اس بار جس گلی کی طرف ہانکا جا رہا ہے اس کے اختتام پر گہری کھائیاں ہیں۔ اس ”ہانکے” کی وجہ سبھی جانتے ہیں پر بولتے نہیں۔ وقتی مفادات’ حب الوطنی کا خود ساختہ معیار اور۔۔ اور بھی بہت کچھ ہے، کیا بات یہی ختم ہو جائے گی، الزامات اُچھلیں گے اور ہا ہاکاری ہوگی؟
جی نہیں بات بڑھی تو بہت دور تلک جائے گی۔
بھونڈے الزامات کی کوکھ سے جنم لینے والی نفرت ایسی تباہ کاریوں کو دعوت دے گی جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔
بہت ادب کیساتھ برادرانہ مشورہ یہی ہے کہ خدا کیلئے ملک کو فاتحین کی جاگیر اور عوام کو مفتوحہ مال سمجھنے کی روش ترک کر دیجئے۔
کیا ایسی کوئی مجبوری ہے کہ سیاستدانوں کی کردارکشی کی قسط اول چلا دی گئی۔
18ویں ترمیم اس ملک کے لوگوں کا حق تھا، ملک اس کے باشندوں سے ہی عبارت ہوتے ہیں۔ ادارے ملک چلانے کیلئے بنائے اور منظم کئے جاتے ہیں ناکہ ملک اور عوام کو ہانکنے کیلئے۔
ابتدائی سطور میں پہیلی نہیں لکھی دی۔ بہت صاف سیدھے انداز میں تلخ حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے۔
یہ بھی عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ پیپلز پارٹی کیخلاف استعمال کیا جانے والا امریکی ”ہتھیار” 18ویں ترمیم میں کچھ ترامیم کیلئے پیپلز پارٹی کو آمادہ کرنے میں ناکامی کے بعد آزمایا گیا۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں اس طرح کی الزام گیری کا کوئی فائدہ ہوا؟
مکرر عرض کرتا ہوں کیا کوئی چاہتا ہے کہ 1988ء میں نواز شریف کی ماڈل ٹائون والی قیام گاہ پر اسلامی جمہوری اتحاد کے میڈیا سیل کے ظاہری چہروں کیساتھ ان چہروں کا ذکر بھی شروع ہو جائے جو مرحوم جنرل حمید گل کی ہدایت پر اس میڈیا سیل کے بظاہر مشیر تھے لیکن اصل میں وہی منتظمین ہی تھے؟
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ الزام ہو یا گالی اس کا جواب بہرطور آتا ہے۔
اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ ہم سب ماضی میں دیکھ بھگت چکے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ مخصوص مقاصد کیلئے نئی بساط بچھائی جا رہی ہے۔
ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ علاقائی وعالمی حالات سے پیدا شدہ مسائل اور کمزور معیشت پر اخراجات کا بوجھ پریشان کئے ہوئے ہے۔
لیکن اخراجات میں کمی کرنا ہوگی اور وہ بھی مجموعی طور پر بہتر برسوں سے نفرتوں کا جو سودا بیچا جا رہا ہے مزید فروخت ہونے کا نہیں۔ دشمن سب کے ہوتے ہیں مگر اندھی دشمنی نقصان پہنچاتی ہے۔
سب جانتے ہیں امریکی شہری سنتھیان ڈی رچی’ باقاعدہ صحافی نہیں اسے چین سے کیوں ڈی پورٹ کیا گیا، وہ الگ کہانی ہے۔
فی الوقت سوال یہ ہے کہ یہ خاتون کس حیثیت میں حساس حلقوں اور اداروں تک رسائی رکھتی ہے اور پیپلزپارٹی کی تین اہم شخصیات سید یوسف رضاگیلانی’ رحمن ملک اور مخدوم شہاب الدین ہاشمی کیخلاف اس کے الزامات کی حقیقت کیا ہے۔
یہی خاتون قبل ازیں شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو پر سنگین الزام لگا چکی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مالی کرپشن کے مقدمات اورجعلی اکائونٹس میں اربوں کے ریل پیل کی کہانیاں دم توڑ رہی ہیں۔
دو باتیں ماننے سے پیپلزپارٹی انکاری ہے، صدارتی نظام جس کاڈھانچہ بظاہر پارلیمانی ہو’ ثانیاً 18ویں ترمیم میں سے صوبوں کے اختیارات میں کمی کرکے ماضی کی سی مرکزیت کی بحالی۔
اس انکار کے بعد یہ نیا سلسلہ شروع ہوا۔
لکھ کے رکھ لیجئے اگلے مرحلہ میں نون لیگ کے وہ لوگ اس سنتھیارچی میزائل کا نشانہ بننے والے ہیں جن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مفاہمت کی پالیسی کے مخالف ہیں۔
لیکن یہ سنتھیارچی میزائل استعمال کرنے کا مشورہ جس نے بھی دیا وہ مخلص دوست نہیں تھا۔
کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ آنے والے دنوں میں تقریباً ہر وہ سیاستدان اس میزائل سے ہٹ ہوگا جو بدلتے ہوئے عالمی وعلاقائی حالات میں ہوتی نئی صف بندیوں کے حوالے سے اس امر کاخواہش مند ہے کہ پاکستان امریکی بلاک کا پرجوش حصہ بننے کی بجائے چین اور روس کے ایشیائی بلاک کا حصہ بنے؟۔
سیاسی مخالفین کیلئے یہ بھونڈی الزام تراشی نئی بات نہیں لیکن کسی نے سوچا ہے کہ زبان سب کے منہ میں ہے اور جواب آں غزل چھڑی تو کیسا سماں بندھے گا۔
بہت ادب کیساتھ مؤدبانہ درخواست ہے قدیم ملوکیت کی ماری ریاستوں کے مالکان جیسا رویہ نہ اپنائیں،
ہم 20ویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری سال میں جی رہے ہیں، دنیا بہت ترقی کرچکی، ایک کلک پر پورا جہان آنکھوں کے سامنے سکرین پر ہوتا ہے۔
الزام تراشی کی سیاست نے نفرتوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیاں اور ان دہائیوں کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔
چلیں مان لیتے ہیں سنتھیا ڈی رچی کے الزامات درست ہیں، اب سوال یہ ہے کہ 2011ء سے اب تک 9برسوں میں وہ خاموش کیوں رہیں۔
وہ امریکہ جیسے ملک کی شہری ہے، جہاں معمولی معمولی سی بات پر لوگ عدالت کا رخ کرتے ہیں۔
اسی امریکہ میں الزامات لگا کر سودے بازی ایک معروف کاروبار ہے۔
2011ء کے مبینہ واقعات میں حقیقت ہوتی تو سنتھیا ڈی رچی عدالت چلی گئی ہوتی۔
9سال بعد الزامات جن کا آغاز محترمہ بینظیر بھٹو سے ہوا، پھر بلاول پر الزام پھینکا، دونوں الزامات کو پذیرائی نہیں ملی تو مراد علی شاہ کی ایک اور شادی کروادی اس نے، پیپلزپارٹی کی ایک شخصیت نے عدالت میں کیس کرنے کیساتھ دو ریاستی اداروں سے تحریری طور پر دریافت کرلیا کہ یہ عورت کس حیثیت میں مقیم ہے۔
حساس اداروں’ شخصیات تک رسائی اور وی وی آئی پی تقریبات میں شرکت کس حیثیت میں؟
کیا اسلام آباد میں موجود دیگر غیرملکی خاتون صحافیات بھی اس اہمیت کی حامل ہیں؟
مکرر عرض کرتا ہوں فتح مند لشکر کی طرح نہیں بھائیوں کی طرح زندہ رہنا سیکھ لیجئے، یہ ہم سب کا ملک ہے یعنی 22کروڑ لوگوں کا، دستور زندگی کی ضمانت ہے، اتفاق رائے سے آگے بڑھا اور مشکلات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جو ہو رہا ہے اور جن کی سرپرستی میں ہو رہا ہے یہ نقصان کا باعث بنے گا۔ مجھے حیرانی ہے گلالئی اور ریحام خان کے الزامات کو کردارکشی قرار دینے والے تیسرے درجہ کی امریکی ماڈل کے الزامات پر ایمان لے آئے ہیں۔
بہت ادب کیساتھ برادرانہ مشورہ یہی ہے کہ خدا کیلئے ملک کو فاتحین کی جاگیر اور عوام کو مفتوحہ مال سمجھنے کی روش ترک کر دیجئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر