حالات کس طرف جارہے ہیں، حکومت کیا چاہتی ہے، عوام الناس کے مختلف طبقات کیا سوچ رہے ہیں، افواہوں اور نوٹنکی بازوں کی بے لگامی کا سبب کیا ہے؟
ان چھوٹے چھوٹے سوالوں کا سادہ جواب پنجابی زبان کے مشہور گیت کے ایک مصرعہ میں ہے۔ چُپ کر دڑ وٹ جا، عشق دا نہ کھول خلاصہ” (خاموش رہو ایسے جیسے منہ میں زبان ہی نہ ہو، ایک طرف ہو لو، عشق کا خلاصہ یعنی واردات عشق بیان کرنے کی ضرورت نہیں)
ہمارے محبوب وزیراعظم نے سوموار کی شام کہہ دیا
”پہلے دن سے کہہ رہا ہوں مکمل لاک ڈاؤن حل نہیں، کورونا نے مزید پھیلنا ہے، اموات بھی بڑھیں گی، وائرس اور غربت دونوں مسئلہ ہیں”۔
ان کا ارشاد بجا ہے اور بھی غم ہیں زمانے میں کورونا کے سوا۔
اب کب تک گھروں میں دبک کر بیٹھ رہا جائے، زندگی کی گاڑی چلانی تو بہرطور ہے جو زندہ بچ گئے وہ چلالیں گے اور سپیڈ وقت کے حساب سے رکھ لیں گے۔
یہ فیصلہ بہت عجیب ہے کہ ہفتہ میں 5دن احتیاطی تدابیر کیساتھ شام 7بجے تک کاروبار زندگی ہوگا، ہفتہ اور اتوار لاک ڈاؤن ہوگا۔ وزیراعظم نے سیاحت کا شعبہ کھولنے کا اعلان کیا ہے، سیاح کیا دیکھنے آئیں گے، ہماری اجتماعی بے حسی؟
ویسے سیاح آئیں گے کہاں سے، دنیا بھر میں بین الاقوامی پروازیں بند ہیں، محدود پیمانہ پر جو پروازیں چل رہی ہیں وہ ایک دوسرے کے ہاں پھنسے ہوئے شہریوں کو نکالنے کیلئے ہیں۔
ہمارے تو وزیر ہوابازی کہہ چکے ہیں
”جو مہنگی ٹکٹ نہیں خرید سکتا خوشی سے وہیں پڑا رہے جہاں ہے ملک واپس آنے کی ضرورت نہیں”
یعنی 6سو ریال کا ٹکٹ 22سو ریال میں نہ خرید سکنے والے جائیں بھاڑ میں، نیلے آسمان کے نیچے کوئی ہے جو وزیر ہوابازی کو جا کر بتائے یہی مہنگی ٹکٹ نہ خرید سکنے اور تین ماہ سے بیرون ملک (خصوصاً عرب ریاستوں میں) بیروزگاری اور مصائب کا عذاب سہتے محنت کش ہی ہیں جو سالانہ تین سے چار ارب ڈالر زرمبادلہ فراہم کرتے تھے۔
اپنے ان محنت کش محسنوں کیساتھ ہم کیا سلوک کر رہے ہیں، سوشل میڈیا نے سارے راز چوراہوں پر عیاں کر ڈالے ہیں۔ تپتی دھوپ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں بے یار ومددگار محنت کش پاکستانی عرب ریاستوں میں پاکستانی سفارتخانوں کے باہر بیٹھے حسرت سے سفارتخانوں کی عمارتوں کو تکے جاتے ہیں۔
قومی رابطہ کمیٹی کے دانا کہتے ہیں ڈاکٹر اور صحت کے عملے پر کم سے کم بوجھ ڈالیں گے، اُدھر لاہور میں پنجاب کی وزارت صحت نے وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی سمری میں لکھا ہے کہ صرف لاہور میں کورونا کے 6لاکھ 70ہزار اصل نئے مریض موجود ہونے کا اندیشہ ہے۔
سندھ کے ارسطو گورنر عمران اسماعیل کہتے ہیں لاک ڈاؤن ”فیشن” ہے اور کچھ نہیں۔
پچھلے 24گھنٹوں میں 75اموات ہوئیں، 3270 نئے مریض سامنے آئے، 26ہزار مریضوں کے صحت یاب ہونے کے باوجود مریضوں کی مجموعی تعداد 74ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ جان کی امان ہو تو عرض کروں ہمیں انسانیت سے زیادہ معیشت کا غم کھائے جارہا ہے۔
عوام تو بدحالی کو اب بھی بھگت ہی رہے ہیں اصل مسئلہ اشرافیہ کے حکمران طبقات کا ہے جو عوام کے خون پسینہ کی کمائی پر پلتے ہیں ہمیشہ سے۔
مکرر عرض کروں وفاق کی حکمران اشرافیہ کا مخمصہ ابھی ختم نہیں ہوا، کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم نے معمولاً تین ماہ اور خصوصی طور پر اڑھائی ماہ برباد ہی کر ڈالے۔
کاش کسی نے ابتداء ہی میں 4ہفتوں کا سخت لاک ڈاؤن کروا لیا ہوتا۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کروانے والے عبادات کے نام پر یا عید کے کاروبار کے نام پر ہر دو مجرم ہیں۔ کچھ مجرم اور بھی ہیں مگر کیا کیا جائے، میں اور آپ ان کے بارے میں دو حرف بول لکھ نہیں سکتے ”شان” میں گستاخی ہوتی ہے۔
”شان” والوں نے زمینی حقائق کی بجائے سطحی جذباتیت کا مظاہرہ کیا، بھگتیں گے عام طبقات کے شہری وہ بھگت ہی رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ”دکھ جھیلے بی فاختہ کوے انڈے کھائیں”
پانچ دن جب کاروبار ہوگا تو کیا کورونا بھارت، نیپال، سری لنکا کی سیر وتفریح کیلئے جائے گا اور ہم سے اس نے یہ طے کر لیا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو چکر لگایا کرے گا۔
کورونا نہ ہوا گلی محلوں میں دنوں کے حساب سے چکر لگا کر آوازیں لگانے والے ککر، نلکوں اور دوسرے کاموں کے مستری ہوئے۔ اب کورونا بھی ہفتہ اور اتوار کو آوازیں لگایا کرے گا، ادھر اُدھر ہو جاؤ پیارے پاکستانیوں۔
چلیں اس موضوع کو ایک طرف رکھتے اور کچھ اور باتیں کرتے ہیں
”جب حکومت ہی سنجیدہ نہیں تو ہم کیوں سر کھپاتے رہیں”
وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے ایک بار پھر ”عارضی” استعفیٰ دیدیا ہے، سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ لڑنا ہے انہیں، بعد میں پھر وزیر بن جائیں گے۔ لگتا ہے ملک میں ان سے زیادہ قابل وکیل کوئی نہیں یا یہ بتانا مقصود ہے۔
”یہ حکومت کا وکیل ہے خیال رہے کل دوبارہ وزیرقانون ہوگا”۔
امریکہ میں ایک سیاہ فام شہری کی پولیس تشدد سے ہونے والی ہلاکت کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، سوموار کے روز صدر ٹرمپ مظاہرین کے خوف سے ایک گھنٹے تک وائٹ ہاؤس کے بنکر میں چھپے رہے۔
سیاہ فام ہم وطن کی ہلاکت پر امریکی معاشرے کے ردعمل کا مثبت پہلو یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں میں کالے گورے امریکی شامل ہیں۔
منفی پہلو یہ ہے کہ مظاہرین بھی تیسری دنیا کے لوگوں کی طرح نکلے، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار سے انہوں نے ثابت کیا بندے سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
اسی طرح مظاہرین سے نمٹنے والی پولیس اور نیشنل گارڈ کے دستوں کا رویہ بھی تیسری دنیا کے پولیس والوں اور پیرا ملٹری فورسز جیسا ہی دکھائی دیا۔
البتہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے سستے انقلابیوں کو خواب دکھنے لگے ہیں کہ امریکہ ٹوٹنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اچھل کود رہے ہیں، بچگانہ تجزئیے اور تبصرے ہیں۔
کچھ سنجیدہ تجزیہ نگار( امریکی وغیرامریکی) یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کو پھیلانے اور بھڑکانے میں امریکی ریاست کے کچھ کردار بھی شامل ہیں۔
یہ وہ لوگ یا ادارے ہیں جو صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو امریکہ کے جمہوری، معاشی اور عالمی مستقبل کیلئے خطرناک سمجھتے ہیں۔
ان تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اجتماع جس طور منظم انداز میں پھیلا یہ پس پردہ کرداروں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
حرف آخر یہ ہے کہ کورونا وباء کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے، انفرادی واجتماعی احتیاط اب لوگوں پر فرض ہے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ وبا سے بچ گئے تو زندگی ہے اور زندگی کے معاملات بھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت وضاحت کرے کہ اب تک ملنے والی بیرونی امداد میں سے کتنی این ڈی ایم اے کو دی اور کتنی چاروں صوبوں کو؟۔
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے حاجی گلبر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان منتخب
سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی نیب آفس طلبی