نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فکشن:کروناوائرس کےبارےمیں نیا انکشاف۔۔۔ مبشرعلی زیدی

کئی سال سے امیزون کے جنگلات میں تیل اور گیس کی تلاش جاری تھی۔ گزشتہ سال ایک یورپی تیل کمپنی کو کامیابی ہوئی اور بڑے ذخائر نکل آئے۔

برازیل کے امیزون جنگلات کا رقبہ پاکستان سے سات گنا زیادہ ہے۔ ان جنگلات میں ایک قبیلہ بولسینارو رہتا ہے جس کی آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ وحشی آج بھی پتھر کے دور میں زندہ ہیں اور جنگلوں اور پہاڑوں میں جھونپڑیاں بناکر رہتے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ یہ جنگلی قبیلہ آدم خور ہے۔ یہ برازیل اور ارجنٹینا میں بستیوں پر حملے کرتے ہیں اور درجنوں افراد کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں۔ پھر انھیں قتل کرکے ان کا گوشت کھاتے ہیں۔ جب انھیں زندہ انسان نہیں ملتے تو یہ قبرستان میں گھس کر لاشیں نکال لیتے ہیں۔ اسی لیے جو بستیاں ان جنگلات کے قریب قائم ہیں وہاں قبرستان نہیں بنائے جاتے بلکہ لوگ اپنے پیاروں کو کئی سو میل دور شہری قبرستانوں میں سپرد خاک کرتے ہیں۔
کئی سال سے امیزون کے جنگلات میں تیل اور گیس کی تلاش جاری تھی۔ گزشتہ سال ایک یورپی تیل کمپنی کو کامیابی ہوئی اور بڑے ذخائر نکل آئے۔ اس تلاش اور تحقیق کے دوران کمپنی کو سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آیا کہ بولسینارو قبیلے کے جنگلی شب خوب مارتے تھے اور انجینئرز اور ان کے عملے کو اٹھاکر لے جاتے تھے۔ بعد میں ان کی چبائی ہوئی ہڈیاں ہی ملتی تھیں۔
تیل کمپنی نے اس مسئلے کا حل سوچا اور اپنے ایلچی کو بولسینارو قبیلے کے سردار کے پاس بھیجا۔ ایلچی نے سردار کو پیشکش کی کہ ہم تمھیں لاکھوں ڈالر اور تیل نکلنے کی صورت میں منافع میں شراکت دیں گے۔ ہمیں یہاں کام کرنے دو۔
سردار نے کہا کہ ڈالر اور تیل ہمارے لیے بے معنی ہیں۔ خدا کا دیا وہ سب کچھ ہمارے پاس ہے جو ہمیں چاہیے۔ ہمیں صرف انسانوں کی لاشوں کی ضرورت ہے کیونکہ جب ہمیں انسان نہیں ملتے تو جانوروں کا گوشت کھانا پڑتا ہے جس سے ہم بیمار ہوجاتے ہیں۔
برازیل کی حکومت نے تیل کمپنی کی درخواست پر امیزون کے جنگلات میں آپریشن کیا لیکن اسے کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر کئی مقامات پر جنگل کو آگ لگائی گئی لیکن آدم خور قبیلے نے اپنی جگہ بدل لی اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ دوسری طرف آگ کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا میں آئیں اور ماحولیات کی تنظیموں نے ہاہاکار مچادیا جس کے بعد برازیل کی حکومت کو وہ سلسلہ روکنا پڑا۔
تھک ہار کے تیل کمپنی نے برازیل کے پڑوسی کولمبیا سے رابطہ کیا اور وہاں مافیا کو لاکھوں ڈالر دے کر گینگ وار کروائی۔ ہر ہفتے اس گینگ وار کا نشانہ بننے والے درجنوں افراد کی لاشوں کو ٹرکوں میں بھر کے امیزون کے جنگلات پہنچایا جاتا تاکہ تیل کمپنی کے کام میں رکاوٹ نہ آئے۔
گزشتہ سال تیل کمپنی کی تلاش کے نتیجے میں نہ صرف تیل بلکہ گیس کے بڑے ذخائر بھی نکل آئے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی مالیت لاکھوں ارب ڈالر ہے۔ مسئلہ بدستور وہی ہے کہ تیل کے کنوؤں اور گیس فیلڈ کی تعمیر کے لیے لاکھوں آدم خور قبائلیوں سے جنگ کی جائے یا انھیں لاشیں فراہم کی جائیں۔
بولسینارو قبیلے کے سردار سے مذاکرات ہوئے تو اس نے مطالبہ کیا کہ قبائلیوں کو ہر ہفتے بیس ہزار لاشیں فراہم کی جائیں تو وہ نہ صرف حملے نہیں کریں گے بلکہ ازخود اس علاقے سے دور چلے جائیں گے۔
تیل کمپنی نے برازیل اور ارجنٹینا کی حکومتوں سے بات کی لیکن کوئی اتنی بڑی تعداد میں لاشیں فراہم کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ آخر ایک فارماسوٹیکل کمپنی نے مدد کی اور کروڑوں ڈالر کے عوض ایک مہلک وائرس دنیا میں پھیلانے کا آئیڈیا پیش کیا۔ تیل کمپنی کو کھربوں ڈالر نظر آرہے تھے۔ اس کے لیے چند کروڑ ڈالر کی کیا اہمیت تھی۔ اس نے آئیڈیا قبول کرلیا۔
فارماسیوٹیکل کمپنی اور عالمی ادارہ صحت اس سازش میں شریک بن گئے۔ انھوں نے مختلف حکومتوں سے کہا کہ آپ وائرس کے بہانے لوگ مارتے جائیں اور پانچ ہزار ڈالر میں ایک لاش ہمیں دیتے جائیں۔ اس کے ساتھ عوام کو ڈراتے جائیں کہ میتوں کی تدفین حکومت کرے گی ورنہ وائرس پھیل جائے گا۔
یہ اس قدر بڑا عالمی منصوبہ ہے اور اس میں اتنی بڑی رقم لگی ہوئی ہے کہ چار پانچ ماہ میں چار لاکھ لاشوں کا سودا ہوچکا ہے اور کہیں شور نہیں مچ رہا۔
برازیل کے ایک بلاگر البرٹو فرنانڈز نے یہ ساری تفصیل اپنی ویب سائٹ پر لکھی تھی لیکن اس کے چند دن بعد ویب سائٹ بند ہوگئی اور بلاگر تب سے لاپتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اسے آدم خور جنگلیوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔
بلاگر نے لکھا تھا کہ آئل اور گیس فیلڈ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد نیٹو کی فوج اس کی سیکورٹی سنبھالے گی اور تب ہوسکتا ہے کہ امیزون کے جنگل میں آپریشن کرکے آدم خور جنگلیوں کو مار دیا جائے یا دور دھکیل دیا جائے۔
آئل اینڈ گیس فیلڈ مکمل ہونے میں مزید چھ ماہ لگیں گے اور تب تک ہر ماہ مبینہ وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی ایک لاکھ لاشیں برازیل جاتی رہیں گی۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت بار بار کہہ رہا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین بننے میں چھ ماہ سے زیادہ لگیں گے۔

About The Author