جس چیز کا جتنا مطالعہ کیا جاتا ہے، اتنا ہی اس کی اہمیت کا انکشاف ہوتا جاتا ہے اور مالک کریم کا شان ظاہر ہوتا ہے. چونکہ،خالق کائنات خود بیمثال ہے تو اس کا جوڑا ہوا سنسار بھی کامل ہے. سورہ سجدہ (32) آیت 7 میں ارشاد ہے "وہ جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی اور انسان کی پیدائش کی ابتداء مٹی سے فرمائی”.
اللہ تعالیٰ کی احسن تخلیقات میں سے ‘مٹی’ بھی ایک ہے، جس کی نسبت انسان کی ابتدا سے ہے. روزمرہ میں بھی انسان کسی طرح مٹی پر منحصر ہے. تاریخ میں لاکھوں جنگیں،ہزاروں انقلاب،اور سینکڑوں شاعروں کی محبتوں کے اظہار مٹی کے نام ملتے ہیں.
دھرتی کے سب سے اوپری تہہ کو مٹی کہا جاتا ہے. یہ پتھروں کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں بنی ہے. مختلف جگہوں کی مٹی کی مختلف خاصیتیں اور رنگ ہوتے ہیں.
رنگ،ساخت،ٹھوس ہونا/سختی،پانی کی نکاسی،کھاد،اور erosion مٹی کی خاصیتوں میں شامل ہیں. ٪٢٥ پانی، ٪٢٥ ہوا، ٪٤٥ معدنیاتی مادہ، اور ٪٥ کھاد مٹی کے ترکیبی عناصر ہیں. ترکیبی عناصر کی مقدار مختلف جگہوں پر مختلف ہو سکتی ہے. آپ کو مٹی سرخ، پیلی، خاکی، اور سفید نظر آئیگی. مٹی کا رنگ عام طور پر اس میں موجود معدنیات، نمی اور کھاد کی معلومات دیتا ہے.
مٹی کے تین تہہ ہوتے ہیں. بالائی تہہ کو top soil کہا جاتا ہے. اس کے ذروں کی جسامت مختلف ہوتی ہے. رنگ عمیق ہوتا ہے،کیوں کہ: اس میں بیجان پودوں اور مردہ جانداروں کے گلے سڑے بیجان مادے ہوتے ہیں جس کو humus/ کھاد کہا جاتا ہے. کھاد پودوں کی نشوونما کے لئے بہترین ہوتی ہے. مٹی کی دوسری تہہ، ‘زیریں تہہ’ ہے جو top soil کے نیچے ہوتی ہے. اس کے ذرات top soil سے کچھ بڑے ہوتے ہیں. اس میں کھاد بہت ہی کم مقدار میں ہوتی ہے. جس لئے اس کی رنگت ہلکی ہوتی ہے. یہ تہہ پودوں کی نشوونما کے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی. کچھ پودوں کی جڑیں پانی کی تلاش میں اس تہہ تک پہنچ سکتی ہیں. مٹی کی تیسری تہہ کو bed rock/’پتھریلی تہہ’ کہا جاتا ہے. یہ تہہ سخت اور پتھریلی مواد سے بنی ہوتی ہے. یہ مٹی کا سب سے نچلا تہہ ہے.
مٹی کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ؛ ‘یہ جانوروں اور انسانوں کی غذا کے لئے پودوں کو خوراکی اجزا مہیا کر کے اگنے میں مدد کرتی ہے. خوراکی اجزا کو روکے رکھنا مٹی کی خاصیتوں میں سے ہے، جو مختلف اقسام کی مٹی میں مختلف ہوتی ہے.
ریت، گارا/silt چکنی مٹی , اور loam,/میرا مٹی، مٹی کی اقسام ہیں.
ریت کے دانے چھونے سے بڑے اور کھردرے محسوس ہوتے ہیں، اور ریت کے دانے ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتے ہیں، جن کے بیچ ہوا کے لئے خالی جگہ موجود ہوتی ہے. ریت پانی کی نکاسی تیزی سے کرتا ہے اور خوراکی اجزا کو اپنے پاس روک کر نہیں رکھ سکتا. نتیجے میں ریت پودوں کی نشوونما کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوتا.
‘گارا مٹی’ کے ذرات آٹے کے ذرات کے برابر ہوتے ہیں. خشک گارا چھونے سے پائوڈر اور ریشم کی طرح چکنا اور نرم محسوس ہوتا ہے. گارا مٹی والی زمین میں کافی مقدار میں پانی موجود ہوتا ہے. کبھی تو پانی کی نکاسی بھی نہیں کر سکتی. یہ زمینیں ٹھیک سے خوراکی اجزا کو اپنے پاس روک کر رکھ نہیں سکتیں،جس لیے پودوں کی اچھی نشوونما نہیں ہو سکتی.
چکنی مٹی کے ذرات بہت ہی باریک اور کثیف ہوتے ہیں. گیلا ہونے سے چپک پڑتے ہیں. ذروں کے درمیان ہوا کے لئے خلا نہیں ہوتا. چکنی مٹی والی زمینوں میں بہت سارا پانی ٹھہر جاتا ہے۔ان میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ تاہم چکنی مٹی والی زمین خوراکی اجزا کو روکے رکھتی ہے،جو پودوں کی نشوونما کے لئے مفید ہوتے ہیں۔
ایسی مٹی جو ریت،گارے،چکنی مٹی،اور نباتاتی مادے کی ملاوٹ سے بنی ہو اس کو loam/’میرا مٹی’ کہا جاتا ہے. یہ ایسی مٹی ہے جس میں پودوں کی نشوونما کے لئے تمام خوراکی اجزا اور معدنیات موجود ہوتے ہیں. اس میں کافی مقدار میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے. ذرات کے درمیان ہوا کے گزر کے لئے خلا ہوتی ہے،جس کے ذریعے پودوں کی جڑیں آسانی سے زمین کے اندر داخل ہوتی ہیں.
ہر قسم کی زندہ چیزوں کو زندگی برقرار رکھنے کےلئے غذا کی صورت میں توانائی کی ضرورت پڑتی ہے. غذائی زنجیر میں گوشت خور جاندار،سبزی خوروں کو کھاتے ہیں،سبزی خور پودوں کو کھا کر زندہ رہتے ہیں اور پودے اپنی نشوونما کےلئے غذائی اجزا مٹی سے حاصل کر کے اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں. اس طرح زندگی کو سہارا دینے میں مٹی اہم کردار ادا کرتی ہے. مٹی کی یہ خاصیت مٹی میں موجود غذائی اجزا سے مشروط ہے. مٹی کے وہ اجزا عمل فرسودگی (soil erosion) کے ذریعے ضایع بھی ہو سکتے ہیں.
پانی کا تیز بہاؤ زمین کو چیر کر اپنا راستا بناتا ہے اور اپنے ساتھ سطح کی مٹی کو بہا لے جاتا ہے،جس سے مٹی کے غذائی اجزا بھی بہہ جاتے ہیں. تیز ہوا یا پانی کے ذریعے مٹی کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کو عمل فرسودگی/erosion کہا جاتا ہے. Erosion سے متاثر مٹی پودوں کی نشوونما کے لئے اچھی نہیں رہتی. اس عمل کو گھٹانے کےلئے درخت اگانا کافی حد تک مفید ہیں. جن علاقوں میں مٹی کے طوفان اٹھتے ہوں،وہاں اگر زیادہ تعداد میں درخت اگائے جائیں تو تیز ہوائیں سیدھی طرح مٹی سے ٹکرانے کے بجائے درختوں سے ٹکرائیں گی،تو ہوا کا دباؤ کم ہو کر مٹی پر پڑیگا،اور کافی حد تک wind erosion گھٹ جائیگا. ایسے ہی تیز بارشوں میں پانی کے تیز بہاؤ کو درختوں کی جڑیں زیادہ مٹی اکھاڑنے سے روکیں گی.
اللہ تعالیٰ عزوجل نے ماحول کو ایسے ترتیب دیا ہے،جس میں ہر ایک عنصر ایک دوسرے سے مستفید ہے. اسی طرح ماحول میں مٹی اور جاندار بھی باہمی انحصار رکھنے والوں میں سے ہیں. مٹی جانداروں کو پناہ گاہ اور خوراک مہیا کرتی ہے. چھوٹے جانور جیسے؛ چوھے،کیڑے،اور خرگوش وغیرہ زمین کے اندر رہتے ہیں،گلے سڑے جانداروں کے باقیات کھاتے ہیں. زمین کو کھود کر اوپر نیچے کر کے ملاتے رہتے ہیں. جس کے سبب مٹی پانی جذب کرنے کے قابل اور ہوادار بنتی ہے. اس کے سوا، سوراخ بناکر پودوں کی جڑوں کو زمین کے اندر داخل ہونے میں آسانی کرواتے ہیں. ان چھوٹے جانوروں کے علاوہ ایک اور قسم کی مخلوق بھی مٹی میں رہتی ہے،جن کو بہت ہی چھوٹا ہونے کی وجہ سے انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی. ان کو دیکھنے کے لئے خوردبینی کا سہارا لیا جاتا ہے،جس لیے ان کو خورد بینی جاندار کہا جاتا ہے. بیکٹیریا اور فنجی خوردبینی جانداروں میں شامل ہیں. وہ اتنی زیادہ تعداد میں موجود ہیں کہ، اگر آئس کریم کھانے کے لئے استعمال ہونے والا چمچ مٹی سے بھرا جائے تو اس ایک مٹی سے بھرے چمچ میں ایک کروڑ بیکٹیریا موجود ہو سکتے ہیں.
درختوں سے لاکھوں پتے اور تنکے جھڑتے ہیں،سبزیوں کے چھلکے،خراب میوہ جات، جو جانور مر جاتے ہیں یا ہر وہ چیز جو کبھی کسی جاندار کے وجود کا حصہ رہ چکا ہوتا ہے، وہ ساری biodegradable چیزیں ملکر غیر جاندار نباتاتی مادے میں تبدیل ہو جاتی ہیں. نباتاتی مادہ پودوں کی نشوونما کے لئے مٹی کا اہم حصہ ہوتا ہے. یہ سب تحلیلی عمل کی وجہ سے ہوتا ہے. تحلیلی عمل وہ عمل ہے جس میں بیجان چیز یا اس کا کوئی حصہ ٹوٹ کر الگ الگ خوراکی اجزا میں بدل جاتا ہے. تحلیلی عمل ان بیکٹیریا،فنجی اور کچھ کیڑوں کی وجہ سے ہوتا ہے،جو ان بیجان چیزوں کو کھا کر اپنی خوراک ان بیجان چیزوں سے حاصل کرتے ہیں اور خوراک سے حاصل ہونے والے اجزا دوبارہ مٹی کی طرف لوٹا دیتے ہیں. تحلیلی عمل کے ذریعے مٹی میں نائٹروجن،کاربن،اور فاسفورس شامل ہوتے ہیں،جن کو پودے پرورش پانے کے لئے استعمال کرتے ہیں. اس طرح مٹی کا نباتاتی مادہ جانوروں کی وجہ سے بن پاتا ہے. نباتاتی مادہ مکرر پودوں کو پرورش کروا کر جانداروں تک غذا پہنچاتا رہتا ہے.
مٹی اور جانداروں کے اس باہمی انحصار والے ماحول کو انسانوں کی کچھ سرگرمیاں نقصان پہنچا سکتی ہیں،جو واپس ان کو ہی خسارہ پہنچائے گا. Plastic, شیشہ،اور rubber وغیرہ جیسی non biodegradable چیزوں کو استعمال کے بعد پھینکا جاتا ہے. جن کو خورد بینی جاندار آسانی سے تحلیل نہیں کر پاتے. کھیتوں میں antiseptic ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے،جو خوردبینی جانداروں کو مارنے کا امکان رکھتی ہیں. ان اعمال کے نتیجے میں مٹی کا نباتاتی مادہ نہیں بن پاتا اور مٹی کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے. بدلے میں انسانوں اور جانوروں کو پودوں کے نہ ہونے کی صورت میں غذائی قلت والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. اس لیے جتنا ہو سکے مٹی والے ماحول کو بگاڑنے سے گریز کیا جائے. مٹی کی زرخیزی کو بڑھایا جائے. یہ معاشرے کے ہر باشعور فرد اور حکومت وقت کے ذمہ داری ہے کہ؛ وہ قدرتی ماحول اور مٹی کی زرخیزی کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے ضرور کوئی قدم اٹھائے،اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرے.
Daily Swail-Native News Narrative
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ