نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اس بار پورا جنگل جلانا ہے کیا؟۔۔۔ مرتضیٰ سولنگی

ایک طرف یہ کرونا کی وبا ہے دوسری طرف ٹڈی دل نے ملک کے واحد زرعے شعبے کو، جو مثبت زون میں تھا، اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

ہمارے حکمران آخرکار ہمیں اپنی تاریخ کے تاریک اور قیامت خیز موڑ پر لے آئے ہیں۔ بد انتظامی، کوتاہ اندیشی، نا تجربہ کاری، غیر ذمہ داری، جھوٹی انا، توہم پرستی اور منتقم مزاجی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

تباہ حال معیشت، جمہوریت کی پسپائی، وفاقیت کی ہچکیاں، دنیا بھر کی رسوائی اور تنہائی علامات ہیں اس بڑی بیماری کی، جس کے نتیجے میں اب طویل سرنگ کے خاتمے پر 21 کروڑ عوام کے سامنے سیاہ رات اپنے پر پھیلائے ہماری منتظر ہے۔

آج سے ٹھیک 102 دن پہلے پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا تھا۔ یہ سطریں تحریر کرتے وقت کرونا مریضوں کی تعداد 90 ہزار کے قریب ہے اور وہ ملک جہاں اس وائرس نے جنم لیا اور تباہی پھیلائی، یعنیٰ چین سے، کئی ہزار آگے جا چکی ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو کچھ بعید نہیں کہ یہ حکومت امریکہ میں موجود مریضوں کی تعداد کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ برے اعزاز حاصل کرنا ویسے بھی اس بدقسمت دیس کے حصے میں آتا ہے۔

اس پورے عرصے میں کرونا وبا کو پھیلانے میں اور اس کی تیز افزائش کو یقینی بنانے میں عمران انتظامیہ نے ایک قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ چاہے تفتان کی کرونا نرسری ہو، ہوائی اڈوں پر بغیر ٹیسٹنگ کے ہزاروں لوگوں کو ان کے شہروں میں جانے دینا ہو، رائےونڈ میں ہزاروں لوگوں کا اجتماع اور بعد میں انہیں ملک بھر میں پھیلانا ہو یا سندھ حکومت سے محاذ آرائی ہو، عمران انتظامیہ نے کرونا دوست پالیسیوں میں تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

ڈاکٹر، ماہرینِ وبائی امراض اور عالمی ادارہِ صحت چیختے رہے کہ شروع میں سخت لاک ڈاؤن ضروری ہے تاکہ وائرس کے ری پروڈکشن نمبر(تجدیدی استعداد کا ہندسہ) جسے ماہرین آر ناٹ بھی کہتے ہیں، ایک یا ایک سے کم رکھا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے انتظامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں وائرس میں مبتلا شخص ایک فرد سے زائد افراد کو یہ وائرس منتقل نہ کرسکے۔

ماہرین کے نزدیک اس غیر طبی طریقے سے وائرس کی تیز افزائش روک کر، اسے محدود کر کے، اسے شکست دینا تھا۔ یہ طریقہ امیر ملکوں نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا، ہانگ کانگ اور سنگاپور کے علاوہ کم امیر ملکوں مثال کے طور پر ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس اور تائیوان میں بھی کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔

عمران سرکار نے البتہ اٹلی، برطانیہ، برازیل اور امریکہ کے حکمرانوں کے قول و فعل کی سستی نقالی کرنے کی کوشش کی۔ ان ملکوں کی ترقی کی شرح اور ان کی طبی سہولیات کا ہمارے ساتھ مقابلہ ہاتھی اور چوہے کا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت، جس کے حکمران نریندر مودی بھی ذہنی استعداد میں مذکورہ بالا ملکوں سے کم اپاہج نہیں ہیں، جلدی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر لیا۔

مودی نے بھی اپنی آبادی کو بہت مشکل میں ڈالا لیکن کرونا کے آر ناٹ کو وہ ہم سے نیچے لے گئے اور تو اور بھارتی پنجاب نے کرونا کی افزائش کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ ہمارے پنجاب کے وسیم اکرم پلس نے ماہرین کی 15 مئی کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، جن میں صرف لاہور شہر میں دو ہفتے سخت لاک ڈاؤن کا مشورہ دیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق مئی کے پہلے ہفتے تک صرف لاہور میں چھ لاکھ 70 ہزار لوگ کرونا کے مرض میں ممکنہ طور پر مبتلا ہو سکتے تھے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ 11 کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے میں آج جون کی چھ تاریخ کو کتنے لوگ کرونا میں مبتلا ہو چکے ہوں گے۔

یہ خطرہ اس لیے ہے کہ نہ ریاست خود ٹیسٹنگ کر رہی ہے اور نہ لوگوں کو اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو ہدایت دے رہی ہے کہ وہ ٹیسٹنگ کروائیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرما دیا کہ وہ ہر آدمی کا ٹیسٹ نہیں کر سکتے اس لیے کہ اس سے صوبائی حکومت کا خرچہ آتا ہے۔ ’ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔‘ یہ سطریں تحریر کرتے وقت پاکستان نے اب تک صرف 0.3  فیصد آبادی کو ٹیسٹ کیا تھا۔

کئی نجی ادارے جن میں گیٹز فارما بھی شامل ہے، اپنے طور پر اپنے تمام ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی ٹیسٹنگ کر چکے ہیں لیکن عمران سرکار، جس نے کاروباری ادارے کھول دیے، کھولنے کے اس عمل کو ٹیسٹنگ سے مشروط نہ کیا۔

ان ساہوکاروں اور صنعتوں کو اربوں روپے کی سبسڈی اور رعاتیں دینے والی سرکار نے لاکھوں محنت کشوں کی زندگیوں کو سرمایہ داروں کے منافعے میں اضافہ کرنے کے لیے قربان کردیا لیکن ان کی زندگیوں کی ذرہ برابر پروا نہ کی۔ الٹا عمران خان اور ان کے ہمنوا توشروع سے ٹیسٹنگ کے مخالف رہے ہیں، جو وبا سینکڑوں پاکستانی ہڑپ کر چکی ہے، ملک کے وزیر اعظم کے بقول معمولی نزلہ ہے۔

اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ کرونا کو شکست دینے کے مشن پر مامور وفاقی وزیر اسد عمر کرونا کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے کہ سڑک کے حادثات میں زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ ان کے لگائے گئے سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے کہا کہ یورپ اور امریکہ کی نقالی کرتے ہوئے ہمیں نقالی نہیں کرنی چاہیے۔ نقالی البتہ انہوں نے امریکہ کی ضرور کی۔ یہ نقالی تھی ٹرمپ اور ان کی پالیسیوں کی۔

چین کے راستے پر چلنے کے دعوے کرنے والی سرکار ووہان کے ماڈل پر نہ چلی، وہ چلی تو واشنگٹن کے ناکام ماڈل پر۔ خرم شیر زمان  نے، جو سندھ میں علم کے موتی بکھیر رہے ہیں، جیو ٹی وی کے صبح کے پروگرام میں اعتماد کے ساتھ فرما دیا کہ پاکستان میں داخل ہونے والا کرونا سی گریڈ (تیسرے درجے) کا اور کمزور ہے۔ انصافی رہنما جو شاید خود کو ماہرِ وبائی امراض بھی سمجھتے ہیں، جہالت کا وہ مظاہرہ کیا کہ ہم اب دانتوں میں انگلی دبا کر بیٹھے ہیں اور حیران ہیں کہ اس پستی کے آگے کیا ہے؟

رہی سہی کسر عمران خان نے جمعے کو یہ کہہ کر پوری کر دی، جس میں انہوں نے ٹائیگر فورس کے ارکان سے مخاطب ہوتے ہوئے تسلیم کیا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ جب لاک ڈاؤن ہٹائیں گے تو کرونا پھیلے گا، ہم کرونا کو روک نہیں سکتے۔‘

کرونا کے بارے میں حکومتی عمائدین کے غیر سنجیدہ بیانات، عمل اور پورا ملک کھول دینے کے بعد عوام کی اکثریت نے بھی اس کے بارے میں انتہائی غیر سنجیدگی اپنا لی ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر، نرسیں اور دوسرا پیرا میڈیکل سٹاف جو پہلے ہی حفاظتی آلات نہ ملنے کی وجہ سے خود تیزی سے اس بیماری کا شکار ہو رہا ہے، اپنے آپ کو اب غیر محفوظ بھی سمجھتا ہے۔

کئی ہسپتالوں میں ہجوم نے کرونا سے مرنے والے لوگوں کی لاشیں، طبی ہدایات کے برعکس لینے کے لیے قیمتی آلات توڑ دیے اور ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل سٹاف اور دوسرے عملے پر تشدد کیا۔ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔

ایک طرف یہ کرونا کی وبا ہے دوسری طرف ٹڈی دل نے ملک کے واحد زرعے شعبے کو، جو مثبت زون میں تھا، اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب فوج کے سربراہ ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے والے سینٹر میں جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے فوج نے موجودہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی تشکیل کی تھی۔

معیشت کا کیا حال ہے؟ اس سے اندازہ لگائیں۔ صرف ایک ہفتے میں غیر ملکی زرمبادلہ میں ایک ارب 70 کروڑ ڈالرز کی کمی آئی ہے اور اس وقت ملک میں غیر ملکی زر مبادلہ صرف 10.40 ارب ڈالرز رہ گیا ہے۔ ہاٹ منی کو پر لگ چکے ہیں اور یورو بانڈ بیچنے کی تیاری ہے۔

آئی ایم ایف نے سخت شرائط عائد کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ اور سرکاری مشینری کی تنخواہوں اور دفاعی اخراجات میں کم از کم 1150 ارب روپے کی کٹوتی کریں۔ انصافی سرکار کے دوسرے سال میں بیروزگاری میں %8.53 اضافہ ہوا ہے۔

تاہم اس ہفتے کی سب سے بڑی خبر پاکستان سٹیل ملز کے تقریباً 10 ہزار ملازمین کو بیروزگار کرنے کا حکومتی اعلان ہے۔ بیمار سرکاری اداروں کو ملیشیا کے ماڈل پر سرمایہ کمپنی بنا کر صحت مند کرنے کے وعدے والی سرکار، جو ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وچن کر کے اقتدار میں آئی تھی اب ہزاروں لوگوں کو بیروزگار کرنے لگی ہے۔

اسد عمر اور عمران خان کی حکومت میں آنے سے پہلے سٹیل ملز کے مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کی تقریریں اب سوشل میڈیا پر ان کا منہ چڑا رہی ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اس معاملے کو حل کرتی ہے یا کوئی اور سبیل سامنے آتی ہے۔

کراچی، لاہور اور اسلام آباد ایئرپورٹس کی انتظامیہ قطر کے حوالے کرنے کی خبریں ہیں۔ روزویلٹ ہوٹل بیچنے کی خبریں پہلے ہی آ چکی ہیں۔ دوسری سرکاری زمینیں بیچنے کی باتیں سامنے آ چکی ہیں۔ سٹیل ملز کی زمین بیچنے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ یقینی طور پر سندھ حکومت اس کی مزاحمت کرے گی۔

افغانستان میں ٹرمپ انتظامیہ کی مدد کرنے کے باوجود پاکستان کے لیے خارجہ محاذ پر کوئی آسانی پیدا نہیں ہوئی۔ کشمیر میں ٹرمپ کی مصالحت پر عمران سرکار اور ملتانی پیر کی بغلیں بجانے کا نتیجہ ہم نے دیکھ لیا ہے۔ اب بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ روز کا معمول بن گئی ہے۔

عمران خان، شاہ محمود قریشی اور دفاعی تجزیہ کار کسی بھی وقت بھارت کے ساتھ نئی محاذ آرائی کی بات کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ چند ماہ میں بھارت ایک فالس فلیگ آپریشن کرنے والا ہے۔

اس پورے ماحول میں بجائے درجہ حرارت کم کرنے اور قومی بیانیہ بنانے کے، عمران سرکار حزب اختلاف اور تنقیدی آوازوں کو نیب سمیت دوسرے اداروں کی مدد سے دبانے میں مصروف ہے۔ پہلے بھی کہا تھا اور آج پھر کہتے ہیں کہ جب آپ پریشر ککر کوٹھونس کر بھر لیں، اوپر بھاری وزن رکھ لیں تو آنچ کو مسلسل نہ بڑھائیں۔ دنیا بھر میں اس طرح کے کام کا جو نتیجہ نکلا ہے، یہاں بھی وہی نکلے گا۔

آئن سٹائن نے ٹھیک کہا تھا کہ ہر بار وہی کام کرنا اورہر بار مختلف نتائج کی توقع رکھنا پاگل پن ہے۔ ماؤ زے تنگ نے ٹھیک کہا تھا کہ ایک چنگاری پورے جنگل کو جلا سکتی ہے۔ یہاں تو یہ لوگ پورے مشعل بردار جلوس کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔

About The Author