رحم کرے ہم پر، بدقسمتی ہی ہے ہم نے پہلے دن سے وباء کو وباء نہیں سمجھا۔ پہلے کورونا زائرین کورونا کہلایا، پھر تبلیغی’ بعدازاں عمرہ کورونا، اس غلیظ پروپیگنڈے نے متحد کرنے کی بجائے مزید تقسیم کیا۔
اصولی طور پر کورونا پر فرقہ فرقہ کھیلنے والے نوٹنکیوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی۔
یہاں ہمیں گہرے دکھ کیساتھ عوام الناس کی بڑی تعداد کے سازشی مفروضوں پر یقین رکھنے اور کورونا کچھ نہیں کی منطق پر بھی رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
حکومت اور ادارے جتنے ذمہ دار ہیں صورتحال کے اتنے بلکہ اس سے زیادہ ذمہ دار ہم اور آپ بھی ہیں جنہوں نے سازشی تھیوریوں کو پر لگائے۔
غضب خدا کا یہاں یہ بھی کہا گیا کہ بل گیٹس اور اقوام متحدہ کورونا سے مرنے والوں کے 35سو ڈالر دیتے ہیں، ڈاکٹر ایک سازش کے تحت زہر کے ٹیکے لگا رہے ہیں۔
کیا بدقسمت لوگ ہیں ہم زندگی اور عصری سچائیوں پر یقین کرنے کی بجائے سازشی تھیوریوں پر ایمان لے آتے ہیں۔
ملک میں ایک طرف کورونا کا پھیلاؤ جاری ہے تو دوسری طرف مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، چلیں کورونا تو وباء ہے اس مصنوعی مہنگائی کیخلاف وقافی اور صوبائی حکومتوں نے کیا کیا؟
حرف آخر یہ ہے کہ جب تک عوام الناس سنجیدہ نہیں ہوتے معاملات بگڑتے رہیں گے۔
کورونا کیساتھ ہی زندہ رہنا ہے تو زندگی کے نئے ڈھنگ سیکھ لیجئے۔
حکومت کے فرائض بالکل ہیں لیکن عوام کا بھی کچھ فرض ہے بلکہ زیادہ فرائض عوام کے ہی ہیں۔
براہ کرم ٹوٹکے آزمانے اور تمسخر اُڑانے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیجئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر