ایک حقیقت ایک فسانہ ۔
دریائے سندھ کے بیٹ پَھتونگر سے تین لڑکے نکلے۔ ایک کے پاس پھونکے ہوے غبارے ایک لکڑی پر بندھے تھے ۔دوسرے کے پاس مٹی کے کھلونے اور تیسرے کے پاس کچھ کتابیں تھیں۔ یہ دیہاڑی کی تلاش میں دریا کے بند سے اوپر سڑک پر چڑھنے لگے تو ایک لڑکے کے پیر سے پتھر کو ٹھوکر لگی اور اچانک ایک جِن برآمد ھوا۔لڑکے جن کو دیکھکر دہل گئے اور واپس بیٹ کی طرف دوڑ لگا دی۔ جن اُن کے آگے کھڑا ھو گیا اور کہا ڈرو نہیں مجھے تم نے سو سال کی قید سے نکالا ھے میں تمھاری مدد کرتا ھوں اور تینوں کو ایک ایک ھزار کا نوٹ تھما دیا۔۔اب تو لڑکوں کے ہوش ٹھکانے آۓ اور خوش ھو گئیے ۔جن نے کہا میں تمھارے ساتھ مزدوری پر بھی چلونگا اور جھاں مدد کی ضرورت ھوگی مدد بھی کرونگا۔بس میں صرف تم کو نظر آونگا لوگ مجھے نہیں دیکھ سکیں گے۔
خیر اب یہ چاروں بند کی ایک بارونق جگہ پہنچ گئے جہاں لوگوں نے چاۓ۔آئس کریم۔فاسٹ فوڈ۔ دہی بھلے وغیرہ کے ڈھابے لگا رکھے تھے۔ غبارے بیچنے والا دینو ایک پنکچر لگانے والی دکان کے آگے کھڑا ھو گیا۔ پنکچر لگانے والا بڑی مونچوں والا موٹا شخص آیا اور دینو سے کہا نکالو دو سو روپے ورنہ بھاگو یہاں سے۔۔ دینو نے کہا یار میرے غبارے سارے دو سو روپے کے ہیں۔دس روپے لے لو اور کچھ بچے گا روٹی کھا لونگا۔ مُچھ ڈنڈے نے اسے لات ماری وہ نیچے گر گیا اور غبارے بھی پھٹ گئے۔وہ سڑک پر پڑا جن کو پکارنے لگا ۔جن نے اسے اٹھایا اور ساتھ بٹھا لیا ۔
ایک پیپسی کی بوتل کے پیسے دئیے اور کہا جا پیپسی پی آ اور واپس میرے ساتھ بیٹھ جا۔میں شام کو پنکچر والے کو بھسم کردونگا ۔ خیر وہ پیپسی پی کر جن کے ساتھ آکے بیٹھ گیا۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کمیٹی والا انسپکٹر آگیا۔اس نے ڈھابے والوں سے رشوت کے پیسے وصول کئے اور فٹ پاتھ پر بیٹھے کھلونے والے فضلے سے کہا نکال سو روپے ۔۔۔ فضلے نے کہا جناب سارے کھلونے پچاس کے ہیں سو کہاں سے دوں۔۔انسپکٹر نے کھلونوں پر لات ماری وہ سب ٹوٹ گئے اور دو تپھڑ فضلے کو مارے فضلا روتا ھوا جن کے پاس آیا جن نے کہا بیٹھ جاو پیپسی پیو ۔سب کو بھسم کر دونگا۔ شام تک کتابوں والے بیلے کی ایک کتاب نہ بکی وہ بھی جن کے پاس آگیا اور کتابیں نہ بکنے کی شکائیت کی۔ جن نے بیلے سے پوچھا یار یہاں لوگ پڑھے لکھے نہیں جو کتابیں خریدیں؟ بیلا زور سے ہنسنے لگا پھر دینو اور فضلے کو بلا لیا اور جن کے سوال کو دھرا کر خوب ہسنے لگے۔ پھر فضلے نے کہا میں خود بی اے پاس ھوں۔۔
جن بڑا حیران ھوا بی اے پاس مٹی کے کھلونے بیچتے ھو۔ فضلا پھر ہنسا اور دینو کو بلایا اور جن سے کہا یہ ایف اے پاس ھے اور بیلا دس پاس ھے۔۔۔جن نے حیرت سے پوچھا تم سکول اور کالج کس وقت جاتے ھو تم تو روڈ پر چیزیں بیچتے ھو۔لڑکوں نے کہا ہم کبھی سکول کالج نہیں گئے۔ یہ تو ہم اس لئیے کہتے ہیں کہ اگر فضلا سکول جاتا تو وہ آج بے اے پاس ھوتا۔ دینو کالج جاتا تو تو ایف اے پاس ھوتا اور اگر بیلا سکول جاتا تو دس پاس ھوتا۔ جن چکرا گیا ۔۔ فضلے نے کہا جن صاحب اس وقت ہمارے ملک کے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جارھے مگر سب کے پاس ڈگریاں ہیں وہ سیاستدان بن سکتے ہیں وہ سائنسدان۔پائلٹ۔صدر۔وزیراعظم۔وزیر اعلی۔ڈاکٹر سب کچھ بن سکتے ہیں ۔۔ جن صاحب اگر آپ پاکستان کے ملازمین کی ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ چیک کریں تو آدھی جعلی ہیں لوگ ایم این بن گئے وزیر بن گئے مگر ہیں ہماری طرح ان پڑھ۔ ہمارے لیڈروں اور سرکاریں ملازمین کو پڑھا لکھا کام نہیں کرنا ھوتا صرف رشوت لینا ھوتی ھے۔ وہ نوٹ بھی نہیں گن سکتے نوٹ گننے کے لئے انگلینڈ سے مشینیں منگوا لی جاتی ہیں۔
ہمارے ہسپتالوں میں کمپاونڈر اپریشن کرتے ہیں اور نائب قاصد پٹیاں لگاتے ہیں۔ہماری لیبارٹیوں کے ٹسٹ ان پڑھ لوگ کرتے ہیں ۔ہمارے قصائیوں کے پاس وٹرنری ڈاکٹروں کے مہریں ہیں جو وہ مردہ جانوروں پر لگا دیتے ہیں ۔ اور بیچتے ہیں۔ ہمارے شھر میں جعلی دودھ کے درجنوں ٹینکر دس ناکے کراس کر کے روزانہ آتے ہیں ۔ اور معصوم بچوں کو زہریلا دودھ پلاتے ہیں۔ہماری یونیورسٹیوں میں جعلی پروفیسر۔پیپر۔تھیسس اور ڈگریاں تیار ھوتی ہیں۔۔ہمارے شھر میں دن دھاڑے لوگ شھید کر دئے جاتے ہیں اور قاتل دستانے پہنے پھرتے ہیں۔کبھی گرفتار نہیں ھوتے چاھے سیکورٹی والوں کو مار ڈالیں سویلین تو مولی گاجر ہیں۔۔ جِن صاحب ان سب مجرموں کو بھسم کردو تاکہ ہماری بستی میں امن ھو۔ انصاف ھو۔ تعلیم ھو ۔روزگار ھو۔ چین ھو۔ سکون ھو۔۔۔
جن نے پوچھا تمھارے حکمران کیا کرتے ہیں؟؟؟ فضلے نے کہا وہ خود تو دنیا کے ارب پتی لوگوں میں شامل ہیں مگر ہم سے زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگواتے ہیں۔۔۔کُوڑے وعدے کرتے ہیں۔ایک نان اور ایک پلیٹ بریانی پر ڈانس کرواتے۔اسلام کے نفاذ کی خوشخبریاں سناتے ہیں ۔۔۔یا پھر کبھی ہمارے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔۔۔۔ جِن نے کہا یہ لو تینوں ایک ایک ھزار روپیہ آج کی دیھاڑی کا۔۔۔۔ میری جان چھوڑو۔۔تمھاری پھتو نگری ہماری پوری جنوں کی قوم بھی ٹھیک نہیں کر سکتی ۔۔۔تم صرف قیامت کا انتظار کرو ۔۔۔
تمھیں وہیں انصاف ملے گا تم ظالم قوم ھو ۔۔جِنوں کی قوم یہاں سےجا رہی ھے کہیں تم پر پتھروں کی بارش ھو اور بے گناہ جِن بھی مارے جائیں۔لڑکوں نے ھزار روپے کے نوٹ پکڑے اور جن سے کہا ہم زندہ قوم ہیں ہم پائیندہ قوم ہیں ہمارا قصور کیا ھے؟جن نے کہا تم رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ھو مگر اس رسولؐ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔ تم سے تو یورپ والے اچھے ہیں جو اس رسولؐ پر ایمان تو نہیں لاۓ مگر اس کی تمام تعلیمات پر عمل کر رھے ہیں۔تم گفتار کے غازی ھو کردار کے نہیں ۔یہ کہ کر جن غائب ھو گیا اور لڑکے واپس دو ھزار روپے کما کرواپس پھتو نگر لوٹ آۓ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ