غرناطہ کی گلیوں میں اک نابینا فقیر صدا لگاتا تھا:” مجھے خیرات دو کہ غرناطہ جیسے حسین شہر میں اندھے ہونے سے زیادہ اداس بات کیا ہو سکتی ہے”!کبھی حسین شہروں میں بینائی بھرے نینن بھی اداسی سے بھر جاتے ہیں۔ جوگی، سنت صوفی اور شاعر جانتے ہیں!!
طیارے کے حادثے سے دل بوجھل ہے! عید ہے مگر گلے ملنے پہ قدغن ہے۔پیاروں کو ، بچوں کوچومنا منع ہے۔بزمِ جہاں برہم ہے:
کوئی ہو محرمِ شوخی ترا تو پوچھوں
کہ بزمِ عیشِ جہاں کیا سمجھ کے برہم کی؟
غمِ عشق اور غمِ روزگارکی جدلیات کے اسیر ،غالب نے کہا:
غم اگر چہ جانگسل ہے پہ بچیں کہاں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
صوفیاء ، زندگی کے اسرار پہ مرتے ہیں اور سوختہ جاں شاعروں کو افسردگی قہر ہے۔صوفی کو وصل نشاط ہے تو شاعر کو یک گونہ بے خودی۔لیکن صوفی اور شاعر غم کو تہذیبِ نفس کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ایسے میں شاعری ، نشاط کاری ہے یا catharsis کا ذریعہ ہے۔ غم کو گداز بناتی ہے۔عارضی زندگی aesthetic sensibility سے زیبا ہوتی ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاغذی پیرہن ، کورونا سے پھٹا ہے۔جہاز کے حادثے میں جھلسا ہے۔رومی رح کا عہد فتنہء تاتار سے گھائل تھا۔لیکن رومی میں وہ passion اور جذب و مستی ہے۔ جس کی مثال دنیا کی شاعری میں نہیں ۔ وہ زندگی کو درخت کی مثال سے سمجھاتے ہیں۔درخت، عورت کی علامت ہے۔پھول او پھل دیتا ہے۔رس اور مٹھاس سے بھرا ہوتا ہے اور پختہ ہو جلتا ہے :
حاصلِ عمرم سہ سخن بیش نیست
خام بدم، پختہ شدم، سوختم
میری عمر کا حاصل تین سخن ہیں۔ میں خام تھا، پختہ ہوا اور جل گیا۔مثنوی کا مطلع درخت سے کٹنے، بانسری بننے ، جدائی کے نغمے اور وصال کی خواہش سے بھرا ہے:
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند
میر کا دلی اجڑا تو میر نے پورب کے ساکنوں سے کہا :
کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
ہم رہنے والے ہیں ہم اسی اجڑے دیار کے
عجیب اداسی ہے کہ غالب بوسے کو پوچھیں بھی تو منہ سے بتانے کی آرزو نہ کریں۔ ڈاکٹر بوسے کے نئے محتسب ہیں۔ڈاکٹر فاوچی کہتے ہیں کہ ہزاروں سال پرانی ہاتھ ملانے کی عادت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔کوئی ایسا جرم تو انسان نے کیا ہے کہ خلوتشام دعاو سلام سے گئی۔مارکس نے جینی کے عشق کو مزدور کی محنت سے ملا کر انقلاب کا رومانس تخلیق کیا تھا کہ وہ اک شاعر تھا۔یقین نہ آئے تو مارکس کی جینی پر لکھی نظمیں پڑھ لیجئے۔اس نے تاریخ سے آسمانی عنصر خارج کر کے اسے انسانی اور زمینی بنایا تھا۔اسلم انصاری کہ عہد حاضر کے بڑے شاعر اور ایک سکالر ہیں۔سماجی تاریخ کو شعر میں باندھتے ہیں:
رشتے ہیں تمام تر زمینی
تقدیر ہے ساری آسمانی
آج کی صورتِ حال پر انصاری صاحب کا شعر دیکھئے:
گل کر نہ دے چراغِ وفا ہجر کی ہوا
طولِ شبِ الم مجھے پتھر بنا نہ دے
ظفر اقبال سے زیادہ شاید کسی شاعر نے لکھا ہو۔کلیات در کلیات کی اک اقلیم ہے جس میںتازگی، جذبہ اور نغمگی متلاطم ہیں۔اردو زبان کو نئی وسعت سے آشنا کرنے والے شاعر کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ "اردو غزل کہیں سے بھی شروع ہوتی ہو، ختم ظفر اقبال پر ہوتی ہے”:
رات خالی ہی رہے گی مرے چاروں جانب
اور یہ کمرہ ترے خواب سے بھر جائے گا
ان کا اک اور شعر دیکھئے :
کون تھا وہ جو رہا اپنے شب و روز میں گم
مر گئے جس کی منڈیروں پہ کبوتر میرے
وہ بتاتے ہیں کہ یہ شعر لکھنے کے بعد وہ رو پڑے تھے۔
ہمارے ایک دوست سلطان ناصر ہیں ۔ خوب صورت انسان ہیں، شاعری کرتے ہیں۔دنیا کو بہتر بنانے کی آرزو کرتے ہیں ۔ کورونا کی صورتِ حال کو ایک حکایت سے کھولتے ہیں۔ان کی بات "این نیز بگذرد” (یہ بھی گزر جائے گا یعنی This too shall pass) سے بات شروع ہوتی ہے:” اگلے وقتوں میں ایک بادشاہ نے وزیروں سے کہا کہ مجھے ایک ایسا جامع جملہ بتاؤ جسے میں شدید غم میں یاد کروں تو غم زائل ہو جائے اور انتہائی خوشی میں سوچوں تو تجاوز سے بچوں۔ ایک ایسا جملہ جو فتح کے وقت تکبر سے محفوظ رکھے اور شکست میں مایوسی سے بچائے۔ وزیروں مشیروں نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک جملہ اسے ایک انگشتری پر کندہ کر کے دیا کہ وہ جب چاہیں اسے دیکھ کر مطلوبہ کیفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ غم اور خوشی کا تریاق جملہ یہ تھا: این نیز بگذرد یعنی یہ بھی گزر جائے گا۔کہ سب گزرنے والا ہے۔ اچھے دن نہیں رہے تو بُرے دن بھی نہیں رہیں گے۔ کرونا وبا کے یہ دن ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ملاقاتیں، محفلیں، معانقے، مکالمے سب لوٹ آئیں گے۔یہ انسان کا پُرانا ذہنی مسئلہ ہے کہ وہ لمحۂ موجود کو ہی سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور رفتہ و آئندہ کو نہیں دیکھتا۔ مگر تھوڑی سی قلبی و ذہنی توانائی کے ساتھ یہ کیفیت بدل سکتی ہے۔ کرونا واقعی خطرناک ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے تمام طبّی ہدایات پر عمل لازم ہے۔ مگر کرونا کا خوف زیادہ خطرناک ہے۔ لہٰذا خود کو اور اپنے پیاروں کو اس خوف سے بچائیے۔ اِس جنگ میں آپ کے جسم کو ڈھال چاہیے اور آپ کے دل و دماغ کو بھی۔ انسان نے اس سے بڑی جنگیں لڑی ہیں اور فتح یاب ہُوا ہے۔ یقین کیجیے این نیز بگذرد!
اِس وقت میں اُنہیں بھی یاد رکھیے جن کے مسائل آپ سے بہت زیادہ اور وسائل کم ہیں۔ اُن کے مسائل کم کرنے یا وسائل زیادہ کرنے کے لیے کچھ کر پائیں تو یہی انسانیت ہے۔ بس اتنی سی بات ذہن میں رہے کہ:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ (البقرہ :263)
کہ دکھاوے سے صدقہ برباد نہ ہو۔
فیض صاحب کی نظم حوصلہ دیتی ہے:
اِس وقت تو یوں لگتا ہے کہیں کچھ بھی نہیں ہےمہتاب، نہ سورج، نہ اندھیرا، نہ سویراآنکھوں کے دریچوں میں کِسی حسن کی چلمناور دِل کی پناہوں میں کِسی درد کا ڈیراشاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید،اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرااب بیر،نہ الفت، نہ کوء ربط نہ رشتہاپنا کوء تیرا، نہ پرایا کوئی میرا،مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت گھڑی ہےلیکن مرے دل، یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے، ہمت کرو،جینے کو تو اک عمر پڑی ہے۔
غرناطہ کا اداس فقیر خیرات میں یورو مانگتا تھا۔بے چین بادشاہ، سکون کا طالب تھا۔ کورونا کی وحشت اور طیارے کے حادثے سے اداس لوگ عید پر خوشی کے سکے مانگتے تھے!
3
کرونا واقعی خطرناک ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے تمام طبّی ہدایات پر عمل لازم ہے۔ مگر کرونا کا خوف زیادہ خطرناک ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر