گزشتہ سے پیوستہ
جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر کیا گیا کہ انڈیا میں 1892 کے ایکٹ کے مطابق جو الیکشن ہوۓ اس میں مختلف یونینز اور کونسلز کو Nominate کیا گیا۔
یعنی ٹریڈ یونینز،بار کونسلز،لینڈ لارڈ ایسوسی ایشنز یونیورسٹی سنڈیکیٹس صرف ان میں الیکشن کرٶاۓ گئے۔ان میں سے جو جیتے وہ امپیریل لیجسلیٹیو کے ممبرز بنے۔سر سید School of thought اسے ایک اور نقطہ نظر سے دیکھ رہا تھا بظاہر ہچکولے کھاتی جمہوریت تو پنپ رہی تھی لیکن مسلمانوں کا اس نوزائیدہ جمہوریت میں حصہ دورازدانست تھا۔
ایک قابل غور بات بتاتا چلوں کہ 1892 کے اس کونسل ایکٹ میں Law making ہونی ہو تو ہوتا یہ تھا کہ ایگزیکٹو کونسل کے 5 ممبرز باقی ایڈیشنل ممبرز امپیریل لیجسلیٹیو کونسل برٹش آفیشلز بھی اور Elected بھی اکھٹے آجاتے تھے اور گورنر جنرل اس سیشن کی صدارت کرے گا اور سوال کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں لیکن ایسا لگے گا انڈیا کی اسمبلی نے ایکٹ یا بل پاس کر لیا۔
وہی ہوا جس کا اندیشہ سر سید school of thought کو ابتدا سے محسوس ہو نے لگاتھا۔ 1892 کے الیکشن میں ایک بھی مسلمان نہیں جیتا،کیونکہ بار کونسلز ٹریڈ یونینز لینڈ لارڈ ایسوسی ایشنز، یونیورسٹی سنڈیکیٹس اب اتنی زیادہ کونسلز کس کا الیکشن ہونا ہےتو وہ پھر کوٹہ میں نامزد کر دیے گئے ۔باری باری ہر کونسل سے ممبرز نامزد کیے جاتے تھے۔
اور یہ عام فہم بات ہے اس وقت ان کونسلز میں مسلمانوں کی کوئی اکثریت نہیں تھی تو کوئی مسلمان کیونکر جیت کے آتا۔سر سید school of thought نے مزید اس چیز پر غورخوض کرنے لگے، سر سید احمد خان کے بیٹے محمودالحسن نے اوپن لیٹرز لکھے کہ ہمیں کوئی علیحدہ میکنزم دیں اگر ہمیں علیحدہ میکنزم نہیں دیا گیا تو اس جمہوریت سے ہمارے تو سیاسی حقوق کبھی پورے ہونے والے نہیں،اور یہ یاد رکھیں یہ جو سب کچھ ہو رہا تھا یہ ایک متحدہ ہندوستان میں سیاسی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی جا رہی تھیں ہمیں کبھی بھی اس چیز کو مذہبی نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیئے یہ ایک سیاسی حقوق کی جنگ تھی کسی بھی ریاست میں اگر آپ کے سیاسی حقوق پورے ہوتے ہوں تو سمجھ لیں کہ باقی تمام حقوق بھی یقینی ہو جاتے ہیں خواہ وہ مذہبی حقوق ہوں سماجی حقوق ہوں یا معاشی حقوق ہوں۔
یہ بھی پڑھیےکورونا سے کیسی جھجھک۔۔۔ احمد علی کورار
ہر تین سال بعد الیکشن ہوتے تھے جب 1895 میں الیکشن ہوئے تو اس میں پہلا مسلم Elect ہو گیا نواب سلیم اللہ آف ڈھاکہ پہلے Elected Muslim تھے۔لیجسلیٹیو کونسل میں پہلے ہوتے تھے سر سید احمد خان بھی تھے لیکن 1895 کے الیکشن میں نواب سلیم اللہ آف ڈھاکہ Elect ہو کر لیجسلیٹیو کونسل کا حصہ بنے۔
لیکن یہ سر سید School of thought سے نہیں تھا۔ پھر جب تین سال بعد 1898 میں الیکشن ہوئے اس الیکشن میں بھی کوئی مسلمان نہیں جیتا جب تک سر سید زندہ رہے جو سر سید کے رفقا تھے انہوں نے یہ تہیہ کر لیا کہ ہم اس وقت تک سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک ہمارے پاس کوئی علیحدہ میکنزم نہ ہو۔1898 میں سر سید وفات پا گئے۔لیکن سر سید نے اپنے رفقا کے اذہان میں اس بات کو ڈال دیا تھا کہ ہمیں ایک الگ میکنزم کے ذریعے اپنے سیاسی حقوق کے لیے جنگ لڑنی ہے تو انہوں نے اپنی کاوشیں تیز کر دیں اور وہ سوچتے جا رہے ہیں یاد رکھیں یہ بڑی پڑھی لکھی اور Genius قسم کی لیڈرشپ تھی۔
1898 ہی میں ہندوستان میں ایک نیا گورنرجنرل لارڈ کرزن آیا۔یاد رہے کہ اس وقت برطانوی ہندوستان کا درالحکومت کلکتہ تھا۔1911 تک برٹش انڈیاکا کیپیٹل کلکتہ رہا ۔کرزن بڑا adventurous قسم کا آدمی تھا وہ پورا انڈیا گھوم کر کلکتہ آیا۔اس سے اس نے یہ پتا لگایا کہ کہاں کہاں مسائل ہیں۔
بلاشبہ ہندوستان میں کونسلز تو بن گئی ہیں لیکن فیصلہ سازی کا حق ابھی تک برطانوی پارلیمنٹ کو تھا۔
اپنے تئیں گورنر جنرل کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔
برٹش پارلیمنٹ میں انڈیا کے لیے ایک وزیر مقرر ہوتا تھا جسے سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈین افیئرز (وزیر امور ہند) یہ ایک سیاسی پوسٹ تھی جو ہر نئی حکومت کے ساتھ بدلتی رہتی تھی۔
سیکرٹری آف انڈین افیئرز برٹش پارلیمنٹ کے سامنے کوئی بھی بل منظوری کے لیے رکھتا پھر اسے برٹش پارلیمنٹ منظور کرکے گورنر جنرل کو بھیجتی۔کرزن بڑا visionary وائسرائے تھا۔وہ 1898 سے 1901 تک برٹش پارلیمنٹ کے ساتھ خط و کتابت کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف مسلم لیڈرشپ بھی علیحدہ میکنزم پہ سوچ بچار کر رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: برٹش انڈیا میں جمہوریت کا آغاز ۔۔۔احمد علی کورار
جاری ہے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی