ماخوز: گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرکٹ ,1883
ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ موسم کے عین مطابق کپڑے پہنتے ہیں۔ان کے روزمرہ لباس میں چولا، منجھلا(کمر کس)، کندھے پر ڈالنے کیلئے چادر اور سرڈھانکنے کیلئے پٹکا(ٹوپی یاپگڑی) شامل ہے۔یہ سب چیزیں عام کپاس کے کپڑوں سے بنائی جاتی ہیں۔یہاں کے لوگ چولا،چادر اور پگڑی عموماً سفید رنگ کی استعمال کرتے ہیں جبکہ منجھلا نیلے رنگ کا ہوتا ہے،جسے مقامی زبان میں نیلا ڈیڈھا(نیلی دھوتی) بھی کہا جاتا ہے۔تھل کے باسی نیلے ڈیڈ ھے کی بجائے لائنوں والی لنگی استعمال کرتے ہیں۔یہاں کے لوگ اپنی پگڑ ی کو ہلکا سا بل دے کر اُسے سر کے اوپرلپیٹ دیتے ہیں۔شہر میں کھاتے پیتے منشی اور پڑھے لکھے بابو افراد منجھلے کی بجائے شلوار قمیض کا استعمال کرتے ہیں۔سردیوں کے دنوں میں یہاں کے لوگ اپنے آپ کو اُونی چادر سے لپیٹے رکھتے ہیں،جبکہ پٹھان لوگ پوستین(بھیڑ کے چمڑ ے کا کوٹ) اور چغہ پہن کر اپنے آپ کو سردی سے بچاتے ہیں۔
یہاں کے پٹھان قبائل میں مروت قبیلے کا لباس مقامی لوگوں یعنی جٹوں سے کافی مشابہہ ہے۔مروت بھی جٹوں کی طرز کا منجھلا باندھتے ہیں۔مروتوں کا لباس زیادہ تر میل خورے رنگوں کا ہوتا ہے جو دھول مٹی، میل ا ور گرد و غبار کو چھپاتا ہے۔یہاں کے پاوندہ پٹھان ”اندراکھا“ لباس پہنتے ہیں جو عام چولے سے زرا مختلف ہوتا ہے۔وہ کھلے پائنچوں والی شلوارٹخنوں کے نیچے تک پہنتے ہیں۔یہ لباس استرانہ،بابڑ،میاں خیل،گنڈہ پور،بلوچ اور شیرانیوں کا بھی عمومی لبا س ہے۔یہاں کے وزیر اور بھٹنی پٹھان ایک چولا پہنتے ہیں جو گھٹنوں تک لمبا ہوتاہے اوروہ اپنی ٹانگیں زیادہ تر ننگی رکھتے ہیں جبکہ اپنی کمر کے گرد ایک رسی لپیٹ لیتے ہیں۔وزیر اور بھٹنی لوگ جوتوں کی بجائے چپل پہنتے ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کے بلوچوں کا لباس بھی جٹوں کی طرح کا ہے،مگر کچھ بلوچ کلاچی کے پٹھانوں کی طرز کا کھلاٹراؤزر بھی پہنتے ہیں۔پٹھان سر پر کلا ہ باندھ کر اس کے اوپر پشاوری لنگی لپیٹتے ہیں۔اسی طرح کی ایک لنگی وہ اپنے کندھوں پر بھی ڈالتے ہیں۔
سدوزئی نوابوں خصوصاً حافظ احمد خان سدوزئی کے دور میں یہاں کے ہندوؤں پر دستار باندھنے پر پابندی عائد تھی اورانہیں صرف سر پر ایک ٹوپی رکھنے کی اجازت تھی۔طلے سے کشیدہ کاری کی گئی اس ٹوپی کو پہننے پر یہاں کے ہندوؤں کو ٹیکس دینا پڑتا تھا۔چونکہ انہیں پگڑی پہننے کی اجازت نہ تھی،اسی لیے وہ یہی ٹوپی استعمال کیا کرتے تھے۔ڈیرہ کے ہند وبھی منجھلا باندھتے ہیں مگر ان کا منجھلا باندھنے کا طریقہ مسلمانوں سے تھوڑا مختلف ہے۔
ضلع ڈیرہ کی ایک عام عورت کے لبا س میں چولی،غرارہ اورسر ڈھاپنے کیلئے بوچھنڑ شامل ہے،جبکہ پٹھان اور شہری علاقے کی عورتیں ٹخنوں تک کھلی شلوار پہنتی ہیں۔تھل کی عورت شلوار کی بجائے منجھلا باندھتی ہے۔پٹھان عورت کے علاوہ یہاں کی مقامی عورت عموماً منجھلا باندھے رکھتی ہے۔
اس ضلع کے ہندو اور مسلمان مرد کندھوں تک بال رکھتے ہیں،مگروہ ڈیرہ غازی خان کے بلوچوں کی طرح گھنگھریالے بالوں کی لٹ نہیں بناتے۔ان کا ہیر اسٹائل اطالویوں (اٹلی کے لوگوں)سے ملتا جلتا ہے۔وہ اپنے بالوں میں اُسو (تارا میرا کا تیل) لگاتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُن کے بال نرم و ملائم، گھنے اور طاقتور ہوجاتے ہیں۔
یہاں کی عورتیں ایک خاص قسم کی پہاڑی مٹی جو یہاں کے پہاڑوں پر باآسانی ملتی ہے،اس کا لیپ کرکے بالوں میں لگا کرسر دھوتی ہیں۔اس طرح ان کے بال گھنے اور ملائم رہتے ہیں۔
شادی بیاہ، عید بقرعید اور دیگر تہواروں کے موقعوں پر ڈیرہ کے لوگ ریشمی صدری(کوٹی) پہنتے ہیں۔دانتوں کی صفائی کیلئے یہاں کے لوگ کوئلے کی راکھ میں نمک اور تیل ملا کر اسے دانتوں پر ملتے ہیں،اس طرح سے ان کے دانت چمکدار اور مسوڑھے مضبوط رہتے ہیں۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے سارے ہندو داڑھیاں رکھتے ہیں۔شکل وشبا ہت میں یہاں کے مسلمانوں اور ہندوؤں میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔یہاں کے مسلمان عموماً اپنی مونچھوں کو کترتے ہیں مگر ہندو انہیں بڑھنے دیتے ہیں۔ تھل کے مگسی بلوچ قبیلے کے ہاں داڑھیا ں اور مونچھیں ترشوانا غلط تصور کیا جاتا ہے۔مگسی بلوچ ایک شیعہ قبیلہ ہے جس کے اپنے مخصوص رسم و رواج ہیں ……
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر