نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کا دفاعی  بجٹ  اور  فوج  کی تنخواہیں: کیا حقیقت کیا افسانہ۔۔۔فہمیدہ یوسفی

ایسی صورتحال میں اپنی ہی افواج کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنانا  دشمن کے پروپیگینڈہ  پر عمل کرنے ے مترادف ہے۔

اس  حقیقت سے انکار ہر گز  نہیں کیا جاسکتا  ہے کہ حالیہ دور میں کسی بھی قوم کی سلامتی کا دارومدار  اس کی دفاعی صلاحیتوں کی مضبوطی  اور افواج کی طاقت  پر انحصار کرتا ہے، اور یہی  وجہ ہے کہ  اقوام عالم  اپنی  اپنی استطاعت کے  مطابق  اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافی کی خواہاں رہتی ہیں تاکہ  ان کی  عسکری  اور عددی  طاقت  ان کو  دوسری قوموں  کے مقابلے  میں  برتری دلاسکے۔  اگر صرف  سال  2019  کا تذکرہ کیا جائے  تو اقوام عالم نے   2019   کا  ریکارڈ    1.9 کھرب ڈالر کا   بجٹ  اپنی افواج  اور دفاعی معاملات پر خرچ کیا ہے۔  یہ تخمینہ  سیوڈن کے  اسٹاک ہوم  انٹرنیشنل  پیس اینڈ ریسرچ نے  اپنی تحقیق کے دوران لگایا ہے۔  اس تحقیق  سے ایک  پریشان کن امر انتہائی واضح  ہوگیا  ہے کہ اس فہرست میں بھارت  کا شمار  تیسرے نمبر آگیا ہے جس نے سال  میں  اپنے بجٹ  میں   318931  مختص کیے۔ واضح رہے  یہ رقم  گذشتہ  بجٹ سے آٹھ فیصد زیادہ  تھی۔  جبکہ سال  2020-21   کے لیے  بھارت نے اپنے دفاع کے لیے 47.108  ارب  ڈالر مختص کیے ہیں۔  جو گزشتہ  سال  کے  مقابلے  میں 25  ارب زیادہ  ہے۔

 بھارت  کا جنگی جنون کسی سے  ڈھکا  چھپا نہیں  ہے  جب سے مودی سرکار نے بھارت کی باگ دوڑ سنبھالی ہے  تب سے  جنوبی ایشیا  میں  طاقت کا توازن  تو بگڑ ا ہی ہے بلکہ خطے کا  امن بھی  شدید  خطرات  سے دوچار ہے۔ کشمیر  میں جاری لاک ڈاؤن  ہو یا پھر آئے دن کنڑول لائن پر  جنگ بندی  کی شدید  خلاف ورزی ہو پاکستان  کے خلاف بھارتی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں  ہیں۔حالانکہ  پاکستان کے ہاتھوں فروری   2019 میں  بدترین  فضائی شکست بھی   پاکستان  کے خلاف بھارت کو  اس کے ناپاک  ارادوں میں روکنے میں کامیاب نہیں  ہوسکی ہے  اور بھارت  کا جنگی جنون  بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان  کی سلامتی کو درپیش  چیلینجز  کی وجہ سے  پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں اور دفاعی بجٹ  کا موازنہ  بھارت  سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ  بھارت  کا صرف  دفاعی بجٹ  ہی پاکستان کے مجموعی  بجٹ سے زیادہ ہے۔گلوبل  پاور ویب سائٹ کے مطابق  بھارت  دنیا  کی طاقتور ترین افواج  میں چوتھے  جبکہ پاکستان اس وقت 15 ویں  نمبر پر ہے۔ تاہم حیران  کن طور پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی عسکری طاقت  کا پلہ ہمیشہ بھاری  ہی رہا  ہے۔دوسری  جانب اگر پاکستان کے دفاعی  بجٹ  کے بارے میں بات کی جائے  تو یہ  انتہائی  حساس نوعیت کا موضوع ہے جس کے  بارے میں کیونکہ زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں  اور نہ ہی اس متعلق  زیادہ بات کی جاتی  ہے ہاں  لیکن  اس بارے  میں  افسانے زیادہ  سنے جاتے ہیں  جیسا کہ  افواج پاکستان کا   دفاعی بجٹ  ملکی بجٹ کا   80   فیصد سے زیادہ ہوتا  ہے۔

 لیکن  کیا واقعی  ایسا ہی  ہے، نظر ڈالتے  ہیں چند حقائق پر مبنی  بجٹ  نمبرز  پر:

2017    2016-  کے  لیے  اس وقت کی  مسلم لیگ ن کی حکومت نے دفاعی بجٹ  کے لیے  860  ارب روپے جبکہ -2017    2018  میں   920  ارب روپے مختص کرنے کی تجویز  کیے تھے  جبکہ  سال   2019-2018   کے لیے   1100  کھرب مختص کیے گئے  تھے۔ جبکہ اگر  بھارت کے صرف  کے صرف 2001  کے  ہی بجٹ  پر نظر ڈالی جائے  تو وہ  اس وقت  بھی   53.5ارب ڈالر  کے لگ بھگ تھا  تو کہا  جاسکتا ہے کہ پاکستان کا دفاعی  بجٹ  بھارت کے مقابلے میں اتنے برسوں بعد بھی  چھ  سے سات گنا کم ہی  ہے۔اس حساب سے پاکستان کا دفاعی بجٹ  ملکی بجٹ  کے بیس  فیصد سے زائد نہیں بنتا۔ جبکہ پاکستان کو  خطے  میں جغرافیائی  اہمیت حاصل ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو صرف  بیرونی  نہیں  بلکہ  اندرونی سیکورٹی  چیلنجز  کا بھی سامنا ہے  جس  کے  لیے  افواج پاکستان کا  دشمن کو منہ توڑ جواب دینے  کے لیے  جدید ٹیکنالوجی  اور ہتھیاروں سے لیس ہونا ایک لازمی  امر ہے۔اب بات کرتے ہیں  دفاعی  بجٹ   2019-2020   کی  جس کے مطابق  پاکستان کا عسکری  بجٹ 1152ارب  ہی  برقرا رکھا گیا  تھا۔  یاد رہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف  جنرل قمر جاوید باجوہ  نے  اپنے بیان میں کہا تھا کہ  پاکستان فوج نے  سالانہ اضافہ نہ لینے کا فیصلہ جو کیا ہے  وہ قوم پر احسان نہیں ہے۔ جبکہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ  بجٹ  کٹوتی  کو دفاعی  صلاحیتوں  اور  جوانوں  کے معیار  زندگی پر اثر انداز  ہوئے  بغیر  آنے والے مالی سال میں  دیگر  امور میں ایڈجسمنٹ سے  پورا  کیا جائیگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ  کا یہ بھی کہنا تھا کہ تنخواہوں میں  اضافہ  نہ لینے کا فیصلہ بھی فوجی افسران کا ہے جوانوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

اب نظر ڈالتے ہیں ان دنوں سوشل میڈیا  پر  طوفان کی طرح چھائی  ایک خبر  پر جو  سال  2020-2021  کے مالیاتی  بجٹ  سے قبل  افواج پاکستان  کی تنخواہوں   میں بیس  فیصد  اضافے  سے متعلق ہے۔  اس خبر پر تبصرے سے پہلے   عالمی ادارے  کی ایک ریسرچ  رپورٹ  پر نظر  ڈال لیتے  ہیں جس  سے  ایک حیران کن  انکشاف  سامنے آیا ہے۔جس کے مطابق  امریکہ  اپنے  ایک فوجی پر 4  لاکھ 26 ہزار ڈالر  ہر سال خرچ کرتا  ہے  جبکہ  بھارت  اپنے  ایک  فوجی  پرہر سال  17554 ڈالر اس کے مقابلے  میں  پاکستان  اپنے ایک فوجی  پر   8077  ڈالر ہر سال خرچ کرتا  ہے  جو  بھارت کے مقابلے  میں کچھ بھی نہیں ہیں۔  جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق  پاکستان  دنیا  کی دیگر  افواج کے مقابلے میں  اپنی سپاہ  پر سب سے کم خرچ کرنے والی  فوج  ہے  جبکہ عام تاثر  یہ ہے  کہ بجٹ  کا   80  فیصد پاکستان افواج کے نام ہوتا ہے۔  اب خبر  کی جانب  واپس  چلتے ہیں  تفصیلات  کے مطابق  سال  2020-2021  کے مالیاتی  بجٹ  سے قبل افواج پاکستان   کی  تنخواہوں  میں  بیس  فیصد اضافے  کا خط وزارت دفاع کی جانب سے  وزارت خزانہ کو  بھیجا  گیا  ہے۔  اس خبر  کے منظر عام پر آتے  ہی سوشل میڈیا پ  ہر جانب سے  مباحشوں کا  سلسلہ  زور و شور سے جاری ہے۔  اس خبر کی تفصیلات کی توثیق  کے لیے  جب  راقم نے  فنانس منسٹری  سے رابطہ کیا تو  ایک اہم عہدے دار نے نام نہ بتانے کی شر ط پر  اس خبر  پر تفصیل  سے تبصرہ ہکرتے ہوئے بتایا  ہے کہ  فنانس منسٹری کو  بجٹ کے لیے  صرف وزارت دفاع سے ہی نہیں بلکہ ہر  وزارت سے تنخواہوں کی مد میں  اضافے  کے لیے  اب تک خط موصول ہوچکے ہیں۔  جبکہ  ان کا مزید کہنا تھا کہ  تنخواہوں میں اضافہ وفاقی حکومت کا صوابدیدی  اختیار ہے جبکہ یہ فیصلہ  وفاقی کابینہ کریگی جس کا اجلاس  بجٹ سے چند گھنٹے پہلے  ہوتا ہے  اور تنخواہوں میں اضافے   کے لیے  وزارت خزانہ سے موصول  دو یا تین پرپوزل  میں سے مناسب پرپوزل کو  منظور کیا جاتا ہے۔  انہوں نے بتایا کہ  پچھلے  چار سالوں میں  سرکاری ملازمین بشمول  فوج کے  تنخواہوں میں اضافہ  ایڈہاک  کی بنیاد  پر کیا گیا ہے  تاہم  ان کی بنیادی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا  ہے۔ انہوں  نے مزید بتایا کہ تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ  جبکہ   15فیصد  ایڈہاک  ریلیف  تمام  سرکاری ملازمین  کے لیے  زیر غور ہے۔ ساتھ ہی  انہوں نے  یہ بھی بتایا کہ فروری  سے سیکریٹریٹ  کے ملازمین تنخواہوں میں اضافے  کے لیے  احتجاج کررہے ہیں  جس کی وجہ مہنگائی میں ہونے والا اضافہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے  اس بات  کو تسلیم کیا  ہے کہ افواج پاکستان کی  خواہش ہے کہ ان گزشتہ چار سالوں سے  ایڈہاک  بنیادوں پر کیا جانے والا  تنخواہوں میں اضافہ  ان کی بنیادی  تنخواہ  کا حصہ  بناتے ہوئے  بیس  فیصد کا اضافہ  دیا جائے۔ تاہم  ان کا کہنا تھا کہ  یہ ایک پرپوزل ہے جو وزارت دفاع سے فنانس منسٹری کو  موصول ہوا ہے  ابھی اس پر کوئی حتمی  فیصلہ صرف اور صرف وفاقی کابینہ کا ہی اختیار ہے۔

اس سلسلے میں وزارت دفاع کے ذرائع  نے افواج  کی تنخواہوں  میں بیس  فیصد اضافے  کے خط کو  وزارت خزانہ بھیجنے کی توثیق کرتے ہوئے  بتایا  ہے کیونکہ  پچھلے  چار سالوں سے فوج  کی بنیادی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے  صرف ایڈہاک ریلیف دیا جاتا رہا  جبکہ دوسری  جانب دیگر  سرکاری  اداروں کی تنخواہوں میں ہر سال  اضافہ ہوتا رہا ہے اس لیے  وزارت دفاع نے  وزارت خزانہ سے  فوج کی بنیادی تنخواہوں میں اضافے کا خط ارسال کردیا ہے۔یہ بھی  یاد رہے کہ  افواج پاکستان  کی اس وقت کل تعداد کوئی 8  لاکھ  کے قریب ہے جس  میں پاکستان آرمی  کے 6   لاکھ ستر ہزار جبکہ  پاکستان ائیر فورس  میں 73 ہزار  جبکہ  پاکستان نیوی  میں 36 ہزار اور اسٹریجک پلاننگ  کمیشن میں 21 ہزار  کے قریب  ملازمین شامل ہیں۔ ان  کی تنخواہ کا بجٹ دفاعی  بجٹ سے دیا جاتا ہے جبکہ فوج  کے  ریٹائرڈ ڈ ملازمین کی تنخواہ  بھی  دفاعی بجٹ سے دیجاتی ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ  افواج پاکستان کی تنخواہ اور  سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ زیادہ  فرق  نہیں ہے  سرکاری تنخواہ  وہی ہوتی  ہے  جو  وفاقی حکومت کی مختص کردہ ہے  ہا ں تاہم یہ ضرور ہے کہ فیلڈ  میں موجود ملازمین کو الاؤنس کی مد میں  تنخواہ  میں ریلیف دیا جاتا ہے۔ پاکستان افواج کی تنخواہ سے متعلق  ایک افسانہ  ان کو ملنے والا پلاٹ بھی  ہے لیکن  یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت  ہے کہ  اس پلاٹ  کی مد  میں  ایک مخصوص رقم  ان کی تنخواہ  سے ہی کاٹی جاتی ہے۔ جبکہ یوٹیلیٹی بلز  اور گھر کا کرایہ بھی تنخواہ کی مد سے کاٹا جاتا ہے  تاہم  مفت میڈیکل سہولیات  مراعات کے زمرے میں آتی ہیں جبکہ  سرکاری کاموں کے لیے گاڑی اور ایک بیٹ مین  بھی سہولیات کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک  دلچسپ  امر یہ  ہے کہ ایک سپاہی کی بنیادی تنخواہ 20  ہزار ہوتی ہے جس میں کھانا اور رہائش کی سہولیات شامل ہیں۔ دوسری جانب فوج کا سیکنڈ لیفٹینٹ  یا کیپٹن  سرکاری گریڈ 17  کے ملازم کے برابر عہدہ رکھتا ہے  اور اس کی بنیادی تنخواہ  بھی 75 ہزار تک ہوتی ہے۔ ملکی صورتحال کے باعث 2019-2020  پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت  نے اعلان کیا تھا کہ  فوج  نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا  اور کفایت شعاری کا فیصلہ کیا ہے۔ افواج پاکستان کی بنیادی تنخواہ  پچھلے  چار سال سے نہیں بڑھیں ہیں۔  جبکہ ٹیکس کی وجہ سے تنخواہیں کم  ہوگئی ہیں  اور ایڈہاک ریلیف  بھی گزشتہ سالوں سے پانچ سے دس فیصد ہی رہا ہے۔ اسی ضمن میں اکانومی  ایڈوائزری کمیٹی کے ذرائع نے بھی  اس بات کی تصدیق کی ہے کہ  وزارت دفاع کا  تنخواہوں میں اضافے کے لیے خط موصول ہوگیا ہے تاہم  ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف وزارت دفاع  کی جانب سے ہی بھیجا گیا پرپوزل نہیں ہے بلکہ دوسری وزارتوں نے بھی اپنے ملازمین  کی تنخواہیں بڑھانے کے لیے خط  بھیج دیا ہے۔ذرائع کا یہ بھی بتانا تھا کہ  ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صرف کسی ایک وزارت کی تنخواہ بڑھائی جائے  جب بھی  تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے وہ تمام وزارتوں  کے لیے یکساں ہی  ہوگا۔ تاہم تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کی پیش گوئی پر ذرائع  کا  ماننا ہے کہ ملک میں کرونا  سے جاری صورتحال  مہنگائی  اور خطے کی صورتحال کے باعث جب تک  اسٹرٹیجک پلان  پیپر  ریلیز  نہیں کیا جاتا تب تک کچھ بھی کہنا حتمی اور فیصلہ کن نہیں ہوسکتا۔اگر ان تمام حقائق کو بادی النظر میں دیکھا  جائے  تو یہ حقیقت سامنے آتی  ہے کہ تنخواہیں بڑھانے کا معاملہ تمام وزارتوں کے لیے یکساں ہے  جس میں وزارت دفاع بھی شامل ہے۔ایسی صورتحال میں اپنی ہی افواج کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنانا  دشمن کے پروپیگینڈہ  پر عمل کرنے ے مترادف ہے۔

About The Author