نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سماعت کا احوال

فروغ نسیم نے کہاجسٹس قاضی فائز عیسی بنک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، میرا ایک لائن کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت  سے ایسٹ ریکوری یونٹ ( اے آر یو )کہ جانب سے وصول کی گئی شکایتیں ان پر لیئے گئے ایکشن کی تفصیلات  طلب کرلیں

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ  نےسماعت کی ۔

وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے روسٹرم پر آکر کہا عدالتی سوالات کا جوابات دینے سے قبل چند حقائق عدالت کے سامنے رکھوں گا، 10 اپریل 2019 کو وحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی،8 مئی کو وحید ڈوگر نے لندن پراپرٹیز کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا. ڈوگر نے خط میں لندن پراپرٹیز کی قیمت خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فروغ نسیم صاحب یہ بتائیں لندن پراپرٹیز کی  معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں؟وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی؟اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا؟

فروغ نسیم نے کہا عدالت کے تمام سوالات کے جوابات میرے پاس ہیں، اے آر یو نے کیسے سارے معاملے کی انکوائری کی، عدالت کو سب بتاؤنگا ،1988 کے بعد برطانیہ میں ہر پراپرٹی کا ریکارڈ اوپن ہے،اے آر یو کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے،اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا  گیا۔ الزام ہے کہ لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی گئی ، جو ظاہر کرنا چاہیے تھی۔

فروغ نسیم نے کہاعدالت کی بات بالکل ٹھیک ہے,قاضی فائز عیسی کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی ، قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے 2014 میں آمدن 9285 ظاہر کی, 2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی پراپرٹی خرید سکتے تھے ، 2011 اور 2013 میں بچوں کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا ،

جسٹس مقبول باقر نے کہا ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی۔

فروغ نسیم نے کہا ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی،

جسٹس مقبول باقر نے کہا ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟

فروغ نسیم نے کہا ایف بی آر حکام کو خوف تھا جج کے خلاف کارروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ بھی ذہن میں رکھیں ہر ایک کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق ہے،مقدمہ کے حوالے سے ہر ایک چیز کا جائزہ لیا جائے گا۔کسی نقطہ کو بغیر جائزہ لئے نہیں چھوڑا جائے گا، یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت تھے یا نہیں تھے، اس سارے معاملے میں کسی چیز کو کٹ شارٹ نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے نام کا پتا کیسے چلا؟

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا وحید ڈوگر کو تو جسٹس قاضی فائز عیسی کے نام کے اسپیلنگ نہیں آتے،جب نام کے اسپیلنگ درست نہیں ہونگے تو ویب سائٹ پر سرچ کیسے ہو سکتا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ وحید ڈوگر کس میڈیا کیلئے کام کر رہا ہے؟وحید ڈوگر کا ماضی کیا ہے؟ وحید ڈوگر کی درخواست پر بڑی تیزی سے کام کا آغاز ہوگیا۔

فروغ نسیم نے کہا عدالتی فیصلہ کے مطابق مجھے معلومات کو دیکھنا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کیا وحید ڈوگر کو غائب سے معلومات ملیں؟اس ملک میں بہت سے کام غائب سے ہوتے ہیں، اے آر یو کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وحید ڈوگر کے کوائف کا جائزہ لینا ضروری نہیں تھا؟

فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکوائری کے لیے صدر مملکت کی اجازت درکار نہیں تھی۔ وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اے آر یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا لندن کی ایک پراپرٹی 2004 میں خریدی گئی۔

فروغ نسیم نے کہا پہلی پراپرٹی 2004 میں  خریدی گئی، 2011 میں بیٹی کا نام جائیداد میں شامل کیا گیا،جوڈیشل کونسل نے ریفرنس دائر ہونے پر معزز جج کو نوٹس جاری نہیں کیا،جوڈیشل کونسل نے پہلے اٹارنی جنرل کا موقف سنا ، پھر جسٹس قاضی فائز سے جواب مانگا،جسٹس قاضی فائز عیسی نے ابتدائی جواب میں پراپرٹی سے انکار نہیں کیا، جوڈیشل کونسل نے 12 جولائی 2019 کو جج صاحب کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی ، آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے، غیر ملکی جائیدادیں بچوں کے نام خریدی گئیں،2009 میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی آمدن 3 کروڑ 72 لاکھ تھی،بظاہر لگتا ہے بطور وکیل جسٹس قاضی کے پاس کافی پیسہ تھا وہ کامیاب وکیل تھے، ہمیں جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں،ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے۔

بنچ کے سربراہ نے کہا جج شیشے کے گھر میں رہتے ہیں لیکن وہ جوابدہ ہیں،آئین ججز کو ذاتی حملوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے، کچھ ایسا دکھائیں جس سے پتہ چلے یہ جائیداد جج صاحب نے خاندان کے افراد کے نام خریدی۔

فروغ نسیم نے کہاجسٹس قاضی فائز عیسی بنک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، میرا ایک لائن کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اگر پیسہ بینکوں کے ذریعے گیا ہے تو منی لانڈرنگ کی تعریف کیا ہوگی؟

فروغ نسیم نے کہا دوسرے جج نے تو دھرنا کیس کا فیصلہ نہیں دیا حکومت نے انکے خلاف بھی ریفرنس فائل کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے زرعی زمین پر ایگری کلچرل ٹیکس دینے کا ریکارڈ نہیں دیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا جواب دینے کے بجائے آزاد عدلیہ کے پیچھے چھپنے کا سہارا لیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ریفرنس کی کارروائی کو زیر بحث لائیں،صدر مملکت نے جب ریفرنس کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟

جسٹس مقبول باقر نے کہا صدر مملکت نے ریفرنس کے حوالے سے معلومات خود حاصل نہیں کیں۔

فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی آج منی ٹریل دے دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا قانون کے تحت جج صاحب منی ٹریل دینے کے پابند ہیں؟ آپ سوال پر آتے نہیں اور قانون بھی نہیں دکھا رہے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا انکم ٹیکس کا نوٹس جج کی اہلیہ کو جاری کیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نےکہا جج کہتا ہے کہ پراپرٹیز کا مجھ سے نہیں متعلقہ لوگوں سے پوچھیں، آپ کہتے ہیں کہ جواب جسٹس قاضی فائز عیسی دے؟

جسٹس مقبول باقر نے کہا ایف بی آر میں انکم ٹیکس کا معاملہ کس مرحلے میں ہے ؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھاکیا ایف بی آر میں غیر ملکی جائیداد ظاہر کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے ؟

فروغ نسیم نے کہا جج کے بچے ٹیکس ایمنسٹی کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔

جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کیا یہ ٹیکس چوری کا مقدمہ ہے؟

فروغ نسیم نے کہا  جوڈیشل کونسل کے سامنے جج کا مقدمہ ہے ،بھارت میں جج کی اہلیہ اور بچوں کے نام اثاثے تھے،تحقیقات شروع ہوئیں تو بھارت کے اس جج نے استعفی دے دیا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کیا پاکستان کے قانون میں جج پر جائیداد ظاہر کرنے کی پابندی نہیں ہے؟بھارت کے قانون کو چھوڑیں پاکستان کے قانون کی بات کریں۔  ایمنسٹی اسکیم کا حوالہ دلائل میں کیوں دیا گیا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس مقدمے سے ایمنسٹی کا تعلق کیا ہے,کیا جج نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے؟

فروغ نسیم نے کہا جج صاحب نے ایمنسٹی اسکیم سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا قانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے,سیکشن پانچ کے تحت جج کیلئے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے۔

فروغ نسیم نے کہا عدالت کے سوالات کا جواب دوں گا پہلے مجھے حقائق بیان کر لینے دیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا  کیا سپریم جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس مسترد کر سکتی ہے؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا جوڈیشل کونسل ریفرنس کو مسترد کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے ریفرنس پر ایسی ڈکلیریشن دے سکتی ہے،کیا جوڈیشنل کونسل کی ڈکلیریشن اور آبزرویشن کے نتائج نہیں ہو‌ں گے؟

فروغ نسیم نے کہا آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے سفارشات دینی ہوتی ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے تحت جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت کے عمل کا جائزہ نہیں لے سکتی، میرے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی ہے،

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فروغ نسیم آپ کل اے آر یو کہ جانب سے وصول کی گئی شکایتیں ان پر لیئے گئے ایکشن کی تفصیلات بتائیں۔

کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک کے لئے ملتوی کردی گئی ۔

قاضی فائز عیسی کی درخواست پر گزشتہ روز کی سماعت کا احوال

سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم سے چار سوالات پر جواب اور دلائل طلب کر لیے ۔
عدالت نے کہا الزام ہے کہ مواد غیر قانونی طریقے سے اکھٹا ہوا ،آپ نے مواد کو غیر قانونی اکھٹا کرنے پر دلائل دینے ہیں، شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی؟ شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی،ان سوالات کے جوابات دینے ہیں،

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر کی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت جسٹس عطا محمد بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بنچ نے کی ۔
سابق وفاقی وزیر قانونی فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے اور روسٹرم پر آکر کہا کہ ’’وفاق کی جانب سے اس کیس میں پیش ہو رہا ہوں۔‘‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس شروع کرنے سے قبل کہونگا کہ سماجی فاصلے کو قائم رکھے۔ جو لوگ جڑ کر بیٹھے ہیں ان سے کہونگا کہ فاصلہ قائم رکھیں۔

فروغ نسیم نے کہا کہ میں وفاق اورشھزاد اکبر کی عدالت میں نمائندگی کروں گا۔میرے حوالے سے عرفان قادر میرا وکیل اس کیس میں ھوگا۔

درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر ملک نےفروغ نسیم کی پیش ہونے پر اعتراض کردیا۔۔اور کہا کہ فروغ نسیم کا پیش ہونا قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔فروغ نسیم کا بڑا احترام ہے لیکن انکی جانب سے وفاق کی نمائندگی پر اعتراض ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم کو پیش ہونے کے لیے اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا،رولز وفاقی حکومت کو نجی وکیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اٹارنی جنرل آفس سے کوئی سرکاری وکیل پیش ہونے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اٹارنی جنرل کو سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ سے کہوں گا اعتراض نہ اٹھائیں اور کیس کو آگے بڑھنے دیں،موسم گرما کی تعطیلات بھی شروع ہونیوالی ہیں،ہم کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ میں نے تحریری طور پر عدالت کو اعتراضات سے آگاہ کر دیا ہے،تمام اعتراضات آئین و قانون اور سپریم کورٹ کے قوائد کے مطابق ہیں،عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا عدالت خود اعتراضات دیکھ لے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ میرے اوپر جو اعتراضات اٹھائے گئے انکی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے،رشید احمد کیس میں اس سے متعلق وضاحت ہوچکی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سابق اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے،سابق اٹارنی جنرل کے استعفی کے بعد فروغ نسیم پیش ہو رہے ہیں،منیر اے ملک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑیں ،مناسب فیصلے تک پہنچنے کے لیے ہمیں معاونت درکار ہے،مناسب ہو گا آپ اپنے اعتراضات واپس لیں بصورت دیگر ہم فیصلہ دیں گے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ ملک میں نافذ قانون پر عمل ہونا چاہیے۔ یہ انصاف اور شفافیت کا مقدمہ ہے۔
فروغ نسیم نے کہا اٹارنی جنرل نے مطلوبہ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا سرٹیفیکیٹ ریکارڈ پر لے کر آئیں،سرٹیفکیٹ کے ریکارڈ پر آنے کے بعد فیصلہ کریں گے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی تحریری درخواست کی زبان پر اعتراض ہے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم آپ مقدمے کے میرٹ پر بات کریں، درخواست میں کیا کہا گیا ہے اسے چھوڑیں۔
فروغ نسیم نے کہا لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں،اس حقیقت کو درخواست گزار تسلیم کر چکے ہیں، عدالت کے سامنے آرٹیکل 209 کے تحت جج کے مس کنڈکٹ کا معاملہ ہے، اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں،سوال منی ٹریل کا ہے،پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا؟
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے،معزز جج کی معاشرے میں بڑی عزت و تکریم ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں۔ پہلے یہ بتائیں جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسی کی ہیں؟

فروغ نسیم نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے کہ جائیدادیں انکی نہیں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ میرا بیٹا کوئی جائیداد خرید لیتا تو کیا اسکا جواب دہ میں ہوں گا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے بچے اور اہلیہ انکے زیر کفالت ہیں تو ثابت کریں۔
فروغ نسیم نے کہا بچے اور اہلیہ زیر کفالت نہیں تو درخواست گزار پرذمہ داری ہے بتائے کن وسائل سے جائیدادیں خریدیں۔ شوکاز کا جواب دینے کے بجائے اسکے خلاف درخواست دائر کر دی گئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معزز جج کہتے ہیں منی ٹریل اور وسائل کا بچوں اور اہلیہ سے پوچھا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جس کے نام جائیدادیں ہیں ان کو نظر انداز کر کے دوسرے سے سوال کیسے پوچھا جا سکتا ہے؟
جسٹس قاضی امین نے کہا وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے؟کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے؟کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟
جسٹس منیب اختر نے کہا آپ دلائل سے جو کیس بتا رہے ہیں وہ ریفرنس سے مختلف ہے،آج آپ انکم ٹیکس قانون کی بنیاد پر کیس بتا رہے ہیں،ریفرنس میں انکم ٹیکس قانون کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔
فروغ نسیم نے کہا جوڈیشل کونسل کا کام ہے ریفرنس خارج کرے یا منظور کرے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا پہلے ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہونے کے نکتے پر دلائل دیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ آئینی درخواست میں ریفرنس پر بحث علمی حیثیت کی ہوگی۔ جوڈیشل کونسل ریفرنس کا جائزہ لیکر مسترد کرسکتی ہے،جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل اور معزز جج کو سننے کے بعد شو کاز نوٹس کیا۔
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ شوکاز نوٹس کی اپنی اہمیت ہے،درخواست میں بدنیتی کا الزام بھی ہے،معزز جج کے وکیل نے شو کاز نوٹس پر دلائل دینے میں ہچکچاہٹ دکھائی۔ منیر اے ملک نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیئے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا شاید منیر اے ملک نے بدنیتی پر پہلے دلائل دینا مناسب سمجھا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس میں شوکاز نہیں ہوا تھا،جسٹس قاضی فائز عیسی کے مقدمے میں شوکاز نوٹس جاری ہوا،شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد ریفرنس میچور ہوگیا۔
جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ ریفرنس کس طرح سے تیار ہوا، ریفرنس کا مواد کیسے اکٹھا ہوا؟ سب سے پہلے ریفرنس کی تیاری پر دلائل دیں۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا سابق چیف جسٹس کو بغیر شوکاز نوٹس کے جوڈیشل کونسل نے کیسے طلب کیا؟
فروغ نسیم نے کہا سابق چیف جسٹس کو شوکاز نوٹس نہیں جاری کیا گیا،سابق چیف جسٹس کے ریفرنس میں آرٹیکل 209 کی پیروی نہیں کی گئی،موجودہ صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل 209 پر مکمل عمل کیا گیا۔
جسٹس منیب اخبر نے کہا فروغ نسیم آپکی اس دلیل سے میں اتفاق نہیں کرتا ،بظاہر لگتا ہے کہ آپ شوکاز نوٹس پر کیس کرنا چاہتے ہیں،اس کا مطلب ہے کہ شوکاز نوٹس سے قبل ریفرنس محض کاغذ کا ٹکڑا نہیں تھا ۔
فروغ نسیم نے کہاشوکاز نوٹس سے قبل ریفرنس کی تیاری کا جوڈیشل ریویو ہو سکتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا درخواست گزار کا الزام ہے کہ ریفرنس کی پوری کارروائی غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے،پہلے مرحلے پر اس ایشو پر دلائل دینا مناسب ہو گا ،ہر ایکشن یا حکم قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
فروغ نسیم نے کہا شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد آرٹیکل 211 کا اطلاق ہو جاتا ہے،آرٹیکل 211 کے اطلاق کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی ۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا اگر ہم آپ کی یہ دلیل نہ مانیں تو پھر کیا آپ ریفرنس کی تیاری کے مراحل پر دلائل نہیں دینگے ۔
فروغ نسیم نے جواب دیا ریفرنس کی تیاری پر دلائل دونگا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا پھر سب سے پہلے ریفرنس کی تیاری پر دلائل دیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا اتنی بحث میں کیوں پڑ رہے ہیں اصل نکتے پر آتے آدھا گھنٹہ لگ گیا۔

فروغ نسیم نے کہا وحید ڈوگر نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو درخواست دی۔
منیر اے ملک نے کہا وحید ڈوگر کی نام نہاد شکایت کی کاپی فراہم نہیں کی گئی۔
فروغ نسیم نے کہا غلطی سے یہ دستاویزات عدالت میں جمع نہیں کروا سکے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا منیر اے ملک نے دو دن اسی نقطے پر دلائل دیے ،حکومتی ٹیم دلائل کے دوران یہاں موجود تھی لیکن شکایت جمع نہیں کروائی۔
فروغ نسیم نے کہا لندن رجسٹری کے کاغذات جعلی نہیں ہوتے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا درخواست گزار کو اس شکایت پر دلائل کا موقع نہیں ملا ۔شکایت کو ریکارڈ پر لائے بغیر اس کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں،وفاقی حکومت اس معاملے پر غلطی پر ہے۔

سپریم کورٹ نے فروغ نسیم سے چار سوالات پر جواب اور دلائل طلب کر لیے ۔
عدالت نے کہا الزام ہے کہ مواد غیر قانونی طریقے سے اکھٹا ہوا ،آپ نے مواد کو غیر قانونی اکھٹا کرنے پر دلائل دینے ہیں، شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی؟ شکایت صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی،ان سوالات کے جوابات دینے ہیں،

فروغ نسیم نے کہا مجھے نقظہ اختتام پر وفاق کی نمائندگی کا کہا گیا۔
عدالت نے کہا آپ کو تیاری کے لیے مزید 12 گھنٹوں کا وقت دے رہے ہیں
جسٹس مقبول باقر نے کہا اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کیں؟

فروغ نسیم ججز کے سوالات پر پریشان دکھائی دیے ۔ اور پوچھا آج کی کارروائی کتنی دیر چلے گی؟
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا دو ماہ بعد مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے، ینچ کے ججز آپ کو بڑے تحمل سے سنیں گے ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی

About The Author