اس حقیقت سے انکار ہر گز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ دور میں کسی بھی قوم کی سلامتی کا دارومدار اس کی دفاعی صلاحیتوں کی مضبوطی اور افواج کی طاقت پر انحصار کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافی کی خواہاں رہتی ہیں تاکہ ان کی عسکری اور عددی طاقت ان کو دوسری قوموں کے مقابلے میں برتری دلاسکے۔ اگر صرف سال 2019 کا تذکرہ کیا جائے تو اقوام عالم نے 2019 کا ریکارڈ 1.9 کھرب ڈالر کا بجٹ اپنی افواج اور دفاعی معاملات پر خرچ کیا ہے۔ یہ تخمینہ سیوڈن کے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس اینڈ ریسرچ نے اپنی تحقیق کے دوران لگایا ہے۔ اس تحقیق سے ایک پریشان کن امر انتہائی واضح ہوگیا ہے کہ اس فہرست میں بھارت کا شمار تیسرے نمبر آگیا ہے جس نے سال میں اپنے بجٹ میں 318931 مختص کیے۔ واضح رہے یہ رقم گذشتہ بجٹ سے آٹھ فیصد زیادہ تھی۔ جبکہ سال 2020-21 کے لیے بھارت نے اپنے دفاع کے لیے 47.108 ارب ڈالر مختص کیے ہیں۔ جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 ارب زیادہ ہے۔
بھارت کا جنگی جنون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے جب سے مودی سرکار نے بھارت کی باگ دوڑ سنبھالی ہے تب سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن تو بگڑ ا ہی ہے بلکہ خطے کا امن بھی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن ہو یا پھر آئے دن کنڑول لائن پر جنگ بندی کی شدید خلاف ورزی ہو پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔حالانکہ پاکستان کے ہاتھوں فروری 2019 میں بدترین فضائی شکست بھی پاکستان کے خلاف بھارت کو اس کے ناپاک ارادوں میں روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور بھارت کا جنگی جنون بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلینجز کی وجہ سے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں اور دفاعی بجٹ کا موازنہ بھارت سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ بھارت کا صرف دفاعی بجٹ ہی پاکستان کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے۔گلوبل پاور ویب سائٹ کے مطابق بھارت دنیا کی طاقتور ترین افواج میں چوتھے جبکہ پاکستان اس وقت 15 ویں نمبر پر ہے۔ تاہم حیران کن طور پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی عسکری طاقت کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی رہا ہے۔دوسری جانب اگر پاکستان کے دفاعی بجٹ کے بارے میں بات کی جائے تو یہ انتہائی حساس نوعیت کا موضوع ہے جس کے بارے میں کیونکہ زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں اور نہ ہی اس متعلق زیادہ بات کی جاتی ہے ہاں لیکن اس بارے میں افسانے زیادہ سنے جاتے ہیں جیسا کہ افواج پاکستان کا دفاعی بجٹ ملکی بجٹ کا 80 فیصد سے زیادہ ہوتا ہے۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے، نظر ڈالتے ہیں چند حقائق پر مبنی بجٹ نمبرز پر:
2017 2016- کے لیے اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت نے دفاعی بجٹ کے لیے 860 ارب روپے جبکہ -2017 2018 میں 920 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کیے تھے جبکہ سال 2019-2018 کے لیے 1100 کھرب مختص کیے گئے تھے۔ جبکہ اگر بھارت کے صرف کے صرف 2001 کے ہی بجٹ پر نظر ڈالی جائے تو وہ اس وقت بھی 53.5ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ بھارت کے مقابلے میں اتنے برسوں بعد بھی چھ سے سات گنا کم ہی ہے۔اس حساب سے پاکستان کا دفاعی بجٹ ملکی بجٹ کے بیس فیصد سے زائد نہیں بنتا۔ جبکہ پاکستان کو خطے میں جغرافیائی اہمیت حاصل ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو صرف بیرونی نہیں بلکہ اندرونی سیکورٹی چیلنجز کا بھی سامنا ہے جس کے لیے افواج پاکستان کا دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس ہونا ایک لازمی امر ہے۔اب بات کرتے ہیں دفاعی بجٹ 2019-2020 کی جس کے مطابق پاکستان کا عسکری بجٹ 1152ارب ہی برقرا رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان فوج نے سالانہ اضافہ نہ لینے کا فیصلہ جو کیا ہے وہ قوم پر احسان نہیں ہے۔ جبکہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بجٹ کٹوتی کو دفاعی صلاحیتوں اور جوانوں کے معیار زندگی پر اثر انداز ہوئے بغیر آنے والے مالی سال میں دیگر امور میں ایڈجسمنٹ سے پورا کیا جائیگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ تنخواہوں میں اضافہ نہ لینے کا فیصلہ بھی فوجی افسران کا ہے جوانوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔
اب نظر ڈالتے ہیں ان دنوں سوشل میڈیا پر طوفان کی طرح چھائی ایک خبر پر جو سال 2020-2021 کے مالیاتی بجٹ سے قبل افواج پاکستان کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے سے متعلق ہے۔ اس خبر پر تبصرے سے پہلے عالمی ادارے کی ایک ریسرچ رپورٹ پر نظر ڈال لیتے ہیں جس سے ایک حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے۔جس کے مطابق امریکہ اپنے ایک فوجی پر 4 لاکھ 26 ہزار ڈالر ہر سال خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت اپنے ایک فوجی پرہر سال 17554 ڈالر اس کے مقابلے میں پاکستان اپنے ایک فوجی پر 8077 ڈالر ہر سال خرچ کرتا ہے جو بھارت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی دیگر افواج کے مقابلے میں اپنی سپاہ پر سب سے کم خرچ کرنے والی فوج ہے جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ بجٹ کا 80 فیصد پاکستان افواج کے نام ہوتا ہے۔ اب خبر کی جانب واپس چلتے ہیں تفصیلات کے مطابق سال 2020-2021 کے مالیاتی بجٹ سے قبل افواج پاکستان کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کا خط وزارت دفاع کی جانب سے وزارت خزانہ کو بھیجا گیا ہے۔ اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا پ ہر جانب سے مباحشوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ اس خبر کی تفصیلات کی توثیق کے لیے جب راقم نے فنانس منسٹری سے رابطہ کیا تو ایک اہم عہدے دار نے نام نہ بتانے کی شر ط پر اس خبر پر تفصیل سے تبصرہ ہکرتے ہوئے بتایا ہے کہ فنانس منسٹری کو بجٹ کے لیے صرف وزارت دفاع سے ہی نہیں بلکہ ہر وزارت سے تنخواہوں کی مد میں اضافے کے لیے اب تک خط موصول ہوچکے ہیں۔ جبکہ ان کا مزید کہنا تھا کہ تنخواہوں میں اضافہ وفاقی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے جبکہ یہ فیصلہ وفاقی کابینہ کریگی جس کا اجلاس بجٹ سے چند گھنٹے پہلے ہوتا ہے اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزارت خزانہ سے موصول دو یا تین پرپوزل میں سے مناسب پرپوزل کو منظور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے چار سالوں میں سرکاری ملازمین بشمول فوج کے تنخواہوں میں اضافہ ایڈہاک کی بنیاد پر کیا گیا ہے تاہم ان کی بنیادی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ جبکہ 15فیصد ایڈہاک ریلیف تمام سرکاری ملازمین کے لیے زیر غور ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فروری سے سیکریٹریٹ کے ملازمین تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کررہے ہیں جس کی وجہ مہنگائی میں ہونے والا اضافہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ افواج پاکستان کی خواہش ہے کہ ان گزشتہ چار سالوں سے ایڈہاک بنیادوں پر کیا جانے والا تنخواہوں میں اضافہ ان کی بنیادی تنخواہ کا حصہ بناتے ہوئے بیس فیصد کا اضافہ دیا جائے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پرپوزل ہے جو وزارت دفاع سے فنانس منسٹری کو موصول ہوا ہے ابھی اس پر کوئی حتمی فیصلہ صرف اور صرف وفاقی کابینہ کا ہی اختیار ہے۔
اس سلسلے میں وزارت دفاع کے ذرائع نے افواج کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کے خط کو وزارت خزانہ بھیجنے کی توثیق کرتے ہوئے بتایا ہے کیونکہ پچھلے چار سالوں سے فوج کی بنیادی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے صرف ایڈہاک ریلیف دیا جاتا رہا جبکہ دوسری جانب دیگر سرکاری اداروں کی تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے اس لیے وزارت دفاع نے وزارت خزانہ سے فوج کی بنیادی تنخواہوں میں اضافے کا خط ارسال کردیا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ افواج پاکستان کی اس وقت کل تعداد کوئی 8 لاکھ کے قریب ہے جس میں پاکستان آرمی کے 6 لاکھ ستر ہزار جبکہ پاکستان ائیر فورس میں 73 ہزار جبکہ پاکستان نیوی میں 36 ہزار اور اسٹریجک پلاننگ کمیشن میں 21 ہزار کے قریب ملازمین شامل ہیں۔ ان کی تنخواہ کا بجٹ دفاعی بجٹ سے دیا جاتا ہے جبکہ فوج کے ریٹائرڈ ڈ ملازمین کی تنخواہ بھی دفاعی بجٹ سے دیجاتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ افواج پاکستان کی تنخواہ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے سرکاری تنخواہ وہی ہوتی ہے جو وفاقی حکومت کی مختص کردہ ہے ہا ں تاہم یہ ضرور ہے کہ فیلڈ میں موجود ملازمین کو الاؤنس کی مد میں تنخواہ میں ریلیف دیا جاتا ہے۔ پاکستان افواج کی تنخواہ سے متعلق ایک افسانہ ان کو ملنے والا پلاٹ بھی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس پلاٹ کی مد میں ایک مخصوص رقم ان کی تنخواہ سے ہی کاٹی جاتی ہے۔ جبکہ یوٹیلیٹی بلز اور گھر کا کرایہ بھی تنخواہ کی مد سے کاٹا جاتا ہے تاہم مفت میڈیکل سہولیات مراعات کے زمرے میں آتی ہیں جبکہ سرکاری کاموں کے لیے گاڑی اور ایک بیٹ مین بھی سہولیات کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک سپاہی کی بنیادی تنخواہ 20 ہزار ہوتی ہے جس میں کھانا اور رہائش کی سہولیات شامل ہیں۔ دوسری جانب فوج کا سیکنڈ لیفٹینٹ یا کیپٹن سرکاری گریڈ 17 کے ملازم کے برابر عہدہ رکھتا ہے اور اس کی بنیادی تنخواہ بھی 75 ہزار تک ہوتی ہے۔ ملکی صورتحال کے باعث 2019-2020 پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ فوج نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا اور کفایت شعاری کا فیصلہ کیا ہے۔ افواج پاکستان کی بنیادی تنخواہ پچھلے چار سال سے نہیں بڑھیں ہیں۔ جبکہ ٹیکس کی وجہ سے تنخواہیں کم ہوگئی ہیں اور ایڈہاک ریلیف بھی گزشتہ سالوں سے پانچ سے دس فیصد ہی رہا ہے۔ اسی ضمن میں اکانومی ایڈوائزری کمیٹی کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وزارت دفاع کا تنخواہوں میں اضافے کے لیے خط موصول ہوگیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف وزارت دفاع کی جانب سے ہی بھیجا گیا پرپوزل نہیں ہے بلکہ دوسری وزارتوں نے بھی اپنے ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے خط بھیج دیا ہے۔ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صرف کسی ایک وزارت کی تنخواہ بڑھائی جائے جب بھی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے وہ تمام وزارتوں کے لیے یکساں ہی ہوگا۔ تاہم تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کی پیش گوئی پر ذرائع کا ماننا ہے کہ ملک میں کرونا سے جاری صورتحال مہنگائی اور خطے کی صورتحال کے باعث جب تک اسٹرٹیجک پلان پیپر ریلیز نہیں کیا جاتا تب تک کچھ بھی کہنا حتمی اور فیصلہ کن نہیں ہوسکتا۔اگر ان تمام حقائق کو بادی النظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تنخواہیں بڑھانے کا معاملہ تمام وزارتوں کے لیے یکساں ہے جس میں وزارت دفاع بھی شامل ہے۔ایسی صورتحال میں اپنی ہی افواج کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنانا دشمن کے پروپیگینڈہ پر عمل کرنے ے مترادف ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ