ابتدا میں کورونا نے جب چین میں پنجے گاڑے تو ہم دیسی لوگ ٹھٹھا کر نے لگے کم بخت چائینز حرام کھاتے ہیں اس وجہ سے اس مرض کا شکار ہوۓ ہیں ہمارے تو گماں میں بھی نہ تھا کہ یہ ان دیکھا وائرس سبک رفتاری سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور بڑا سم قاتل ثابت ہو گا
قیاسات و شبہات کا عنصر تو انسانی فطرت کا حصہ ہے ہماری دانست کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھتی اور نہ ہی تسلیم کرتی ہے۔
پہلے تو ہم نے کورونا کو بدیسی بیماری تصور کرنے لگے ہمارا اس سے کا ہے کا تعلق؟
ہم سے کیا پلے باندھنا ۔جن کے ہاں تخلیق ہوئی ہے انہی کے گلے پڑے گی۔ ان کے دست و گریباں ہوگی ،یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک تھیں کیونکہ کورونا سے ہمارا واسطہ غالباً خال خال نظر آ رہا تھا۔
پھر اچانک پاکستان میں ماہ فروری میں جب کورونا کا پہلا مصدقہ کیس سامنے آیا تو لوگ سراسیمہ ہوگئے ،کھلبلی مچ گئی۔
پھر وہ من گھڑت باتیں اور تاویلیں بھی آشکار ہوئیں ۔پتہ چلا کہ کورونا کا تو کوئی مذہب نہیں وہ تو حلال حرام میں بھی تمیز نہیں کر رہا،اس ان دیکھے وائرس کا شکار کوئی بھی کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔پاکستان میں لوگ اس وبا سے خائف تو ضرور تھے مگر معمولات زندگی کو بھی بر قرار رکھا ہوا تھا سب کچھ پہلے کی طرح چل رہا تھا کیونکہ بنسبت دیگر ممالک کے پاکستان میں متاثرین کا تناسب کم تھا۔
پھر جب کورونا برق رفتاری سے بڑھنے لگا تو حکومت نے لاک ڈاون کا اعلان کر دیا
لوگ کئی دنوں تک گھروں میں بیٹھے رہے کہ کہیں خطرہ ٹل جاۓ لیکن لاک ڈاٶن کی ہر ڈیڈ لائن کے بعد دوسری ڈیڈ لائن ملتی رہی۔ کورونا اپنی روش بدلنے کو تیار ہی نہیں۔
لاک ڈاون ایس او پیز سب دھرے کے دھرے رہ گئے اب معاشی پیہہ چلانا بھی تو لازمی تھا کب تک ہم کورونا کے معدوم ہونے تک پیٹ کاٹتے اور کم بخت سب سے بڑی بیماری تو بھوک ہے سو عید کے قریب آتے ہی لاک ڈاون میں نرمی کا اعلان کیا گیا لوگوں کے ایک اژدھام نے بازاروں کا رخ کیا ایک دم یوں لگا کہ باڑ سے بھیڑوں کو نکال دیا گیا ہو ایس او پیز کی تو دھجیاں اڑائی گئیں
ایک جان پہچان والے دکاندار نے بتایا کہ ماضی کی عیدوں سے اس عید پہ اس نے زیادہ کمایا ہے لوگوں نے جو لاک ڈاون کے دوران پیسے جمع کر رکھے تھے اسے بے دریغ لٹایا۔
عید کے ان تینوں دنوں میں لوگوں کا رش معمول سے زیادہ رہا۔نتیجتاً کورونا سبک رفتاری سے پھیلنے لگا۔
اب بعض کہتے ہیں کہ کوئی راہ بھی تو نہیں کہ ہم کب تک خود کو گھروں میں قید رکھیں ان کی بات اپنی جگہ صائب ہے لیکن احتیاط بھی ضروری ہے کیونکہ کورونا ابھی گیا نہیں،وہ ابھی تک ہمارے مابین ہے۔
ہم شتر بے مہار بازاروں کو لتاڑنے سے اجتناب کریں جس طرح بے احتیاطی ایامِ عید میں اپنائی گئی پھر نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
لوگوں میں واقعی وہ پہلے سی جھجھک نہیں رہی کورونا کا خوف ان کے من سے نکل چکا ہے وہ اب زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ پوری دنیا کورونا کی وباء کا شکار ہے، تاحال اس سے بچاؤکے لیے کوئی دوا یا ویکسین تیار نہیں کی جاسکی ہے۔
سوشل میڈیا سے لے کر عام آدمی کی بیٹھک میں موضوع سخن تو کورونا وائرس ضرور ہے، لیکن جس طرح لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ہم نے احتیاطی تدابیرکونظراندازکیا وہ انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ عیدگزرے چند دن ہوئے ہیں، شاپنگ کے دیوانوں نے جس طرح احتیاطی تدابیر کو اپنے پاؤں تلے روندا، اس کے انتہائی بھیانک نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ہمارے عوام میں یہ شعور بیدار کیا جانا چاہیے کہ ہمارا ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے، ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے لہذا ہمیں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔
اس بحرانی کیفیت اور وبا سے نمٹنے کے لیے پوری قوم کو ایک پیج پر آنا ہو گا تب جا کر اس وبا کا قلع قمع کرنے کا تصور ممکن ہو سکتا ہے۔
اگر صورتحال اور ہماری روش بدستور معمول کی رہی تو سخت لاک ڈاون تو بنتا ہے پھر حکومت کا کیا دوش۔۔
قیاسات و شبہات کا عنصر تو انسانی فطرت کا حصہ ہے ہماری دانست کسی بھی بات کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھتی اور نہ ہی تسلیم کرتی ہے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی